"OMC" (space) message & send to 7575

ہم دلدل میں کیسے پھنستے ہیں؟

اس کتاب میں ہر اس حکومت اور فوج کے لیے کئی سبق ہیں جو کسی بھی قبائلی اور نیم خانہ بدوش علاقے میں اپنا اثرورسوخ یا موجودہ صحافتی اور سیاسی زبان میں ''رٹ‘‘ قائم کرنے کے لیے اپنی طاقت کو واحد ہتھیار سمجھتی ہے۔ برطانیہ کی وزارتِ دفاع میں کئی ماہ یہ بحث زوروں پر رہی کہ اس کتاب کو شائع ہونے سے روکا جائے، لیکن اب آنے والے بدھ کو یہ کتاب منظر عام پر آ جائے گی۔ یہ کتاب برطانوی فوج کے ایک کپتان مائیک مارٹن (Mike Martin) نے تحریر کی ہے۔ ایک سال تک وہ اس کتاب کی اشاعت کے لیے وزارت دفاع سے لڑتا رہا، اس لئے کہ یہ کتاب برطانوی افواج میں صلاحیتوں کے فقدان اور بار بار کے تجربوں سے کچھ نہ سیکھنے کی ہٹ دھرمی کے بارے میں بہت سے رازوں سے پردہ اٹھاتی ہے۔ برطانیہ‘ جہاں آزادیٔ اظہار کے نعرے گونجتے ہیں اور پوری دنیا کو بھی اس کا درس دیا جاتا ہے، کی وزارتِ دفاع نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ حاضر سروس فوجی کتاب تحریر تو کر سکتا ہے لیکن اس کی کچھ حدود و قیود ہیں۔ مائیک مارٹن یہ جنگ لڑتا رہا، بات نہ بنی تو فوج سے استعفیٰ دے دیا اور اب یہ کتاب منظر عام آ رہی ہے۔ کتاب کا نام ہے An Oral History of Helmand Conflict---1978-2012 یعنی ''ہلمند تنازع کی زبانی تاریخ، 1978ء سے 2012ء تک‘‘۔ ہلمند افغانستان کا وہ علاقہ ہے جس کی ایک شاندار تاریخ ہے۔ 19 جون 2009ء کو برطانوی افواج نے اس صوبے کو فتح کرنے کے لیے بہت بڑا آپریشن شروع کیا، جولائی2009ء میں امریکی افواج بھی ان کے ساتھ آ ملیں۔ اس آپریشن میں چار سو کے قریب برطانوی سپاہی مارے گئے لیکن ہلمند آج بھی طالبان کے زیر تسلط علاقوں میں اہم ترین ہے۔ ہلمند پاکستان کے ضلع چاغی سے ملحق علاقہ ہے اور بیس ہزار مربع میل پر مشتمل افغانستان کے بڑے صوبوں میں سے ایک ہے۔ تقریباً چودہ لاکھ افراد اور ایک ہزار دیہات والے اس صوبے کا مرکز ''لشکر گاہ‘‘ ہے۔ یہ علاقہ آتش پرست ایران کا حصہ تھا، مسلمان ہوئے تو یہ پہلے خلافت کے زیر اثر ہوا لیکن جب ایران پر صفوی حکومت آئی تو اس خطے سے میر وائس ہوتکی نے جنم لیا جس نے اسے ایک آزاد اور خود مختار علاقہ بنا دیا۔ احمد شاہ ابدالی نے جب افغان سلطنت کی بنیاد رکھی تو ہلمند کے قبائل اس کا حصہ بن گئے۔ افغانستان میں انیسویں صدی کے برطانیہ کے ساتھ لڑائیوں میں ہلمند کے لوگوں کا کردار بے جگری اور بہادری سے لڑنے والوں کا تھا۔ برطانیہ کو شکست دینے کے بعد تقریباً سو سال اس خطے میں امن رہا، یہاں تک کہ 1979ء میں روس نے وہاں اپنی فوجیں داخل کیں اور افغان تاریخ کا ایک اور باب رقم ہوا جس میں سوویت یونین کی جدید ٹیکنالوجی کو شکست ہوئی۔ یہ واحد صوبہ ہے جس میں پشتون اور بلوچ صدیوں سے مل جل کر رہ رہے ہیں۔ پشتونوں کی پشتو بھی وہاں بولی جاتی ہے اور محمد حسنی بلوچوں کی براہوی بھی۔ چاغی کے علاقے سے ملنے والی اس صوبے کی سرحد مدتوں پوست کی کاشت کے لیے مشہور رہی بلکہ منشیات کی سمگلنگ کی چند بڑی عالمی گزرگاہوں میں سے ایک ہلمند اور چاغی سے گزرتی ہے۔ طالبان حکومت کے چند سالوں کو چھوڑ کر یہ علاقہ پوست کی کاشت اور ہیروئن کی تیاری سے لے کر سمگلنگ تک دنیا کے نقشے پر ایک سرخ نشان کی حیثیت رکھتا رہا ہے۔ 
مائیک مارٹن نے کنگز کالج لندن سے وار سٹڈیز میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے اور وہ انتہائی روانی سے پشتو بول سکتا ہے۔ اس کتاب سے پہلے اس نے ہلمند کی مختصر تاریخ کے نام سے ایک کتاب لکھی جو ہر اس سپاہی کے لیے لازمی تھی جو وہاں متعین ہوتا تھا۔ اس نے دو سال ایک برطانوی فوجی کی حیثیت سے ہلمند میں گزارے اور وہ اس دوران ہر برطانوی کمانڈر کا مشیرِ خاص رہا۔ اس نے برطانوی فوج کے اس آپریشن میں بھی حصہ لیا جسےHERRICKs 9-16 کہا جاتا ہے۔ اس دوران اس نے افواج کے لیے ایک کتابچہ مرتب کیا جو انہیں وہاں کی ثقافت اور مخصوص انسانی خصوصیات سمجھنے میں مدد دیتا تھا۔ موجودہ کتاب اس کے فوجی اور تحقیقی تجربے کا نچوڑ ہے۔ اس کتاب میں اس نے پشتو زبان میں کیے گئے ایک سو پچاس انٹرویو بھی شامل کیے ہیں۔ اس کا نقطۂ نظر موجودہ تجزیہ کاروں، تبصرہ نگاروں اور دفاعی ماہرین سے بالکل مختلف ہے۔ اس نے کتاب میں یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ قبائلی معاشرے، اس کے اندر پائے جانے والے اختلافات، قبائلیوں کی مخصوص سوچ اور طرزِ زندگی سے ناآشنا لوگ جب وہاں کے معاملات کو طاقت یا فوجی حکمتِ عملی سے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو جنگ کو مزید ہوا دیتے، اسے طویل کرتے اور اپنی اس حکمت عملی سے خونریزی کو شدید کر دیتے ہیں۔ اس طرح سب کچھ ان کے اہداف سے مختلف ہو جاتا ہے۔ مائیک مارٹن کی اس کتاب پر برطانیہ کی پارلیمنٹ کی دفاعی کمیٹی میں بہت بحث ہوئی اور فوج اس بات پر بضد رہی کہ ان کی حکمت عملی صدیوں کے تجربے کا نچوڑ ہے اور 2020ء میں مستقبل کی فوج کا خاکہ ویسا ہی رہنا چاہی ۔ لیکن چیف آف جنرل سٹاف سر پیٹر وال (Peter Wall) نے اس بات کا اعتراف کیا کہ افغانستان اور عراق کے قبائلی معاشروں میں ہماری حکمت عملی بری طرح ناکام ہوئی اور ہمیں ان تیرہ برسوں کے تجربے سے سیکھنا چاہیے، ان تجزیہ کاروں، دفاعی ماہرین اور عالمی مبصرین سے اجتناب کرنا چاہیے جو ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر دفاعی کتابوں، خبروں اور خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹوں کی بنیاد پر ہمیں مشورے دیتے ہیں؛ بلکہ ہمیں ان لوگوں پر بھروسہ کرنا چاہیے جو ان قبائلی معاشروں کو اندرونی طور پر جانتے ہیں اور ان کی ثقافت، زبان اور طرزِ زندگی سے واقف ہیں۔ 
اس کتاب میں دیا گیا سبق پاکستان پر کس قدر صادق آتا ہے، اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگائیں کہ وزیرستان اور بلوچستان پر لکھنے والوں، ٹاک شوز میں گفتگو کرنے والوں اور حکمت عملی کا درس دینے والوں کی اکثریت ایسی ہے جنہوں نے زندگی میں ایک مسافر یا سیاح کی حیثیت سے بھی یہ علاقے نہیں دیکھے، ان میں سے نہ تو کوئی ان لوگوں کی زبان سے واقف ہے اور نہ ہی رسم و رواج سے۔ ان لوگوں سے زیادہ بُرا حال ان خفیہ اداروں کا ہے جن کے دفاتر میں وہ لوگ اثرورسوخ حاصل کر لیتے ہیں‘ جن کی مدتوں سے ان گروہوں کے ساتھ قبائلی دشمنی ہوتی ہے اور وہ فوج یا قانون نافذ کرنے والوں کے ذریعے اپنا حساب چکانا چاہتے ہیں۔ زبان اور ثقافت سے نا آشنا افسران ان کی جھوٹ سچ اطلاعات پر اپنا ایک ذہن بنا لیتے ہیں، اس پر ایک رپورٹ مرتب کی جاتی ہے جس میں طے کر دیا جاتا ہے کہ کون غدار ہے، کون دہشت گرد ہے، کون حکومت مخالف اور کون بیرونی طاقتوں کا آلۂ کار ہے۔ ان ایجنسیوں کے اہل کاروں اور تجزیہ نگاروں کو اندازہ تک نہیں ہوتا کہ انہیں کس طرح استعمال کیا جا رہا ہے۔ قبائلی معاشرے میں متحارب قبائل کی ایک مجبوری ہوتی ہے، اگر ایک قبیلے کی حکومت کے ساتھ ٹھن جاتی ہے تو دوسرا اس موقع کو غنیمت جانتا ہے اور وہ ریاست کا وفادار بننے کی کوشش کرتا ہے۔ یوں حکومت کے وفاداروں اور مخبروں میں وہ لوگ بھی شامل ہو جاتے ہیں جو اپنے مجرمانہ مفاد کا تحفظ چاہتے ہیں، جیسے سمگلر، منشیات فروش اور مفرور۔ اسی طرح حکومت مخالف گروہ میں بھی ایسے لوگ پناہ لے لیتے ہیں جنہیں خوف ہوتا ہے کہ اگر وہ کسی مسلح گروہ کے ساتھ نہ ہوئے تو ان کے قبائلی دشمن، جو اب حکومت کے ساتھ ہیں، انہیں پکڑوا دیں گے۔ حکومت سے برسر پیکار گروہوں کی ایک مجبوری ہوتی ہے۔ انہیں اپنی اس جدوجہد کے لیے ایک نظریے کی تلاش ہوتی ہے۔ یہ نظریہ ایسا ہونا چاہیے جس کے لیے لوگوں کے دلوں میں پہلے سے جگہ موجود ہو۔ ایسے میں قومی حقوق اوراستحصال کا نعرہ یا پھر شریعت کے نفاذ اور غیر شرعی ماحول کے خاتمے کی جدوجہد مقبول ترین اہداف بن جاتے ہیں۔ جوں جوں جنگ بڑھتی ہے، خونریزی میں اضافہ ہوتا ہے۔ گھروں میں لاشیں پہنچتی ہیں، انتقام کے نعرے کی گونج تیز ہونے لگتی ہے۔ خطرناک ترین جنگ وہ ہوتی ہے جو قبائلی انتقام کے غصے کو نظریے کے قالب میں ڈھال کر لڑی جاتی ہے۔ ایسی جنگ صدیوں تک چلتی رہتی ہے، لیکن کیا کریں، ہم ان تجزیہ کاروں، دانشوروں، تبصرہ نگاروں، دفاعی مبصروں اور ایسے اداروں کے اہلکاروں کے ہاتھ میں یرغمال ہیں جنہیں نہ قبائلی معاشرے کا علم ہے نہ وہ ان کی زبان جانتے ہیں اور نہ ان کی ثقافت سے آشنا۔ چند کتابیں، کچھ اخبار اور مخصوص ذہنیت ہمیں اس دلدل میں اتار دیتی ہے جس میں امریکہ اور برطانیہ بھی اترے تو ناکامی اس کا مقدر ہوتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں