دنیاکے کسی ملک کے سائنس دان، فلسفی، دانشور، سیاست دان حتیٰ کہ طالب علم سے بھی اگر آپ سوال کریں کہ موجودہ سائنسی اورعمرانی علوم کا آغازکہاں سے ہوا تھا توکسی جھجک اور وقت ضائع کیے بغیر وہ صرف ایک ہی نام لے گا۔۔۔۔۔ یونان۔ اگر وہ یونان اوراس کے شہر ایتھنزکو نہیں جانتا تو پھر بھی اس کی یادداشت میں سقراط، افلاطون،ارسطواور بقراط جیسے نام ضرورموجود ہوںگے۔ سائنس اور تاریخ کی کتابوں میں اگرکسی نے مفکرین اور سائنس دانوں کے حالات پڑھے ہوں تو وہ ایک دم یونان سے چھلانگ لگاکر سولہویں صدی کے یورپ میں آ نکلے گااور موجودہ دور تک کی سائنسی اور عمرانی علوم کی ترقی کے معماروں کے نام گننے لگے گا۔گیلیلیو سے کوپر نیکولس اور نیوٹن سے آئن سٹائن تک اسے سب لوگوں کے نام ازبر ہوںگے۔ یوںلگتا ہے کہ دنیاکی پانچ ہزار سالہ تاریخ میں سائنس اور علم صرف یورپ میں تھا، باقی دنیا جس میں چین، مصر، عراق، ایران اور ہندوستان کی عظیم تہذیبیں شامل ہیں، سب کی سب جہالت کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ ان کے ہاں ماضی میںکوئی علمی روایت تھی نہ آج ہے ، جو کچھ تھا وہ صرف اور صرف یورپ میں تھااورآج بھی وہیں ہے۔ یہ تاثرخود بخود قائم نہیں ہوا بلکہ باقی پوری دنیاکو ازل سے جاہل اور تہذیب سے عاری ثابت کرنے کے لیے یورپ نے ایک اجتماعی کوشش کی تاکہ دنیا کے سامنے یہ نظریہ حقیقت بناکر پیش کیا جائے کہ صدیوں پہلے بھی یورپ عظیم اور علم و ہنر سے مالا مال تھااورآج بھی وہی پوری دنیاکا ہر میدان میں قائد ہے۔
یورپ کو بالادست اور عظیم تر ثابت کرنے کا کھیل جس طرح کھیلاگیا اس کا اندازہ عالمی نقشے کی ترتیب الٹنے سے لگایا جا سکتا ہے۔ دنیاکے نقشے میں یہ دکھانا مقصود تھا کہ یورپ چونکہ غالب ہے،اسے اوپر ہوناچاہیے ؛ چنانچہ دنیا کے نقشے کو شمال کی سمت کو اوپر رکھ کر ترتیب دیاگیاتاکہ پورا یورپ بلند اوربرتر جبکہ مشرق اوردیگر ممالک پست نظرآئیں۔ اس سے پہلے دنیا کے مروجہ نقشے جو مسلمانوں نے بنائے اورجن کا اقتدار ہسپانیہ سے ملائیشیا تک تھا، وہ جنوب کو اوپرکی سمت رکھ کر بنائے گئے تھے۔ یہی نہیں بلکہ نقشہ سازی میں یورپ کاحجم بڑا دکھانے کے لیے جن Cylindrical Projectionsکو رائج الوقت ''مرکیٹر(Mercator) نقشہ سازی‘‘ میں استعمال کیا گیا اس سے یورپ جوایک نسبتاً چھوٹا علاقہ ہے، اس کا حجم افریقہ سے بھی بڑا نظر آتا ہے۔ آج آپ دنیا کے کسی ملک میں چلے جائیں،کوئی اٹلس کھول لیں یا بچوں کے جغرافیے کی کوئی کتاب اٹھاکر دیکھ لیں، نقشے میںکرۂ ارض کو شمال کی جانب اوپر دکھایا گیا ہے جس سے یورپ تمام اقوام پر بالا نظر آتا ہے۔ ایسے نقشے انسانی تاریخ میں اس سے پہلے نہیں تھے۔اس کا ذہن پر یہ اثر پڑتا ہے کہ ایک بچہ آغاز ہی سے اپنے آپ کو انتہائی پست ترین جگہوں کا مکین سمجھتا ہے اور یورپ کے باسیوںکو بلند وبالا۔
معاشرتی تاریخ مرتب کرنے میں بددیانتی کی گئی؛ چین، عراق، ایران، مصر اور ہندوستان کی تہذیبوں کا حصہ کم کرکے پیش کیا گیا اور پھر انہیں انتہائی پسماندہ ظاہرکیا گیا۔ چلیے، معاشرتی تاریخ کی بددیانتی تو تاریخ میں تعصب کے نام پر معاف کر دی جائے لیکن اس ''عظیم‘‘ بددیانتی کا کیا کیا جائے جو سائنس کی تاریخ لکھتے اور سائنسی ایجادات اور سائنسی علوم کا ذکر کرتے ہوئے کی گئی کہ سب کچھ یونان کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔ یورپ میں لکھی
گئی کوئی کتاب اٹھا کردیکھ لیں ہرمضمون کی تاریخ کے آپ کو دودورنظر آئیں گے۔۔۔۔۔ یونانی (Hellenist) دوراوراحیائے علوم کی تحریک کے بعد کادور۔ ان کتابوں کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ پہلے دور میں یونان کے سوا باقی پوری دنیا جاہل،ان پڑھ اورگنوار تھی، پھر یونان اور تحریک احیائے علوم کے بعد والے یورپ کے درمیان جو صدیوں کا فاصلہ ہے اس میں انسان نے کوئی ترقی نہیںکی۔ درمیان کی صدیوں میں سے چھٹی صدی عیسوی(529ء) میں روم کے 'عظیم‘ بادشاہ جسٹینن (Justinion) نے اسکندریہ میں تاریخ کی سب سے بڑی لائبریری کو آگ لگا دی تھی۔اس لائبریری میں پانچ لاکھ کتب تھیں جنہیں مصریوں نے پیپرس نامی درخت کی چھال پر لکھ کر محفوظ بنایا تھا۔اس وقت مصر سے اس چھال کی برآمد بندکردی گئی تھی۔ جب پوری دنیا میں علوم و فنون ترقی کر رہے تھے،اس دور میں یورپ میں سب سے بڑا ماہرِ ریاضی 'اوریلیک کاگر برٹ‘ تھا جس نے ریاضی پرایک بہت ضخیم کتاب لکھی جو آج کل بچوں کی Abex یعنی کھلونا سمجھی جاتی ہے جبکہ یہی وہ دور تھا جب پورے یورپ سے عیسائی قرطبہ اور بغداد میں پڑھنے اور علم سیکھنے کے لیے اس طرح جاتے تھے جیسے آج کل دنیا بھر سے لوگ آکسفورڈ اور کیمبرج جاتے ہیں ،اس زمانے میںکوئی یونان یا روم نہیں جاتا تھا۔ نویں صدی میں مسلمانوں کا دارالحکومت بغداد بہت بڑاشہر تھا اور پوری مسلم دنیا میں اتنے کتب خانے تھے کہ کتابوں کی ترسیل کے لیے چین سے کاغذ کی صنعت کودرآمدکیاگیا تھا۔ عربوں کے ہاں یہ علم رسولﷺ کی اس حدیث پر عمل کرنے سے آیا کہ '' علم مومن کا گمشدہ مال ہے‘‘۔ بغداد ، قرطبہ میں تراجم؛ ایران، مصر، ہندوستان اورسپین میں علمی مراکزقائم کیے گئے اور مختلف علوم وفنون پراعلیٰ پائے کی کتب تصنیف کی گئیں لیکن آج پورپ میں لکھی گئی تاریخ اس پورے علمی سرمائے کو یونان کے کھاتے میں ڈال دیتی ہے۔
یونان کو ان تمام علوم کا ماخذ صلیبی جنگوں کے بعد ایک خاص مقصدکے لیے بنایا گیا۔ یہ علم صلیبی جنگوں کے بعد سپین کے شہر طلیطلہ (Toledo) میں قائم لائبریری کے ذریعے عیسائیوں کے ہاتھ آیا ، 1085ء میں اس پر قابو پایا گیا اور پھر اسکندریہ کی لائبریری کی طرح اس کو جلایا نہیں گیا بلکہ اس کے تراجم شروع کیے گئے۔ ترجمے کا یہ عمل 1125ء میں شروع ہوا جس سے یورپ میں تحریک احیائے علوم کا آغاز ہوا اوروہاں جہالت کا خاتمہ ہوا۔ ظلم یہ ہوا کہ ان تمام کتب میں علم کے جتنے بھی مآخذ تھے وہ دنیا بھر کے ممالک سے لیے گئے تھے لیکن ترجمہ کرتے ہوئے انہیں یونانی قراردیاگیا۔ ریاضی میں یونانیوں کے جمع تفریق اور ضرب تقسیم کے لیے رومن ہندسے تھے جیسے IVXM وغیرہ جبکہ موجودہ آسان ریاضی ہندوستان سے آئی تھی۔ یہ بددیانتی پہلے بھی کی گئی، جب سکندر نے ایران پر حملہ کیا تو دارا کے کتب خانے کی تمام کتابوں کا یونانی میں ترجمہ کرایا اور اصل کتب کوجلا دیا۔ یونان کی اس وقت حالت یہ تھی کہ وہاں کوئی کتب خانہ موجود نہ تھا،ارسطو پہلا شخص تھا جس کا اپنا کتب خانہ تھا اور وہ بھی یونان سے اس لیے فرار ہوگیاکہ اسے ڈرتھاکہ اسے سائنس کی کتابیں رکھنے کے جرم میں سزائے موت دے دی جائے گی۔ اسکندریہ کا کتب خانہ جس میں پانچ لاکھ کتب تھیں اسے سارے مورخین یونان کی تحریریںکہتے ہیں جبکہ یونان کی آبادی چند ہزار تھی اور وہاں نہ کتاب لکھنے کا کوئی رواج تھا اور نہ ہی سائنس پڑھنے پڑھانے کی کوئی روایت۔ ایک بددیانتی اورکی گئی کہ مسلمان سائنس دانوںکے اصل ناموںکو توڑ مروڑکر رومن زبان میں بدل دیاگیا جیسے ریاضی کے جد امجد‘ الخوارزمی کو Algoritmas کیا گیا اور طب کے بانی بو علی سینا کو Avicenna تاکہ آنے والی نسلوںکواحساس تک نہ ہو کہ یہ لوگ یورپی نہیں تھے۔ کوپرنیکولس جسے جدید فزکس کا بانی کہا جاتا ہے وہ ایک عام سا پادری تھا‘ اسے سائنس کی الف بے بھی نہیں آتی تھی‘ اس نے نصیرالدین طوسی کی کتابوں کا ترجمہ اپنے نام سے چھاپا اور سائنس کا موجد بن گیا۔ اس بددیانتی کا آغاز باقاعدہ چرچ کی سربراہی میں ہوا اور چرچ کے مورخ Orosiusنے ایک کتاب تحریر کی جس کا نام تھا History Against Pagans ۔اس کتاب میں اس نے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ دنیا کو علم سے روشناس یونانیوں نے کیا، اس سے پہلے دنیا تاریک اور جہالت سے بھری ہوئی تھی اوراس کے بعدکی چھ صدیوں میں مسلمانوں نے صرف یونانیوں کے علم کو محفوظ کیا۔ اس تاریخی بددیانتی کی انتہا موجودہ دورکے مورخ ول ڈیورانٹ کی کتاب Story of Civilization ہے جس کی گیارہ جلدیں ہیں، ان میں صرف ایک جلد Our Eastern Heritage یعنی ہمارا مشرقی ورثہ ہے۔گزشتہ پانچ سو سالوں کا یہی تعصب ہے کہ مشرق میں رہنے والا ہر فرد یہ سمجھتا ہے کہ علم صرف یورپ میں پیدا ہوا، جوان ہوا اور اپنی بلندیوں پر پہنچا جبکہ ہم لوگ جاہل‘ ان پڑھ اور اجڈ تھے۔