یہ پورا خطہ‘ جسے آج یورپ کہا جاتا ہے‘ کیا اس کی کوئی مشترک تاریخ رہی ہے؟ کیا اس میں شامل ممالک کی اقدار‘ روایات‘ نظامِ حکومت و سیاست اور اخلاقیات ایک جیسی تھیں؟ حقیقت یہ ہے کہ ایک علاقے کا ہیرو دوسرے کا دشمن اور دوسرے کا فاتح پہلے علاقے کے لیے قابلِ نفرت ہوتا تھا۔ ادب‘ فن‘ آرٹ اور ثقافت میں ہر علاقے نے اپنے اپنے عظیم لوگوں کو جنم دیا۔ فرانس کا ایک ادیب ایسی زبان میں ادب تخلیق کرتا تھا جو باقی یورپ کے لیے اجنبی تھی اور روم کا مصور ایسے شاہانہ کروفر والے ماحول کو کینوس پر لے کر آتا یورپ کے دور دراز شمالی علاقے میں جس کا تصور بھی ممکن نہ ہوتا۔ صدیوں ٹکڑوں میں بٹے اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے یورپ کو آج ایک تہذیب کیوں کہا جاتا ہے؟ آج جدید مغربی تہذیب ایک حقیقت کیسے بن گئی ہے؟ روس کے سائبیریا سے لے کر سسلی کے جزائر تک اور آئرلینڈ کی سرزمین سے آرمینیا کی وادیوں تک اس تہذیب میں کیا چیز مشترک تھی‘ جس کی وجہ سے یہ ایک اکائی کا روپ دھار گئے؟ صرف یورپ کی آپس میں جنگوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو دنیا میں کسی بھی دوسرے علاقے میں ہونے والی خونریزی بھول جاتی ہے۔ میں قدیم تاریخ میں نہیں جانا چاہتا‘ صرف چند صدیاں پہلے کی جنگوں کا حال پڑھ کر یوں لگتا ہے کہ یورپ کو سوائے جنگ کرنے اور قتل و غارت کے اور کوئی کام ہی نہ تھا۔ انگلینڈ اور فرانس کے درمیان 1337ء سے 1453ء تک‘ 116 سال جنگ جاری رہی جس کے بعد سو سالہ جنگ کا محاورہ ایجاد ہوا۔ میلان‘ وینس اور فلورنس کے درمیان 1402ء سے 1454ء تک 52 سال جنگ چلتی رہی۔ ڈنمارک اور سویڈن کے درمیان 1506ء سے 1513ء تک‘ سپین اور ہالینڈ کے درمیان 1567ء سے 1593ء تک‘ انگلینڈ اور ہالینڈ کے درمیان 1652ء سے 1674ء تک جنگ ہوتی رہی‘ غرض کوئی سال ایسا نہیں ہے کہ یورپ کے کسی نہ کسی خطے میں جنگ نہ چل رہی ہو یا پھر اندرونی طور پر ملکوں میں قتل و غارت نہ ہو رہی ہو۔ دنیا کی تاریخ کی آخری خوفناک اور ہیبت ناک عالمی جنگیں بھی یورپ کی سرزمین سے شروع ہوئیں اور پھر انہوں نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ جنگِ عظیم اول اور جنگِ عظیم دوم میں جتنے افراد مارے گئے پوری انسانی تاریخ میں مارے جانے والے افراد کی کل تعداد سے بھی زیادہ ہوں گے۔
اتنی جنگوں‘ قتل و غارت اور نسل و زبان کے اختلاف کے باوجود وہ کون سی ایسی سماجی لڑی تھی جس نے یورپ کو ایک تہذیب کی شکل دے دی۔ یہ تہذیب خود بخود آسمان سے نہیں ٹپکی، اسے مدتوں کی محنت اور کوشش سے تخلیق کیا گیا۔ پورے براعظم یورپ کے ادب‘ آرٹ‘ موسیقی یا طرزِ زندگی کو اٹھا کر دیکھ لیں‘ آپ کو صرف ایک چیز مشترک ملے گی لیکن اسے نہ کوئی سیکولر مورخ ماننے کو تیار ہوتا ہے اور نہ ہی ماڈرن دانشور۔ وہ مشترک چیز عیسائی تہذیب و معاشرت ہے۔ چیخوف سے موپساں اور شیکسپیئر سے ہارڈی تک کی کہانیاں دیکھ لیں، آپ کو ان میں ایک عیسائی گھر کا ماحول‘ عیسائی عبادات و تہوار اور عیسائی روحانی کردار یعنی سینٹ جلوہ گر نظر آئیں گے۔ کرسمس‘ ایسٹر‘ سانتا کلاز‘ گڈ فرائی ڈے؛ ان سب سے لگی بندھی رسومات ان کہانیوں میں نظر آئیں گی۔ پیدا ہوتے ہی بچے کا بپتسمہ‘ چرچ کی گھنٹیوں میں شادی کی تقریب اور کالے ملبوس اور نقاب میں روتی ہوئی عورتوں کے درمیان قبرستان میں تابوت کا قبر میں اتارنا، پادری‘ راہبائیں اور ان سے منسلک تمام افراد ان ناولوں‘ افسانوں‘ نظموں اور دیگر اصنافِ سخن میں پائے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی روسی ناول انگریزی میں اور انگریزی ناول فرانسیسی میں ترجمہ ہوتا ہے تو پڑھنے والے کو اجنبیت محسوس نہیں ہوتی۔ سارے ادب کا تہذیبی ماحول آج بھی عیسائی تہذیب اور تہواروں سے عبارت ہے۔ یہی حال ان کی تاریخی آرٹ گیلریوں میں موجود تصویروں کا ہے۔ حضرت عیسیؑ، حضرت مریمؑ، سینٹ پیٹرز یہاں تک کہ بائبل کے مطابق تخلیقِ آدم و حوا تک کو تصاویر کی زینت بنایا جا چکا ہے۔ موسیقی اور شاعری میں بھی اسی طرح کا ماحول ملتا ہے۔ عیسائیت وہ واحد مشترکہ قدرِ ہے جس کے تہذیبی ورثے نے ہزاروں جنگوں اور قتل و غارت کے باوجود یورپ کو ایک یورپی ماحول میں ڈھلنے میں مدد دی۔ لیکن کیا یہ خود بخود ہو گیا؟ ہرگز نہیں، قطعاً نہیں! اس کے لیے تین صدیاں صرف ہوئیں‘ حکومتوں‘ اہلِ دانش و علم اور تعلیمی ماہرین کو سخت محنت کرنا پڑی۔ صلیبی جنگوں کے بعد جب یورپ کو علم ہوا کہ مسلمانوں کے علاقے تہذیب کا سرچشمہ ہیں تو انہوں نے ترجمے کی تحریک شروع کی۔ یورپ کا کوئی قصبہ ایسا نہ تھا جہاں عربی زبان پڑھائی نہ جاتی ہو۔ یہ زبان صرف اس لیے پڑھائی جاتی تھی کہ عربی میں موجود علم تک رسائی حاصل ہو، لیکن ذریعۂ تعلیم ہمیشہ ان کی مقامی زبان ہوتی۔ پورے یورپ میں سائنس‘ فلسفہ‘ طب‘ جغرافیہ اور دیگر علوم ترجمہ ہوئے لیکن ان کو براہ راست لوگوں تک نہیں پہنچنے دیا گیا بلکہ مصنفین نے اپنے نام سے کتابیں تحریر کیں اور انہیں سکولوں‘ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پڑھایا گیا۔ اس دوران مسلمان مصنفین کا نام بددیانتی سے بدل کر یورپی بنایا گیا، جیسے بو علی سینا کو Ave sina بنا دیا گیا تا کہ بچوں کو احساس تک نہ ہو کہ یہ لوگ مسلمان یا غیر یورپی تھے۔ سب سے بڑا اہتمام یہ کیا گیا کہ بچوں تک ایسی کوئی کہانی نہ پہنچنے دی جائے جس میں یورپ سے باہر کا ماحول موجود ہو۔ مسلمانوں کی تہذیب‘ ثقافت‘ اخلاقیات اور اقدار کی ایک جھلک تک گزشتہ سات صدیوں سے یورپ کے کسی ملک کے نصاب میں نہیں ملتی۔ یورپ کے ہر خطے میں جنم لینے والوں کو مشترکہ ہیرو قرار دیا گیا۔ سکندر اعظم جیسے ظالم شخص کو عظیم بادشاہ‘ شیکسپیئر کو یورپ کا سرمایہ‘ لیونارڈو ونچی کو پورے خطے کا مصور اور مائیکل اینجلو کو عظیم مجسمہ ساز تسلیم کیا گیا۔ موپساں‘ گوئٹے‘ دانتے‘ والٹیئر‘ روسو‘ ٹالسٹائی‘ دوستوفسکی۔۔۔۔اس سے قطع نظر کہ ان میں سے کوئی کون سی زبان بولتا اور کس زبان میں لکھتا، اس کے کام کو پورے یورپ کے لیے مشترک سرمایہ اور میراث قرار دے دیا گیا؛ وہ یورپ جس نے صدیوں ایک دوسرے کا خون بہایا۔ اس دوران دنیا بھر میں لکھے جانے والے ادب کو نہ نصاب کی زینت بنایا گیا اور نہ ہی عام آدمی کی دسترس تک پہنچنے دیا گیا۔ عربی اور فارسی میں لکھا گیا ادب اور کہانیاں آج بھی یورپی سکول کے بچوں کے لیے اجنبی ہیں، اس لیے کہ ان کہانیوں میں تہوار بھی الگ ہیں اور ماحول بھی‘ اخلاقیات بھی مختلف ہے اور معاشرت بھی۔ پورے یورپ میں کسی سکول کے بچے کو شاید ہی علم ہو کہ عید‘ جمعہ‘ رمضان کے روزے اور حج کیا ہوتا ہے جبکہ پوری دنیا کے نصاب میں بچوں کو کرسمس ٹری، ایسٹر‘ سانتا کلاز اور اس سے منسلک تمام رسومات کا علم بزور پڑھایا گیا۔ پورے یورپ میں کہیں بو علی سینا‘ ابن الہیثم‘ الخوارزمی‘ رومی یا کسی بھی ادیب کا مجسمہ نظر نہیں آتا، حتیٰ کہ اکبر کو وہ اکبر اعظم کہتے ہیں لیکن اس کی تصویر اور ذکر کہیں نہیں ملتا۔ انہوں نے اپنے نصاب کو یورپ سے باہر کی ہر شخصیت اور تصور سے پاک رکھا ہے۔ یوں ایک جدید مغربی تہذیب وجود میں آئی جسے کتنا ہی سیکولر کہا جائے اپنے جوہر میں عیسائی ماحول‘ اقدار اور ثقافت میں ڈوبی تہذیب ہے اور یہی ان کا لائف سٹائل ہے جس کا وہ تحفظ چاہتے ہیں۔
اگر یہ ان کا لائف سٹائل ہے تو پھر میرا لائف سٹائل کیا ہے؟ مجھے کس لائف سٹائل کا تحفظ کرنا ہے؟ ان کے ہاں زبانوں کا فرق بھی یورپ کو علیحدہ قوموں میں تقسیم نہیں کرتا لیکن ہم اگر کسی دوسرے ملک کے مسلمان ادیب کی بات کریں تو اسے عربی اور فارسی ادیب کہہ کر مسترد کر دیا جاتا ہے۔ اس طوفانِ مغرب میں صرف ایک ہی راستہ ہے کہ مراکش سے لے کر برونائی تک تمام مسلمان ادیب‘ شاعر‘ فلسفی اور فنونِ لطیفہ کے ماہرین کا علم سکولوں کے نصاب میں شامل کیا جائے۔ ان کی کہانیوں میں ہماری اقدار ہیں‘ ہمارے تہوار ہیں‘ ہماری اخلاقیات ہے اور ہماری شخصیات کا ذکر ہے۔ پوری امت کے مشترک ہیروز‘ مشترک ادیب‘ شاعر اور مشترک قابل قدر شخصیات ہیں۔ جب تک سکندر اعظم کی بجائے عمرؓ ابنِ خطاب اور نپولین کی بجائے صلاح الدین ایوبی ہمارے نصاب کی زینت نہیں بنتے ہم بکھرے رہیں گے اور ہم پر دنیا حکومت کرتی رہے گی‘ ہمارے شہر برباد کرتی رہے گی۔