یورپ نے جس طرح تاریخ اور سا ئنس کی کتب لکھ کر دنیا بھر میں یہ ثابت کر رکھا ہے کہ جب سے کائنات معرضِ وجود میں آئی ہے علم، تہذیب، ثقافت، سائنس، فلسفہ اور دیگر علوم صرف مغرب میں ہی پروان چڑھے اور پورا مشرق جس میں مصر، عراق، ایران، چین اور ہندوستان کی تہذیبیں شامل تھیں‘ سارے کا سارا ابتدائے آفرینش ہی سے جہالت میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس تعصب اور بددیانتی کو بیان کرنے کے لیے پندرہ سو الفاظ پر مشتمل ایک کالم ناکافی تھا۔ تشنگی کا ایک احساس مجھے بھی تھا اور پڑھنے والوں کا احساسِ تشنگی تو بہت زیادہ تھا۔ پوری دنیا کے مروجہ علم کو جس طرح جھوٹ پر مبنی تاریخ سے زہر آلود کر دیا گیا ہے‘ اس کو تعصب سے پاک اور از سر نو تاریخ مرتب کرنے کے لیے بے پناہ محنت درکار ہے۔ اس پر ظلم یہ ہے کہ گزشتہ دو تین سو سالوں سے ہمارے نصاب اس طرح ترتیب دیے گئے ہیں کہ ہر بچہ ذہن میں یہ تصور راسخ کر کے جوان ہوتا ہے کہ فلسفہ، طب، حکمت، اصولِ حکمرانی، حساب اور سائنس، سب کا آغاز یونان سے ہوا اور ہم جس سر زمین پر رہتے ہیں‘ وہاں کے لوگ جہالت کی زندگی گزارتے تھے، مافوق الفطرت قسم کے خیالات رکھتے تھے اور ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے تھے۔ اس تعصب کی نفی اور مغرب کی بالادستی کی قلعی کھولنے کے لیے طویل عرصے سے ایک ایسی یونیورسٹی کی ضرورت تھی جس میں اس فریب زدہ دنیا کے سامنے سچ لایا جائے اور بتایا جائے کہ کس طرح مشرق کے علمی مآخذ کو اپنے ناموں سے تحریر کر کے اسے ذاتی کاوش قرار دے کر یورپ دنیا کے علوم کا ازل سے پرچم بردار بن گیا۔ یہ خواب مسلم امہ کو پورا کرنا چاہیے تھا جو بلاشبہ اس دنیا کے علم کی چھ صدیوں تک بلا شرکتِ غیرے حکمران رہی ہے‘ لیکن اپریل 2010ء میں بھارت کے چند صاحبانِ علم نے مل کر سوراج یونیورسٹی (Swaraj University) کی بنیاد رکھی جس کا مقصد اس علم سے نجات ہے جو نو آبادیاتی تسلط کی وجہ سے دنیا میں عام کیا گیا۔ یونیورسٹی کے اس چار سالہ تجربے کو وہ لوگ (Decolonization) یعنی نو آبادیاتی فکر سے آزادی کہتے ہیں۔ اس یونیورسٹی میں 16سال سے تیس سال کے نوجوانوں کو داخلہ دیا جاتا ہے۔ یونیورسٹی خالصتاً ہندوستان کی تہذیب و ثقافت اور اس سے پھوٹنے والے علوم کے چشموں سے تعلق استوار کرتی ہے۔ یہ لوگ کوئی مخصوص مغربی محاورہ بھی استعمال نہیں کرتے، ان کے ہاں ''سکالرز‘‘ یا سٹوڈنٹ نہیں بلکہ ''کھوجی‘‘ ہوتے ہیں۔ بھارت کے علاوہ ایک اور ملک ایسا ہے جس نے گوروں کے متعصب علم میں صدیاں گزاریں، جس نے گوروں کی نسلی برتری کے عذاب سے حال ہی میں چھٹکارا حاصل کیا، جنوبی افریقہ کے ایک پروفیسر مولیفی کیٹ اسانتے (Molifi kete Asante) نے بھی ایک خاکہ ایسی یونیورسٹی کا پیش کیا ہے جہاں انسانی علوم کو افریقی نقطہ نظر سے پیش کیا جائے۔ اس کے نزدیک جنوبی افریقہ کی تما م یونیورسٹیوں میں وہی نظامِ تعلیم ہے جس کا مقصد عالمی غلبے کے خالص یورپی سسٹم کو برقرار رکھنا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ افریقہ کے بچوں کو یونان اور روم نہیں بلکہ مصر اور نوبیا (Nubia) کو علم کے مستند سرچشموں کے طور پر اختیار کرنا ہو گا۔ اس کے نزدیک ان بچوں میں ایسے نظریات کی آبیاری کی جائے جو افریقی پس منظر سے ابھر کر سامنے آتے ہوں۔
مغرب کے اس تعصب کو واضح کرنے اور اس کی بدنیتی کا پول کھولنے کے لیے جس شخص کی تحریروں نے طوفان کھڑا کر رکھا ہے‘ وہ سی کے راجو ہے، جس کی کتاب ''تعلیمی سامراجیت کا خاتمہ ایک آغاز‘‘ (Ending Academic imperialism..... a beginning) مغربی علوم کی سامراجیت کا پول کھولتی ہے۔ اس کتاب میں اس نے پوری انسانی تاریخ میں مسلمانوں کے عظیم کارناموں کو روشن ترین باب قرار دیا ہے اور مغرب کی اس تاریخی بددیانتی کا بھی پردہ چاک کیا ہے۔ اس کے نزدیک مغرب نے کس ڈھٹائی سے ریاضی کو ایک یورپی مضمون بنا کر پیش کیا۔ انہوں نے انڈین 'Calculus‘ کو 'Pre calculus‘ کہہ کر پکارا کہ دوسری تہذیبوں کی تحقیر کی جا سکے۔ اس نے ثابت کیا ہے کہ سائنس کے تمام مضامین جن میں ریاضی، طبیعات، اور حیاتیات وغیرہ شامل ہیں‘ مغربی نظریات سے آلودہ ہیں۔ اس کے نزدیک یہ وہم دنیا بھر کے بچوں کے دلوں میں ڈالا گیا ہے کہ مغربی نظامِ تعلیم کا کوئی متبادل نہیں۔ وہ کہتا ہے کہ ریاضی تمام سا ئنسوں کی ماں ہے لیکن مغرب نے اس کے اندر اپنی مذہبیت بھی شامل کر دی ہے۔ اگر ہم متبادل ریاضی کو فروغ دیں جو یورپی مذہبیت سے جدا ہو تو پورے کے پورے مغرب کا بستر گول ہو جائے۔ سی کے راجو کی کتاب 'Euclid and Jesus‘ یہ انکشاف کرتی ہے کہ کس طرح چرچ کی دو مذہبی جنگوں کے دوران ریاضی کو تبدیل کر ڈالا۔ لیکن جو کتاب آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے اور مغرب کی بدنیتی اورتعصب کا پردہ چاک کرتی ہے تو‘ وہ "Is Science Western in Origin?" (کیا سائنس واقعی مغربی ہے؟) ہے۔ یہ کتاب سائنس اور تاریخ کے ہر طالب علم کا اندازِ فکر بدل سکتی ہے۔ وہ حیران ہو کر لکھتا ہے کہ ایران کے بادشاہ خسرو اول علم کا بہت دلدادہ تھا، اس نے بیش بہا کتب دنیا بھر سے جمع کیں۔ اس نے عالموں کو ہندوستان بھیجا تا کہ علم اور کتب تک رسائی ہو لیکن کسی کو ایتھنز اور سکندریہ نہ بھیجا۔ سی کے راجو کے نزدیک بغداد کے علماء نے دنیا بھر کے علم کی نقل نہیں کی بلکہ ان علوم کو حاصل کرنے کے بعد انہیں نئی منطق اور نئی توجیہہ کے ساتھ تحریر کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان مسلمان سائنس دانوں نے منطق استخراجیہ اور منطقِ اسقرائیہ کی بھول بھلیوں سے نکل کر علم میں تجربے کی بنیاد رکھی اور آج کی تجرباتی سائنس جسے 'Empirical Science‘ کہا جاتا ہے اور جس پر تمام طبعی اور معاشرتی سائنسوں کی بنیاد ہے‘ ان مسلمانوں کی مرہون منت ہے۔ اس بات کا اعتراف تو برٹرینڈ رسل جیسے فلسفی نے بھی کیا‘ جس کی مذہب دشمنی اور مسلمان دشمنی عیاں ہے ۔ وہ اپنی کتاب 'Impact of Science on Society‘ میں تحریر کرتا ہے کہ یونانی فلسفے کی بھول بھلیوں میں گم تھے اور لوگوں کی تحقیق یا گنتی کو ایک عامیانہ اور چھوٹے لوگوں کا کام قرار دیتے تھے۔ یہاں اس نے ارسطو کے حوالے سے ایک واقعہ تحریر کیا ہے کہ اس نے منطق سے یہ بات ثابت کی کہ عورت کے اٹھائیس دانت ہوتے ہیں۔ دلیلوں پر دفتر کے دفترلکھ دیے۔ اس کی دو بیویاں تھیں لیکن منہ میں انگلی ڈال کر گنا نہیں کہ اس کے نزدیک گننا وغیرہ چھوٹے لوگوں کا کام تھا۔
سائنس تو ایک محدود طریقے سے مغربی کہی جا سکتی تھی لیکن تاریخ اور معاشرت کو جس طرح بددیانتی سے تحریر کیا گیا اور جس طرح اسے آج دنیا کے نصابوں میں پڑھا یا جاتا ہے‘ اس سے صرف یہ تاثر دینا مقصود ہوتا ہے کہ یونان کے بعد پوری دنیا میں تاریکی تھی اور پھر کئی صدیوں بعد اچانک یورپ میں تحریک احیائے علوم چلی اور زمانہ روشن ہو گیا۔ بیچ کے دور کو قرونِ وسطیٰ یعنی 'Medieval‘ کہا جاتا ہے۔ یہ لفظ دنیا کے ہر پڑھے لکھے شخص کی زبان پر عام ہے۔ جان سٹورائٹ مل کے والد جیمز مل نے برطانوی ہندوستان پر ایک بہت بڑی کتاب لکھی جسے انگریز بیوروکریسی کے لیے پڑھنا لازمی تھا۔ اس نے ان تمام مؤرخوں کی طرح تاریخ کو تین حصوں میں تقسیم کیا۔ قدیم، قرونِ وسطیٰ اور جدید۔ قدیم کو تو جیسے تیسے ملیامیٹ تہذیبوں کے کھاتے میں ڈال کر گم شدہ ادوار کہا لیکن قرونِ وسطیٰ کو اس نے جاہلانہ افکار، مذہبی تعصب اور عدم رواداری کا دور قرار دیا۔ یہی رویہ تمام مؤرخین کا ہے‘ وہ قرونِ وسطیٰ کو جب یورپ کا سیاہ ترین تاریک دور کہتے ہیں تو اس کے ساتھ ہی پوری دنیا کو بھی تاریکی میں ڈوبا ہوا تحریر کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ دور وہ تھا جب مسلمان پوری دنیا میں علم، سائنس، تہذیب اورثقافت کے نئے بابِ رقم کر رہے تھے۔ یہ وہ تہذیب تھی جس سے متاثر ہو کر یورپ میں تحریک احیائے علوم چلی۔ ایک پندرہ سو الفاظ کا کالم اس بددیانتی کا احاطہ کیسے کر سکتا ہے؟ ہاں! کوئی تو ہو جو سوراج یونیورسٹی کی طرح مسلم امہ میں ایک ایسی یونیورسٹی قائم کرے جو تاریخ ، سائنس اور تہذیب کے مآخد کو سچائی کی بنیاد پر تحریر کرے۔ کوئی ایک شخص پوری ڈیڑھ ارب ملتِ اسلامیہ میں۔ صرف ایک شخص۔