کبھی اپنا احتساب بھی کر لینا چاہیے

اتوار کے اخبارات میں حکومت کی جانب سے ایک اشتہار شائع ہوا، جس میںپچھلے ایک سال کے دوران شروع کئے جانے والے ترقیاتی منصوبوں کی تفصیل شامل کی گئی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ تفصیل خاصی متاثر کن تھی۔پچھلے ایک سال کے اندر انرجی کا شعبہ ایسا ہے ،جس میں واقعی خاصاکام ہوا ۔حکومت نے تمام دستیاب آپشنز پر عمل کرنے کی کوشش کی ہے۔کوئلے پر زیادہ توجہ دی گئی، کئی بڑے کول پراجیکٹس شروع ہوئے، بڑے ڈیموں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جارہا، بھاشا کے لئے فنڈز نہیں مل رہے تو داسو ڈیم پر پیش رفت شروع کر دی گئی، اس رن آف ریور پراجیکٹ سے کئی ہزار میگا واٹ بجلی حاصل ہوگئی۔ ہائیڈل سے زیادہ سستی بجلی بنانا ممکن ہی نہیں، اس لئے ہمیں زیادہ سے زیادہ توجہ ہائیڈل پراجیکٹس پر دینی چاہیے ۔بھاشا بھی ہر حالت میں بنانا ہوگا کہ اس سے بجلی بنانے کے ساتھ ساتھ کئی ملین کیوسیک پانی بھی جمع ہوسکے گا۔ ان سب سے بھی زیادہ ضروری پہلے سے چل رہے پراجیکٹس کو مکمل کرنا ہے کہ ہمارے بیشتر پراجیکٹس نااہلی اور سستی کے باعث کئی سال لیٹ ہوچکے ہیں اور یوں ان کی کاسٹ دوگنی تگنی ہوچکی۔ متبادل توانائی کے منصوبوںپر بھی کام جاری ہے، ونڈ ملز کے ساتھ سولر پراجیکٹس پر بھی فوکس کیا گیا۔ سولر کا ہمارے ہاں بہت زیادہ پوٹینشل ہے مگر اس کے سیپریٹ سالوشن زیادہ کامیاب ہیں یعنی ہر شخص اپنے گھر میں سولر پینل لگا کر پنکھے اور بتیاں وغیرہ اس سے چلائے تو یہ زیادہ موثر ثابت ہوگا۔ویسے تو سولر سے اے سی تک چل رہے ہیں،مگر ابھی وہ خاصے مہنگے ہیں، اگر اس کا رواج چل پڑا تووہ بھی سستے ہوجائیں گے۔ میرے خیال میں شوکت عزیز کے دورمیں جس طرح بنک لیزنگ سے فریج، اے سی، گاڑیوں وغیرہ کے لئے قرضے دئے گئے تھے، ویسے ہی سولر پینل اور ڈرائی بیٹری کے لئے بھی ملنے چاہئیں، اس قرضے کا انٹرسٹ ریٹ کم کر دیا جائے تو لاکھوں لوگ سولر پینل استعمال کر سکیں گے، لوڈ شیڈنگ کی اذیت بھی کم ہوگی اور بجلی کا لوڈ بھی کم ہوگا کہ یوپی ایس تو بجلی ہی سٹور کرتا اور اس کا بیشتر حصہ ضائع کرتا ہے، اس کی اسی فیصد بجلی تو بیکار چلی جاتی ہے۔سو ارب روپے سے جو مختلف منصوبے شروع کئے گئے، ان میں سے بعض پر تنقید بھی کی جا رہی ہے بہتر ہوگا کہ اس کا کچھ حصہ اس موسم گرما میںسولر پینل لوگو ں تک پہنچانے میں صرف کیا جائے۔ 
میں حکومتی ترقیاتی اور دیگر منصوبوں کی فہرست پڑھتے ہوئے یہ سوچ رہا تھا کہ آخر ان سب کابھرپور تاثر کیوں نہیں بن رہا۔ ن لیگ کی میڈیا مینجمنٹ سب سے بہتر ہے۔اول تو میڈیا میں ان کے حامی بہت سے ہیں، جو اس قدر آئوٹ آف دی وے جا کر حمایت کرتے ہیں کہ ان پر پارٹی ترجمان ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ دوسرا انہیں میڈیا پر اثر انداز ہونے اور اپنی من پسند کوریج لینے کا ہنر آتا ہے۔اس سب کے باوجود عوامی حلقوں میں مایوسی اور فرسٹریشن کی شدید لہر موجود ہے۔ ہر ایک برملا حکومت کی ناکامیوں کے قصے بیان کرتا ہے۔ جو تاجر برادری مسلم لیگ ن کی اصل قوت تھی ، اس میں شدید انتشار ہے، تحریک انصاف کی حالیہ ریلی اور احتجاج کے لئے فیصل آباد کے بڑے بڑے تاجر رہنمائوں نے پیسے دئیے اور وہ کھلم کھلا حکومت کو صلواتیں سنا رہے ہیں۔صرف ایک سال کے اندر یہ حال ہوگیا کہ عوامی، سیاسی اور اب صحافتی حلقوںمیں یہ سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ ہمارے سیاستدان ناکام کیوں ہوجاتے ہیں؟ ڈکٹیٹر شپ کے خلاف برسوں جدوجہد کر کے سیاستدانوں کو اقتدار میں لایاجاتا ہے، وہ اس بری طرح ناکام ہوتے ہیں کہ ان کا دفاع ہی نہیں ہوپاتا۔ پیپلزپارٹی کے پچھلے پانچ برسوں میں بھی بار بار یہی دلیل دہرائی جاتی تھی کہ سسٹم کو چلنے دیا جائے تو ٹھیک ہوجائے گا۔ یعنی یہ مان لیا گیا تھا کہ سیاسی حکومت پرلے درجے کی نااہل اور ناکام ہے مگراسے رعایت دی جائے کہ کہیں سسٹم کونقصان نہ پہنچ جائے۔اس پر چڑ کر ایک ستم ظریف نے کہہ دیا کہ یہ بدبخت سسٹم ہے کہاں ؟ یہ ہے کون جسے نقصان پہنچنے کا خطرہ لاحق ہے؟اب یہی حال مسلم لیگ ن کا ہوگیا ،پہلے سال ہی میں پرفارمنس کے بجائے صرف اخلاقی بنیادوں پر حکومت کو چلنے کی بات کی جا رہی ہے۔ حکومت کا یہ حال اپوزیشن کے پروپیگنڈے کی بنیاد پر بھی نہیں ہوا۔ اپوزیشن کی سب سے اہم اور بڑی جماعت تحریک انصاف ہے بلکہ اپوزیشن ہے ہی وہی، پیپلزپارٹی توسردست فرینڈلی اپوزیشن کر کے مسلم لیگ ن کا پچھلا قرض اتار رہی ہے۔ تحریک انصاف کا یہ حال ہے کہ وہ اپنے اچھے کاموں کا کریڈٹ بھی نہیں لے پاتی،حکومتی جماعت کے خلاف اس نے پروپیگنڈہ کیا کرنا ہے؟
ہماری سیاسی جماعتوں ،خاص کر حکمران مسلم لیگ کو خرابی اپنے اندر ڈھونڈنی چاہیے۔ اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کی ذمہ داری دوسروں پر تھوپ دینا ہمارا سیاسی شعارہے، بات مگر اس سے بنتی نہیں ہے۔ حکومتی جماعت کو اپنا احتساب خود کرنا چاہیے۔انہیں یہ جاننا ہوگا کہ جمہوریت ایک مکمل پیکیج کا نام ہے ، صرف پارلیمنٹ منتخب 
کرنے ، حکومت بنانے اور وزارتیں بانٹنے کا نام جمہوریت نہیں۔ اس میں رویوں کی اصلاح کرنی پڑتی ہے۔ جمہوریت ایک سوچ اور مائنڈ سیٹ کا نام ہے۔ اپنے مخالفین کو برداشت کرنا ، انہیں سسٹم میں جگہ دینے اور نچلی سطح تک عوام کو شمولیت دینا بہت ضروری ہے۔ ہماری سیاسی جماعتیں حکومتیں شہنشاہوں کے انداز میں چلاتی ہیں۔ ان میں اور کسی ڈکٹیٹر کے اندا ز حکومت میں کچھ فرق نہیں ہوتا۔ جناب زرداری نے پانچ سال بادشاہوں کے انداز میں حکومت چلائی، جسے چاہا نواز دیا، جسے چاہا دھتکار دیا۔ کمر کا علاج کرنے والے ڈاکٹر کو انرجی کا مختار کل بنا دیا، دانتوں کے ڈاکٹر کو مشیر خاص،جس پر کرپشن کے زیادہ الزامات تھے،عدالت نے جس پر شکوک ظاہر کئے تھے، اسے وزیراعظم بنا دیا۔ ایک صاحب جو مرکزی قیادت میں شمار ہونے لگے تھے، ان کی بڑھکیں ملک بھر میںگونجا کرتیں،''صاحب‘‘ ناراض ہوئے تو اقتدار کے ایوانوں میں ان کا داخلہ بندہوگیا، وہ عبرت کی مثال بن گئے۔ شہنشاہت اور کیا ہوتی ہے؟ یہی تو ڈکٹیٹر کرتے ہیں۔ ون مین شو۔ اپنی من پسند پالیسیوں کو نافذ کرنا، مشیروں کو درخوراعتنا نہ سمجھنا۔
ہمارے فوجی ڈکٹیٹروں نے تاریخ سے اتنا تو سیکھ لیا ہے کہ وہ اپنی اولاد اور رشتے داروں کو دور رکھتے ہیں۔ جنرل ضیاء کی موت کے بعد ان کے صاحبزادے منظر عام پر آئے تھے، جنرل پرویز مشرف کے بیٹے کی تصویر تک اخبارات کے پاس نہیں۔ ہماری سابق حکمران جماعت اور موجود ہ حکمران جماعت کی قیادت نے زیادہ زور اپنے جانشینوں کو متعارف کرانے میں لگا دیا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ کس ضابطے کے تحت ملک کا سب سے بڑا ترقیاتی پروگرام ایسی شخصیت کو سونپ دیا ،جس کا واحد کریڈٹ قریبی رشتے داری ہے۔ امریکہ اور یورپ میں تو خیر اس کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا، ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں بھی یہ ممکن نہیں کہ من موہن سنگھ اپنی صاحبزادی کو اس قسم کا پروگرام سونپ دیں۔اس طرح کے کام عوامی بیزاری کا باعث بنتے ہیں۔ اہم عہدوں پر اہل لوگوں کی جگہ اقرباپروری اور مخصوص برادری کے لوگوں سے پُر کی جائے تو حکومتی اداروں کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔اسی طرح ایک طرف تو جمہوریت کی رٹ ، دوسری طرف جمہوریت کی نرسری اور سب سے اہم پہلی سیڑھی بلدیاتی انتخابات سے گریز ۔ بلدیاتی ادارے بننے سے ہزاروں لوگ اس جمہوریت سسٹم کا حصہ بن جائیںگے، خود حکمران جماعت کی صف دوم ،سوم کے لیڈر ایڈجسٹ ہوجائیں گے، اس کے باوجود اس سے گریز ۔ وجہ صرف یہی کہ منتخب بلدیاتی نمائندے برداشت نہیں ، ایڈمنسٹریٹروں سے معاملات چلانا زیادہ دل خوش کن لگتا ہے۔یہی غلطیاںہیں جن سے جمہوریت مستحکم نہیں ہوپاتی۔ یہ طعنہ عام دیا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ خارجہ پالیسی نہیں بنانے دیتی۔ کیا سیاسی حکومتوںنے ملک میں ایک بھی ایسا سویلین ادارہ قائم کیا ہے ،جہاںخارجہ پالیسی کے حوالے سے غور وفکر کیا جائے؟ کوئی ایک تھنک ٹینک ایسا ہے،جو ان معاملات کو دیکھے، جہاں ملک کے ممتاز ماہرین بیٹھے ہوں، جو خارجہ معاملات کو دیکھیں اور اپنی تجاویز دیں، دس پندرہ برس اقتدار سے باہر رہے، ایک بھی وزیرخارجہ تیار نہیں کر سکے، ضعیف العمر سرتاج عزیز ہی کو دوبارہ ذمہ داری سونپنی پڑی۔ اسٹیبلشمنٹ سے معاملات لینے کیلئے ان سے زیادہ منظم، ٹھوس اور اداراتی بنیادوں پر پالیسیاںبنانی ہوں گی، صرف اقوال زریں گنگنانے اور گھسے پٹے کلیشے سنانے سے بات نہیں بنے گی۔ سیاستدانوں کو کبھی اپنا احتساب خود بھی کر لینا چاہیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں