مذاکرات کیلئے پی ٹی آئی کو احتجاج سے ہاتھ کھینچنا پڑے گا

مذاکرات کیلئے پی ٹی آئی کو احتجاج سے ہاتھ کھینچنا پڑے گا

(تجزیہ:سلمان غنی) پی ٹی آئی دس محرم کے بعد حکومت کے خلاف کسی قسم کے احتجاج اور احتجاجی تحریک کے حوالہ سے ہنوز کنفیوژن سے دوچار ہے اور پارٹی کے ذمہ داران اس حوالہ سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہتے نظر آ رہے ہیں۔

 کہ پارٹی کی جانب سے انہیں اس حوالے سے کوئی ہدایات اور حکمت عملی سے آگاہ نہیں کیا گیا جبکہ دوسری جانب خود پی ٹی آئی کے اندر مذاکرات اور مفاہمتی عمل کے حوالے سے غور و خوض جاری ہے اور بظاہر دیکھنے میں آ رہا ہے کہ پارٹی میں سیاسی سوچ و اپروچ کے حامل افراد موجودہ حالات کو کسی قسم کے احتجاج کے حوالے سے سازگار نہیں سمجھتے اور ان کی رائے ہے کہ انہیں اپنے لئے سیاسی راستہ تلاش کرنا چاہئے تاکہ وہ دوبارہ سے فعال ہو کر سیاسی میدان میں اپنی سرگرمیوں کا آغاز کر سکیں اور دوسری طرف جیلوں میں موجود اپنی جماعت کے بانی و دیگر رہنماؤں کی رہائی کو یقینی بنایا جا سکے ۔ویسے دیکھنے میں آ رہا ہے کہ وہ افراد جو پس پردہ بات چیت کی مدد سے اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کے درمیان مفاہمت کا کوئی راستہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہے تھے ان کو بھی تاحال ناکامی اور مشکلات کا سامنا ہے ،یہی وجہ ہے کہ پارٹی کے اندر سے آواز اٹھ رہی ہے کہ اگر مفاہمت یا ڈائیلاگ قابل قبول نہیں تو آپ پھر سیاسی طاقت کا استعمال کر کے دیکھیں ۔عموماً سیاسی جماعتیں کسی بھی حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کے لئے اپنے ساتھ سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلتی نظر آتی ہیں اور عوام کی سپورٹ حاصل کی جاتی ہے ، لیکن یہاں تو تحریک انصاف کے اندر ہی احتجاج کی تحریک موجود نہیں ،پارٹی کے ایک اہم عنصر کی خواہش ضرور ہے کہ کسی طرح پھر سے سیاسی میدان کو گرمایا جائے ۔

پی ٹی آئی کے لئے اپنے احتجاجی پروگرام میں ایک بڑا اپ سیٹ اب خود پختونخوا ہے ،جہاں کی حکومت نے کوشش تو بہت کی لیکن احتجاج کو نتیجہ خیز نہ بنا سکی، پی ٹی آئی کے احتجاجی عمل کی ناکامی میں بڑا کردار پنجاب کا بھی ہے جہاں پی ٹی آئی ایک بڑی پارٹی کے طور پر تو موجود ہے اس کا ووٹ بینک بھی ہے لیکن حکومتی انتظامی حکمت عملی کی وجہ سے پی ٹی آئی یہاں نہ تو بڑا احتجاج کر سکی اور نہ ہی اسلام آباد میں کسی بڑے احتجاج کے حوالہ سے بڑا کردار ادا کر سکی ۔اس کی ایک بڑی وجہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی لیڈر شپ نہ ہونا ہے ،کیونکہ وہ جیلوں میں بند یا منظر سے غائب ہیں۔ویسے بھی پارٹی ذمہ داران اور اراکین اسمبلی بار بار کی احتجاجی کالوں سے تھک چکے ہیں ، پی ٹی آئی کے لئے سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ ان کی سینئر قیادت اور بانی پی ٹی آئی کے درمیان مشاورتی عمل بند ہے اور اگر حکومت واقعتاً مذاکراتی عمل میں سنجیدہ ہے تو اسے اپنے اس بند دروازے کو کھولنا ہوگا ،اگر بانی پی ٹی آئی کو اپنے موقف میں لچک پیدا کرنا ہے تو دوسری طرف حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی تعاون کے لئے لچک پیدا کرنا ہوگی اور تلخیوں میں کمی لانا ہوگی ،اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کامیاب مذاکرات اور ڈائیلاگ کے لئے احتجاجی تحریک سے فی الحال ہاتھ کھینچنا پڑے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں