جب ایسا لمحہ آن پہنچے کہ قوم کی واضح اکثریت اپنے مستقبل سے مایوس‘ حال سے برگشتہ اور ماضی پر لعنت بھیج رہی ہو تو تاریخ بتاتی ہے کہ پھر اس کی عمارت دھڑام سے گر جاتی ہے۔ اقتدارکے ایوان ‘ کاروبارکے مراکز اور استحکام کے ذمہ دارادارے ایک زوردار دھماکے سے زمین بوس ہوجاتے ہیں۔ وہ جو سروں پر تاج سجائے اپنی آنے والی نسلوں کے لیے بھی اقتدارکی مسند مضبوط کر رہے ہوتے ہیں، ان کے تاج ہوا میں اچھال دیے جاتے ہیں۔ جن کی دولت انہیں اس غرور میں مبتلا کیے ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنی آنے والی سات پشتوں کے رزق کا بھی اہتمام کر رکھا ہے‘ ان کا یہ اہتمام بھوکے ننگوں کے ہاتھوں بکھرکر رہ جاتا ہے۔ جنہیں قوت بازو پر ناز ہوتا ہے‘ جو تیر و تلوار یا بندوق کی طاقت پر بھروسہ کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری طاقت ‘ قوت اور ہیبت لوگوں کو نکیل ڈال دے گی ؛ ہماری صلاحیت ہی امن قائم کرتی ہے ، چین بحال کرتی ہے ، لیکن جب ایسا لمحہ آتا ہے تو تاریخ شاہد ہے کہ بندوقیں کندھوں سے لٹکی رہ جاتی ہیں اور انہیں سیدھا یا استعمال کرنے کا موقع تک نہیں ملتا۔
ایسا کب اور کیوں ہوتا ہے اورکیا ہم پر بھی یہ وقت آن پہنچا ہے؟ اس کی خبر تو اللہ ہی جانتا ہے کہ وہی عالم الغیب ہے،اسی کے علم میں ہے کہ ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے لیکن مریض کی حالت کااندازہ لگانے والے طبیب تو مدتوں سے اس قوم کو آپریشن کے ذریعے سرطان کی گلٹیوں سے نجات پا لینے کا مشورہ دیتے چلے آ رہے ہیں۔ لیکن سوال کرنے والے کہتے ہیں کہ کون سا ایسا ماہر سرجن ہے؟ کوئی بھی تو نہیں۔جو آپریشن کی میز سجاتا ہے‘ خود اسی مرض کی لذت میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ یہ مکمل مایوسی کا لمحہ ہوتاہے جس کی کوکھ سے اللہ کے فیصلے جنم لیتے ہیں ۔ ایسے فیصلے جو سخت بھی ہوتے ہیں اور انسانوں سے اس کی محبت سے بھر پور بھی۔کیا ہم پر مایوسی کا وہ لمحہ آن پہنچا ہے؟
ہاں! ہم یقیناً مایوسی کے اس سمندرکی اتھاہ گہرائیوں تک ڈوب چکے ہیں جہاں عام آدمی بھی جسے حکومتوں کے بدلنے سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ‘ زبان حال سے پکارتا ہے کہ ہماری تقدیر نہیں بدل سکتی۔ سب چور ہیں اور چور ہی حکمرانی کی مسند پر بیٹھتے ہیں۔ اٹھارہ کروڑ عوام کی مایوسی کا عالم دیکھیے کہ وہ مدتوں جمہوریت کے ہومیو پیتھک علاج کی میٹھی گولیاں اس امید پرکھاتے چلے جاتے ہیں کہ اس طرح مرض جڑ سے ختم ہو جائے گا۔ وہ فوج کے آپریشن کی ٹیبل بار بار سجنے پر خوش ہوتے ہیں کہ چلو علاج تکلیف دہ ہے‘ تھوڑی بہت معذوری کا بھی خطرہ ہے لیکن صحت تو بحال ہو جائے گی۔ لیکن بار بار آپریشن سے کینسرکی گلٹیوں میں نیا اضافہ ہو جاتا ہے۔ ہر دفعہ فوج آتی ہے تو لوگوں کو ایک نیا خاندان تحفے میں دے جاتی ہے جو ان پرآنے والے کئی برس حکومت کرتاہے۔ ایوب خان نے بھٹو خاندان کا تحفہ بخشا، تو ضیاء الحق نے شریف خاندان کا۔ باقی دوکمال کے تھے۔۔۔ایک نے جام ومینا میں ملک کی سلامتی کو غرق کیا اور دوسرے نے عیش و نشاط کی سرپرستی میں وہ جنگ اس قوم کو تحفے میں بخشی جس کے بارود کی بو اور خون کے چھینٹے آج ہر روز ہمارے درودیوار پرایک نئی کہانی لکھ کر جاتے ہیں ۔ یہ ہے وہ مایوسی کا لمحہ‘ یہ ہے وہ کیفیت جس کے باعث ہماری واضح اکثریت مستقبل سے مایوس ‘ حال سے برگشتہ اور ماضی پر لعنت بھیج رہی ہے۔ یہی مرحلہ وقت بدلنے کا ہوتا ہے۔ اللہ کی یہ سنت ہے کہ وہ قوموں کو راہ راست کی جانب لوٹنے سے پہلے ایک زور دار جھٹکے سے خبردارکرتا ہے۔ قرآن کریم اللہ کی اس براہ راست مداخلت کا بار بار ذکر کرتا ہے۔ بڑے عذاب سے پہلے چھوٹے عذابوں کا نزول، تاکہ لوگ سنبھل جائیں اوراس کی جانب واپس لوٹ جائیں۔ لیکن دنیا کے فلسفے ، سائنس اور سیاسیات کے ماہر اسے Divine Intervention کا نام دیتے ہیں۔ جب کسی قوم میں اچانک کوئی تحریک بھڑک اٹھے‘ وہ اچانک طویل خواب سے انگڑائی لے کربیدار ہو جائے‘ وہ مدتوں ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتی کاٹتی تھک ہار جائے اور اچانک صلح جُو بن جائے تو ایسے لمحوں کو مورخین اور فلسفی کسی غیر مرئی قوت یا طاقت کا شاخسانہ بتاتے ہیں جسے ہیگل نے عقل کل کا نام دیا ہے۔
ایسا وقت بہت خوفناک ہوتا ہے اور اس کا آغاز بہت ہیبت ناک ، لیکن اس کی کوکھ سے خیر نے جنم لینا ہوتا ہے۔ کیا ہماری حالت دنیا کے ان ممالک سے مختلف ہے جہاں خلق خدا نے خود آپریشن ٹیبل سجا لی تھی۔ ہم جن علتوں اور امراض کا شکار ہیں وہ ہمارے لیے عذاب کی نوید لا چکے۔ جس ملک میں جھوٹ سے دن کا آغاز ہوتا ہو اور رات کا سناٹا جھوٹ کوپروان چڑھائے،میڈیا، دکان، سکول اور یونیورسٹی سے پارلیمنٹ تک میں جھوٹ کی منڈی سجے ، دین کاروبار بنے اور جہاد ذاتی انا کی تسکین، جہاں حکومت خاندانی لوٹ مار اور بدترین شہنشاہیت میں بدل چکی ہو؛ تعلیم‘صحت‘روزگار اور عزت نفس سب پائوں کی ٹھوکر تلے روندے جا چکے ہوں‘ ایسے میں اگر کوئی جمہور ی نظام کے ہومیو پیتھک تسلسل کی خواہش کر رہا ہے تو احمقوں کی جنت میں رہتا ہے اور اگر کسی کو عسکری صلاحیتوں پر اعتماد ہے کہ وہ حالات کو آپریشن ٹیبل پر لا کر درست کرلیں گے تو یہ اس کی بھول ہے۔ اب نہیں ، شاید اب نہیں ! عالم الغیب صرف اللہ کی ذات ہے لیکن قوموں کی تاریخ میں ایسے لمحے جب بھی آئے میرے اللہ کا فیصلہ ایک ہی رہا ہے کہ اگر ہم ظالموں کو ظالموں سے نہ لڑائیں تو دنیا میں امن نہ ہو۔ خوفناک تصادم۔۔۔ جو اہل نظر جانتے ہیں اور جو اس دنیا سے رخصت ہو گئے بتاتے تھے‘ انتباہ کرتے تھے ‘ ڈراتے تھے کہ حالات اس مقام پر مت لے جائو کہ اللہ کو امن قائم کرنا پڑے ۔ لیکن کون سنتا ہے ۔ وہ تو نسلوں کی بادشاہت کو محفوظ بناتا ہے ، سات پشتوں کے رزق کا بندوبست کرتا ہے ، عسکری قوت کی دھاک بٹھاتا ہے۔ لیکن شاید اب مہلت باقی نہیں رہی۔ دیوانگی حد سے بڑھ جائے تو شہر کا شہر پتھر اٹھا لیتا ہے۔ ہمارے ہاں تو دیوانے گلی گلی اورکوچہ کوچہ موجود ہیں‘ صرف لوگوں کے ہاتھوں میں پتھر اٹھانے کی دیر ہے۔