"DLK" (space) message & send to 7575

پی آئی اے کی ہڑتال کے اسباق

پی آئی اے کے محنت کشوں کی حالیہ ہڑتال نے اس ملک میں طبقاتی جدوجہد کی تاریخ کا اہم باب رقم کیا ہے، جس سے موجودہ معروضی صورت حال اور آنے والے وقت کے حوالے سے کئی نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں۔ پی آئی اے کے تمام آپریشن بشمول پروازیں، کارگو اور ٹکٹنگ وغیرہ، آٹھ دن تک معطل رہے۔ عام طور پر پائلٹوں کو 'وائٹ کالر‘ ملازمین سمجھا جاتا ہے لیکن نجکاری کے خلاف اس تحریک کا دبائو اس قدر شدید تھا کہ پائلٹ ایسوسی ایشن (PALPA) بھی ہڑتال کا حصہ بن گئی۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ محنت کش جب جرأت مندی اور عزم سے میدان عمل میں اترتے ہیں تو محنت کش طبقے کی نسبتاً مراعات یافتہ پرتیں بھی طبقاتی جدوجہد کی طرف مائل ہو جاتی ہیں۔
ہڑتال کے دوران ہم نے اپنے مضمون میں واضح کیا تھا کہ ''یہ ہڑتال ایک چنگاری ہے جو سماج کی سطح کے نیچے سلگتی طبقاتی جدوجہد کا اظہار ہے۔ وسیع پیمانے کی طبقاتی جدوجہد فی الوقت مشکل معروضی حالات اورنسبتاً سماجی جمود کے نیچے دبی ہوئی ہے۔۔۔۔ حکمرانوں کے حملوں کو پسپا کرنے کے لئے یونائیٹڈ فرنٹ تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔۔۔۔ سب سے اہم عام ہڑتال کی کال ہے۔۔۔۔ ایک ادارے تک محدود ہڑتال زیادہ لمبے عرصے تک نہیں چل سکے گی۔۔۔۔ مذاکرات کی بھول بھلیوں میں ڈال کر مظاہرین کو تھکانے اور حوصلے پست کرنے کی کوشش بھی کی جائے گی۔۔۔۔‘‘۔
ہڑتال کا خاتمہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے چیئرمین سہیل بلوچ کی 'اچانک‘ اور یکطرفہ پریس کانفرنس کے ذریعے 9 فروری کو ہوا جس میں ان کا کہنا تھا کہ ''ایک مہربان دوست نے ہمیں ہڑتال ختم کرنے کا مشورہ دیا ہے‘‘۔ انہوں نے اس موقع پر تمام محنت کشوں سے کام پر واپس آنے اور فلائٹ آپریشن میں خلل ڈالنے والی کسی بات پر کان نہ 
دھرنے کی اپیل بھی کی۔ مزید بتایا گیا کہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی اور شہباز شریف کے درمیان اگلے روز تمام تنازعات پر ''مذاکرات‘‘ ہوں گے۔ صحافیوں کے اس سوال پر کہ کیا جوائنٹ ایکشن کمیٹی اپنے مطالبات سے دستبردار ہو رہی ہے، سہیل بلوچ کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے ساتھ ملاقات کے بعد پیش رفت سے آگاہ کیا جائے گا۔ 
جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا یہ اعلامیہ درحقیقت 'مصالحت‘ ، اطاعت اور اعتراف شکست کے سوا کچھ نہیں تھا۔ طبقاتی جدوجہد پر یقین نہ رکھنے والے اور دوسرے شعبوں کے محنت کشوں کو متحرک کرنے میں ناکام درمیانے طبقے کے رہنمائوں کی یہ روایتی روش ہے۔ اس واقعے نے ایک بار پھر قیادت اور اس کے سیاسی و نظریاتی جھکائو کے تحریکوں میں فیصلہ کن کردار کو ثابت کیا ہے۔ 
ہڑتال کے دو دن بعد محنت کشوں پر مختلف اطراف سے دبائو بڑھنے لگا تھا۔ اس کی سب سے اہم وجہ یہ تھی ہڑتال دوسرے اداروں، بالخصوص سرکاری اداروں میں سرایت نہیں کر سکی جس کی بنیادی ذمہ داری ان اداروں کے ٹریڈ یونین رہنمائوں پر عائد ہوتی ہے۔ ہڑتال میں پہلی بڑی دراڑ 7 فروری کو نظر آئی جب پی آئی اے کی پرواز اسلام آباد سے جدہ کے لئے روانہ ہوئی۔ اسلام آباد ایئر پورٹ سے جب پروازوں کا سلسلہ شروع ہوا تو حکومت کے لئے باقی شہروں کے محنت کشوں کی ہمت توڑنا آسان ہو گیا۔ پی آئی اے کے ایک اعلیٰ اہلکار کے مطابق '' زمینی عملے کے طور پر کام کرنے والے پائلٹوں سے جہاز اڑانے کو کہا گیا، ایک بار جب یہ کوشش کامیاب رہی تو باقی شہروں میں بھی یہی حکمت عملی اختیار کی گئی‘‘۔
پائلٹوں، زمینی عملے اور دوسرے شعبوں کے محنت کشوں کے درمیان ہم آہنگی کے فقدان اور مرکزی کردار ادا کرنے والے محنت کشوں اور ٹریڈ یونین رہنمائوں کی پکڑ دھکڑ کے ذریعے حکومت اسلام آباد سے دوسرے شہروں کی نسبت جلد پروازیں جاری کروانے میں کامیاب ہوئی۔ پیپلز یونٹی سے وابستہ کارکنان اور رہنمائوں کو بالخصوص عتاب کا نشانہ بنایا گیا۔ انتظامیہ کے ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ایئر لیگ (نواز لیگ سے وابستہ CBA یونین) کے مقامی رہنما، انتظامیہ اور حکام سے مسلسل رابطے میں تھے اور درمیانے یا بالائی رینک کے ملازمین کو ہڑتال توڑنے پر قائل کرتے رہے۔ یہ امر حیران کن نہیں ہے کہ پہلی غداری پائلٹ یونین کے کچھ افراد کی جانب سے ہی کی گئی۔ PALPA کے صدر عامر ہاشمی نے ٹی وی انٹریو میں 'وضاحت‘ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''پائلٹوں نے تو ہڑتال کی ہی نہیں تھی۔ وہ شروع سے ہی احتجاج کا حصہ تھے لیکن مکمل ہڑتال کی کبھی حمایت نہیں کی‘‘۔ اس بیان کے ذریعے عامر ہاشمی نے ان جرأت مند پائلٹوں کے عزم و ہمت پر بھی پانی پھیرنے کی کوشش کی جنہوں نے 2 فروری کو کراچی میں محنت کشوں کے قتل کے بعد جہاز اڑانے سے انکار کر دیا تھا۔
محنت کشوں سے ہمدردی رکھنے والے صحافیوں کو کوریج کی اجازت نہیں دی گئی، مجموعی طور پر میڈیا کو کنٹرول کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ یہ اس ''جمہوریت‘‘ کا حقیقی چہرہ ہے۔ شریف برادران اور ان کی پارٹی آخر کار ضیا آمریت کی ہی پیداوار ہیں۔ عوام دشمنی اور محنت کشوں سے نفرت ان کی نفسیات اور پالیسیوں کا بنیادی جزو ہے۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ ریاستی دھونس، دھمکیوں، جبر اور خواتین کو ہراساں کرنے کے اوچھے ہتھکنڈوں کے باوجود ہڑتال کئی دن تک کامیابی سے جاری رہی۔ بظاہر پراعتماد باڈی لینگویج کا ناٹک کرنے والے حکمرانوں کی نیندیں اڑی ہوئی تھیں۔ ہڑتال کو سبوتاژ کرنے والے ''مذاکرات‘‘ کی راہ ہموار کرنے کے لئے حمزہ شہباز کو خفیہ طور پر کراچی بھیجا گیا۔ 1952ء کا نام نہاد '' لازمی سروس ایکٹ ‘‘ نافذ کیا گیا، یونین رہنمائوں کو اغوا کروایا گیا، ایئر ہوسٹسز کے گھروں کے باہر پولیس کی گاڑیاں بھیجی گئیں۔ محنت کشوں کو خریدنے کے لئے پیسے اور ترقی کی آفریں بھی کی گئیں۔ لیکن سوموار 8 فروری کو بھی حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود صرف 20 فیصد سٹاف ہی ڈیوٹی پر آیا۔
ہڑتال کے خاتمے کے بعد جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی شہباز شریف سے ملاقات سراسر ڈرامہ بازی تھی جس میں صرف یہ طے پایا کہ شہباز شریف ان کے مطالبات اپنے بڑے بھائی کے سامنے رکھیں گے۔ اب محنت کشوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لئے ہڑتال میں ہراول کردار ادا کرنے والے ملازمین کو نوکریوں سے برطرف کیا جارہا ہے۔ اب تک 165ملازمین کو اس سلسلے میں انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ آنے والے دنوں میں اس طرح کی مزید انتقامی کاروائیاں ہوں گی۔ 
سماج پر حکمران طبقے کی مسلط کردہ ''رائے عامہ‘‘ نجکاری کے حق میں استوار کرنے کی کوشش گزشتہ لمبے عرصے جاری ہے۔ اس لحاظ سے بھی پی آئی اے کی ہڑتال دھارے کے مخالف آگے بڑھنے کی جرأت مندانہ کوشش تھی۔ اس وقتی ناکامی سے کئی اسباق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ مثلاً ایک یکجا یونین کی تشکیل کی اشد ضرورت ہے جس پر بھروسہ کیا جا سکے اور جس کے رہنما سرمایہ داری کی تاریخی متروکیت اور اس کے خلاف طبقاتی جدوجہد پر پختہ یقین رکھتے ہوں۔ اسی طرح کسی بھی ادارے میں ہڑتال کی کامیابی کے لئے لازم ہے کہ دوسرے اداروں کے محنت کشوں، نوجوانوں، طلبہ اور عوام کی وسیع تر پرتوں کو متحرک کیا جائے اور حکمرانوں کے خلاف یکجا ہو کر محاذ کھولا جائے۔ 
اس پسپائی کے منفی اثرات نجکاری سے بر سر پیکار دوسرے ریاستی اداروں کے محنت کشوں پر بھی مرتب ہوں گے۔ لیکن حکمران جس نہج پر اتر آئے ہیں ایسے میں محنت کشوں کے پاس لڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ سماج پر حاوی پراگندگی، یاس اور جمود کی کیفیت زیادہ عرصے تک برقرار نہیں رہ سکتی۔ اس ہڑتال نے ثابت کیا ہے کہ انتہائی کٹھن حالات میں بھی محنت کش حکمرانوں اور ان کے نظام کو للکار سکتے ہیں۔ یہ محنت کش ہی ہیں جو ٹرانسپورٹ، بجلی اور مواصلات کا نظام چلاتے ہیں، صنعتوں کا پہیہ گھماتے ہیں اور زمین کا سینہ چیر کر اناج اگاتے ہیں۔ محنت کش طبقہ ہی ہے جو اس نظام کو اکھاڑ سکتا ہے اور سوشلسٹ بنیادوں پر سماج کی تعمیر نو کر سکتا ہے۔ لیکن یہ تاریخی فریضہ سرمایہ داری کا متبادل نظریہ، پروگرام اور ٹھوس لائحہ عمل رکھنے والی قیادت کے بغیر ادا نہیں ہو سکتا جوایک انقلابی پارٹی ہی ادا کر سکتی ہے۔ آخری تجزیے میں محنت کشوں کی ہر جدوجہد، ہر ہڑتال اور ہر تحریک کا سب سے بنیادی سبق یہی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں