"OMC" (space) message & send to 7575

جنگ کا مہورت

ہندو مذہب میں جوتش یعنی ستاروں کے علم کی مذہبی حیثیت ہے اور یہ ہندوئوںکی روزمرہ زندگی کا لازمی جزو ہے۔ بچے کی پیدائش کے وقت جنم کنڈلی بنائی جاتی ہے جس کی بنیاد پر اس کی زندگی کے تمام ادوار کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ ان ادوار کو ’’دشا‘‘ کہتے ہیں۔ یہ دشائیں بھی ستاروں کی گردش کے حساب سے مختلف عرصوں پر محیط ہوتی ہیں۔ ایک بڑی دشا ہوتی ہے جسے ’’مہا دشا‘‘ کہا جاتا ہے اور اس کے اندر چھوٹی چھوٹی کئی دشائیں ہوتی ہیں جنہیں ’’انتردشا‘‘ کہا جاتا ہے۔ شادی کے لیے لڑکے اور لڑکی کی جنم کنڈلیوں کو آپس میں ملاکر دیکھا جاتا ہے کہ یہ ملاپ کیسا رہے گا۔ ان کے درمیان اگر جوڑ موجود نہ ہوتو پوجا پاٹ سے اس کا توڑ کیا جاتا ہے یا پھر رشتہ نہیں کیا جاتا۔ منگلیک جنم پتری اس لڑکی کی ہوتی ہے جسے شادی راس نہیں آتی، ایسی لڑکی کا خاوند مرجاتا ہے۔ اس لیے اس کی اس نحوست کو پوجا سے کسی جانور اور درخت وغیرہ پر منتقل کیا جاتا ہے۔ اسی طرح شادی کے دن کا مہورت نکالا جاتا ہے۔ اس مہورت کو صرف دن نہیں بلکہ مخصوص گھڑی تک محدود کیا جاتا ہے اور اگر مہورت کا وقت نکل جائے تو پنڈت جاپ روک دیتا ہے اور شادی اگلے مہورت تک ملتوی کردی جاتی ہے۔ زندگی بھر کی منصوبہ بندی، الیکشن میں حصہ لینا، انتخابی نشان، کسی کاروبار کا آغاز، کسی فصل کی بوائی ، کسی مکان کا سنگ بنیاد حتیٰ کہ کوئی چھوٹے سے چھوٹا کام بھی ایسا نہیں جس کے بارے میں ہندو مذہب کے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد تک ستاروں کی گردش کے مطابق عمل نہ کرتے ہوں۔ یہ ان کے مذہب کا اٹل اور لازمی جزو ہے۔ راجے مہاراجے اسی بنیاد پر جنگوں پر نکلتے تھے اور فتح یاب ہوتے تھے۔ ہندو پنڈت آج تک محمود غزنوی سے لے کر احمد شاہ ابدالی تک ہرشکست کی ایک ہی تعبیر کرتے ہیں کہ یہ جنگیں ان دنوں میں زبردستی ہم پر مسلط کردی گئی تھیں جب شکست ہمارا مقدرتھی۔ اسی جوتش یا علمِ نجوم کی روشنی میں 2011ء میں بھارت کے ہندوپنڈتوں نے پاک بھارت جنگ کا ایک مہورت نکالا تھا‘ ان کے نزدیک یہ جنگ ہونا لازمی ہے کیونکہ ستارے جنگ وجدال چاہ رہے ہیں۔ یہ ساری کہانی اور پنڈتوں کی پیش گوئی میں نے جولائی 2011ء کے ایک کالم میں یوں تحریر کی تھی: ’’بھارت جس کے پنڈتوں اور نجومیوں نے اس مملکت خداداد پاکستان کے پچاس سال کے اندر خاتمے کی پیش گوئی کی تھی‘ وہ سب کے سب اب اس مملکت کا ایسا نقشہ پیش کررہے ہیں جو 2013ء میں چین کی پشت پناہی سے بھارت پر حملہ کردے گا۔ بھارت کی اقتصادی ترقی 2011ء میں رک جائے گی اور وہ اس حملے کا مقابلہ مشکل سے کرسکے گا۔ البتہ وہ کہتے ہیں کہ ہمالیہ کے پہاڑوں سے ایک مہارشی اترے گا اور وہ ان کی فوج کی رہنمائی کرے گا۔ ان کے نزدیک یہ مہارشی گائن گینگ کے غار میں چھپا بیٹھا ہے۔ پاکستان کے بارے میں ان کے خیالات کیوں بدلے‘ یہ قابل غور ہے۔ ویدی نجوم کے مطابق ان کے پنڈت جانتے تھے کہ اگر پاکستان وینس کی مہادشا میں داخل ہوگیا تو پھرناقابل تسخیر ہوجائے گا۔ اس دشامیں داخل ہونے کا خوف انہیں پہلے سے تھا کیونکہ ان کے نزدیک پاکستان کے لگن کا مالک مریخ تیسرے خانے میں ہے جو اس قوم کی عظیم قوت ارادی کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ اس کے ٹوٹنے کی پیش گوئیاں اس لیے کرتے تھے کہ حکمرانی کا زائچے میں چوتھا خانہ ہوتا ہے اور پاکستان کے چوتھے خانے میں سورج، زحل، عطارد اور زہرہ ہیں، یعنی اتنے سارے اقتدار کے بھوکے اسے تباہ کردیں گے۔ لیکن 27دسمبر 2007ء کو پاکستان اپنی نحوست سے نکل کر زہرہ یعنی وینس کی مہادشا میں داخل ہوا ہے۔ یہ مہا دشا بیس سال پر محیط ہے۔ ویدک نجوم کے مطابق زہرہ اپنی سمتی طاقت شمال سے حاصل کرتا ہے اور شمالی علاقے کے لوگ ان بیس سالوں میں اہم کردار ادا کریں گے۔ زہرہ کی اس دشا میں شروع میں حالات بگڑیں گے، پھر مذہبی طاقتوں کا غلبہ شروع ہوگا‘ زہرہ راہو کے ساتھ مل کر مذہبی طاقتوں کے لیے راہ ہموار کرے گی اور مریخ جو افواج کا ستارہ ہے ان کی مدد کے لیے آئے گا۔ یہ وہ زمانہ ہوگا جب 2011ء میں بھارت فسادات اور معاشی ناہمواری کا سامنا کررہا ہوگا‘ جس کے بعد پنڈت 2013ء میں جنگ کی پیش گوئیاں کررہے ہیں۔‘‘ 2011ء میں چھپنے والے اس کالم کا اقتباس اس لیے درج کیا ہے کہ وہ ہندوقوم جو جوتش اور نجوم کے بغیر ایک قدم نہیں اٹھاتی‘ اس کے پنڈتوں نے 2013ء میں جنگ کا مہورت نکال دیا ہے اور غار میں چھپے مہارشی کی آمد اور فتح کی خوشخبری بھی دے دی ہے۔ یہ شادی کا مہورت نہیں کہ اگلے اچھے وقت پر ملتوی کردیاجائے ۔ یہاں تو غار سے مہارشی کی آمد کا اعلان ہے اور اگر یہ وقت گزرگیا تو پھر ایک سوسال تک فتح کا تصور نہیں ہوسکتا۔ عالم الغیب صرف اللہ کی ذات ہے اور صرف اسے معلوم ہے کہ اگلے لمحے اس دنیا میں کیا ہونے والا ہے۔ وہ وحی کے ذریعے سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو آنے والے زمانوں کی خبر دیتا رہا ہے اور آپؐ ان فتنوں سے اپنے صحابہ ؓکو خبردار کرتے رہے ہیں۔ آپؐ نے ان جنگوں کا تذکرہ بھی کیا ہے جو اس مسلم امہ کو پیش آئیں گی۔ لیکن ایک فتنہ جس سے آپؐ نے سب سے زیادہ خبردار کیا وہ فتنہ دجّال ہے۔ صحابہ کرام ؓ اس فتنے کے بارے میں اس قدر پریشان رہتے تھے کہ یوں لگتا جیسے آج ہی وہ ظاہر ہوجائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی عموماً تشہد کی دعائوں میں یہ دعا اکثر مانگتے ’’اللھم اعوذبک من فتنۃ المسیح الدجال‘‘ اے اللہ میں تجھ سے دجال کے فتنے سے پناہ مانگتا ہوں۔ (مشکوٰۃ۔باب تشہد) حیرت کی بات ہے کہ دجال کا ذکر احادیث میں کسی خفیہ مقام پر چھپے ہوئے یا مستور حیثیت میں آیا ہے کہ جب وہ دیکھے گا کہ اس کے ساتھیوں کو شکست ہورہی ہے تو تلملا کر اصفہان کے شہر میں آ کر ظاہر ہو جائے گا‘ جہاں اس کا ساتھ سترہزار یہودی دیں گے۔یہودی اس کے لیے اس قدر تیار ہیں کہ اسرائیل کے بعد یہودیوں کی سب سے بڑی آبادی ایران میں ہے۔ لیکن دجال کے خروج کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا دجال اس وقت تک نہیں نکلے گا جب تک لوگ اس کے تذکرے سے غافل نہ ہو جائیں یہاں تک کہ آئمہ مساجد بھی منبروں پر اس کا تذکرہ کرنا چھوڑ دیں۔ (رواہ عبداللہ ابن الاحمد۔ قال الہیثمی وھی صحیحہ)۔ میں یہاں جہاد ہند کی ان اٹھارہ احادیث کا تذکرہ نہیں کرنا چاہتا جس میں اس جہاد کا وقت بتاتے ہوئے رسول اللہﷺ نے فرمایا جب مسلمان ہند کے بادشاہوں کو زنجیروں میں جکڑ کر لائیں گے تو اپنے درمیان عیسیٰ ابنِ مریم کو پائیں گے۔ عیسیٰ ابنِ مریم ہی کے ہاتھوں دجّال کا خاتمہ ہونا ہے۔ یہ معرکہ چونکہ حق و باطل کا آخری معرکہ ہے‘ اس لیے اللہ نے کشف والہام کے ذریعے اپنے خاص بندوں کو اس کی شدت سے با خبر کیا ہے۔ اس خبر کے وارث نعمت شاہ ولی نے 548 ہجری یعنی آٹھ سو سال قبل ان واقعات کی ترتیب اپنی طویل مثنوی میں درج کی ہے۔ اس مثنوی پر انگریز وائسرائے نے پابندی لگا دی تھی کہ ان کی ہر بات سچ ثابت ہو رہی تھی اور انہوں نے کہا تھا کہ ہندوستان پر انگریز کی حکومت صرف ایک سو سال تک رہے گی۔ مثنوی پر پابندی تو لگ گئی مگر انگریز پھر بھی سو سال کے اندر یہاں سے چلا گیا۔انہی نعمت شاہ ولی نے کہا تھا کہ پاکستان و ہند میں چار جنگیں ہوں گی۔ پہلی سترہ روز چلے گی۔ دوسری میں مشرقی بازو علیحدہ ہوگا‘ تیسری صرف مخصوص پہاڑی علاقوں میں ہوگی لیکن چوتھی جنگ فیصلہ کن ہوگی‘ جس میں عالم اسلام سے مسلمانوں کے جتھے شامل ہو جائیں گے۔ شام‘ ترکی‘ ایران‘ عرب سے مجاہدین آئیں گے اور کابل کے ہراول دستوں کی آمد سے میدان فتح سے ہمکنار ہوگا۔ دریائے سندھ اٹک کے مقام پر تین مرتبہ خون سے سرخ ہو کر بہے گا۔ یہ جنگ کب ہوگی‘ کیسے ہوگی اس کا حال صرف اور صرف اللہ جانتا ہے لیکن اس میں فتح کی بشارت سید الانبیاء ﷺ نے دی ہے۔ یہی وہ فتح ہے جس سے مایوس ہو کر دجال اپنی پناہ گاہ سے خود باہر نکل آئے گا۔ ہندو پنڈت اسے مہارشی کہیں یا یہودی اسے مسیح لیکن ان دونوں کی تیاریاں اور ہر دم اُس لمحے کے لیے چوکس رہنے کا عمل ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس وقت کا شدت سے انتظار کر رہے ہیں۔ اسی فتنے سے مقابلے کے لیے صحابہ کرامؓ ہر وقت چوکس رہا کرتے اور آپؐ نماز کے دوران تشہد میں اس سے پناہ کی دعا کرتے تھے۔ لیکن ہم ہیں کہ چین کی بنسی بجا رہے ہیں اور امن کی آشا میں ڈوبے ہوئے ہیں اور دوسری جانب بھارت میں جنگ کا مہورت آج سے دو سال پہلے نکل چکا ہے۔ جو ہندو مہورت کا وقت آنے پر شادی کے پھیرے تک ملتوی نہیں کرتا‘ کاروباری سودے نہیں کرتا وہ اس مہورت کے نکلنے پر کیا جنگ ملتوی کردے گا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں