بجلی بلوں اور لوڈشیڈنگ سے تنگ عوام نے سولر کا رخ کرلیا

بجلی بلوں اور لوڈشیڈنگ سے تنگ عوام نے سولر کا رخ کرلیا

کراچی(اے ایف پی)پاکستان میں قومی بجلی کے نظام سے مایوس ہو کر شہری بڑی تعداد میں سولر پینلز کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔ گرمی، طویل لوڈشیڈنگ اور بڑھتے ہوئے بلوں نے امیروں سے لے کر غریبوں تک کو اس متبادل توانائی کی طرف موڑ دیا ہے۔

ملک بھر میں گھروں کی چھتوں پر سولر پینلز عام منظر بن چکے ہیں۔ 2020 میں توانائی کے مجموعی نظام میں سولر کا حصہ صرف 2 فیصد تھا، لیکن 2024 میں یہ بڑھ کر 10.3 فیصد تک جا پہنچا۔ حیران کن طور پر 2025 کے ابتدائی پانچ ماہ میں یہ شرح بڑھ کر 24 فیصد ہوگئی، جو کہ ملک کا سب سے بڑا توانائی کا ذریعہ بن چکا ہے ۔اس تبدیلی سے پاکستان اپنے 2030 تک 60 فیصد توانائی قابل تجدید ذرائع سے حاصل کرنے کے ہدف کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔زیادہ تر سولر آلات پاکستان ہمسایہ ملک چین سے درآمد کرتا ہے ، جہاں حالیہ ٹیکنالوجی اور زائد پیداوار کے باعث قیمتیں کم ہو چکی ہیں۔بجلی کے صارفین کی کمی سے حکومت پریشان ہے، جو پہلے ہی 8 ارب ڈالر کے بجلی کے شعبے کے قرضوں میں جکڑی ہوئی ہے۔ حکومت نے حال ہی میں درآمدی سولر پر 10 فیصد نیا ٹیکس لگا دیا اور صارفین سے اضافی بجلی خریدنے کی قیمت بھی کم کرنے کی تجویز دی ۔حکومت کی ایک رپورٹ کے مطابق، سولر توانائی میں اضافے نے قومی بجلی کے نظام پر مالی بوجھ ڈال دیا، جس سے بجلی مزید مہنگی ہو رہی ہے۔ کراچی کے کاروباری شخص ارسلان عارف کا کہنا ہے کہ ان کی ایک تہائی ماہانہ آمدن صرف بجلی کے بل میں جاتی تھی، اس لیے انہوں نے 14 لاکھ روپے میں 10 کلو واٹ کا سولر سسٹم لگایا۔ اب وہ بجلی بند ہونے کے خوف کے بغیر اپنا کیٹرنگ کا کاروبار جاری رکھ سکتے ہیں۔اسی طرح، سیالکوٹ کے فیکٹری مالک حماد نور نے 2023 میں سولر لگوایا اور 18 ماہ میں خرچہ پورا کرلیا۔ اب وہ ہر ماہ 10 لاکھ روپے کی بچت کر رہے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں