مذاکرات کی پیشکش کا کیا اپوزیشن فائدہ اٹھا پائے گی؟
سڑکوں پر آنے کا تو پتہ نہیں تاہم محمود اچکزئی پر انحصار کے خاتمے کا وقت آگیا
(تجزیہ:سلمان غنی)
وزیراعظم شہباز شریف نے ‘‘جائز مطالبات’’ پر اپوزیشن کو مذاکرات کی پیشکش سے یہ پیغام دیا ہے کہ ان کی طرف سے اس حوالے سے کوئی ڈیڈ لاک نہیں ،اس مرحلہ پر مذاکرات کی پیشکش کو اس لئے سنجیدہ قرار دیا جا سکتا ہے کہ مذاکرات کی بات دونوں طرف سے ہو رہی ہے ،بعض حکومتی ذمہ داران خصوصاً وفاقی وزرا اور لیگی قائدین کی جانب سے بھی اس پر بات کی گئی جبکہ اپوزیشن کی دو روزہ قومی مشاورت میں بھی اس کا ذکر ہوا۔اس وقت بڑا سوال یہی ہوگا کہ اپوزیشن کیا اس کا فائدہ اٹھا پائے گی ، کیونکہ بانی پی ٹی آئی کی جانب سے پاکستان کے سکیورٹی اداروں اور ان کی قیادت کو ٹارگٹ کرنے کے عمل نے خود ان کی اپنی جماعت کے لئے بھی مشکلات کھڑی کر دی ہیں اور وہ جو مفاہمت کے حامی تھے وہ بھی اپنے لیڈر کے اس بیانیہ سے خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹ گئے ہیں ،اب ایک کوشش محمود خان اچکزئی اور علامہ ناصر عباس کے ذریعہ کچھ سیاستدانوں اور سول سوسائٹی کو ساتھ ملا کر کی گئی ، تاہم بانی پی ٹی آئی کے ٹویٹ اور وزیراعلیٰ پختونخوا سہیل آفریدی کو سٹریٹ پاور بروئے کار لانے کی ہدایت سے یہ ساری مشق دھری کی دھری رہ گئی ۔واقفان حال تو یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ اپوزیشن کے سڑکوں پر آنے کا تو پتہ نہیں البتہ محمود اچکزئی پر انحصار اور اعتماد کے خاتمہ کا وقت ہوا چاہتا ہے ۔
اب دیکھنا یہ ہوگا کہ ردعمل پہلے کہاں سے آتا ہے ۔ لہٰذا مذاکراتی عمل کا بستر تو گول خود بانی پی آئی اور ان کی بہن علیمہ خان نے کر دیا ہے اوراب وزیراعظم شہباز شریف کی اس مثبت پیشکش کا مثبت جواب آنے کا امکان کم ہی نظر آ رہا ہے ۔ جہاں تک مطالبات کا سوال ہے تو اپوزیشن نے وہی مطالبات کئے ہیں جو ماضی میں بھی کرتی رہی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ ملک میں بحرانی کیفیت کا خاتمہ تبھی ممکن ہوگا جب ملک میں ایک غیر جانبدار الیکشن کمیشن اور آزادانہ انتخابات یقینی بنیں گے اور ان کا اہتمام سیاسی قوتیں مل کر ہی کر سکتی ہیں، اور یہ تبھی ممکن ہوگا جب سیاسی قوتیں اقتدار کے لئے عوام کی طاقت پر انحصار کریں گی اور چور دروازوں سے برسراقتدار آنے کا سلسلہ بند ہوگا ،اور حقیقت یہی ہے کہ جو لوگ آج حکومت پر فارم 47کے ذریعہ برسر اقتدار آنے کی بات کرتے ہیں کیا 2018کے انتخابات شفاف تھے ، کیا ایک شخص کو مسند اقتدار پر پہنچانے کے لئے وابستگیاں تبدیل کرانے ، انہیں پی ٹی آئی کا حصہ بنانے کے لئے پورا ایک بندوبست سرگرم نہیں تھا، جنوبی پنجاب صوبہ اتحاد کس کے کہنے پر بنایا اور ملایا گیا اور پھر انہیں برسراقتدار لانے کے لئے آر ٹی ایس سسٹم نہیں بٹھایا گیا تھا؟۔ لہٰذا یہ سلسلہ کوئی نیا نہیں پرانا ہے ۔نئے رولز آف گیمز بنا کر آنے والے انتخابات کو شفاف بنایا جا سکتا ہے ،لیکن اس کے لئے سنجیدگی اختیار کرنا ہوگی اور میں نہ مانوں کی رٹ چھوڑ کر سیاسی طرز عمل اپنانا پڑے گا۔