استحکام کیلئے معاشی ترقی کے ثمرات عوام تک پہنچانا ضروری

استحکام کیلئے معاشی ترقی کے ثمرات عوام تک پہنچانا ضروری

(تجزیہ:سلمان غنی) آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے اصلاحاتی ایجنڈے کی حمایت کا عزم پاکستان کے معاشی مستقبل کے حوالے سے اہم ہے اور اب یہ امید کی جا سکتی ہے کہ معیشت بحال ہو گی اور اس کی ترقی کے عمل کی جانب بڑھا جا سکے گا۔

بلاشبہ حکومتی معاشی اقدامات کے نتیجہ میں افراط زر اور مہنگائی میں کمی آئی ہے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھے ہیں اور حکومتی پالیسیوں کے نتیجہ میں ہی غیر ملکی و ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے ۔یہ کریڈٹ حکومت کا ہے کہ اس نے سیاسی مخالفین سے الجھنے کی بجائے اپنی سرگرمیوں کا رخ معاشی بحالی اور ترقی کی جانب رکھا اور اب حالات یہ ہیں کہ آئی ایم ایف سمیت اہم مالیاتی ادارے پاکستان کی موجودہ حکومت کو شاباش دیتے نظر آ رہے ہیں اور اگر پاکستان میں معاشی حوالہ سے سیاسی قوتوں کے درمیان اتفاق رائے ہو جائے اور یہ طے پا جائے کہ معیشت پر سیاست نہیں ہوگی اور ملکی ترقی اور خوشحالی کے عمل پر اتفاق رائے سے آگے بڑھیں گے تو کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان نہ صرف معاشی استحکام سے ہمکنار ہوگا بلکہ اس کی خطے میں اہمیت اور حیثیت اور بڑھ سکتی ہے ،یہ بات کہنا ضروری ہے کہ معاشی اشارئیے بہتر ہونے کے باوجود مہنگائی خصوصاً اشیائے ضروریات کی قیمتوں میں اس طرح سے کمی نہیں ہو پا رہی جس کا حکومت دعویٰ کرتی نظر آ رہی ہے ۔

حکومتی اعداد و شمار پر وضاحت طلب کی جائے تو کہا جاتا ہے کہ مہنگائی کی شرح میں اضافہ نہ ہونا ہی اہم ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جب تک حکومتی پالیسیوں کے نتیجہ میں عام آدمی کی زندگی پر مثبت اثرات نہیں ہوں گے ملک میں استحکام نہیں آ سکے گا ،وزیراعظم شہباز شریف عام آدمی پر لوڈ نہ ڈالنے اور اس حوالہ سے اشرافیہ کی قربانی کی بات کرتے نظر آ رہے تھے لیکن عملاً قربانی عام طبقے نے ہی دی ہے جبکہ انتظامیہ کے اخراجات کم ہونے کے بجائے بڑھے ہیں ، جب عوام دیکھتے ہیں کہ ان کی زندگیوں میں اطمینان نہیں اور انہیں دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے نظر آ رہے ہیں لیکن ان کے منتخب ایوانوں کے اراکین کی تنخواہوں میں کئی گنا اضافہ ہورہا ہے تو پھر عوام میں بددلی پھیلتی ہے اور ردعمل آتا ہے ، لہٰذا وزیراعظم شہباز شریف کو چاہئے کہ معاشی ترقی کے ثمرات سے عام آدمی کو محظوظ کیا جائے اور خصوصاََاشیائے ضروریات کھانے پینے کی اشیا میں کمی کا بندوبست ہونا چاہئے ۔

یوٹیلیٹی بلز میں کمی آنی چاہئے اور ملک کو آگے بڑھانے کے لئے انتظامی اخراجات کا سدباب ممکن بنایا جائے اور یہ کام وہ کر سکتے ہیں اگر وہ ملکی معیشت کو خطرناک زون سے نکال کر ترقی کی پٹڑی پر ڈال سکتے ہیں تو پھر انہیں اپنی ان پالیسیوں میں عام آدمی کو ضرور شامل کرنا چاہئے کیونکہ جمہوریت وہی موثر اور مضبوط ہوتی ہے جس میں لوگوں کی زندگیوں میں اطمینان اور ملک میں استحکام ہو جہاں تک موجودہ حکومت کی پالیسیوں پر ان کے مخالفین کی تنقید کا تعلق ہے تو جب حکومت ڈیلور کرتی دکھائی دے گی اور عام آدمی کو ریلیف ملتا نظر آئے گا تو پھر سیاسی مخالفین کی کون سنے گا اور حقیقت یہی ہے کہ سسٹم پر عدم اعتماد اور حکومتی ساکھ پر سوالیہ نشانات کھڑے کرنے والوں کی سیاست اس لئے کارگر نظر نہیں آ رہی کہ وہ بھی اپنے لئے ریلیف مانگ رہے ہیں اور عوام کی آواز بننے کے لئے تیار نہیں لہٰذا سیاسی محاذ پر سرخرو وہی ہوگا جس کے پاس دکھانے اور بتانے کے لئے کچھ ہو گا ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں