"OMC" (space) message & send to 7575

انگریز اور انگریزی کے مدح خواں

انگریز اور انگریزی ذریعہ تعلیم کے مداح شاید اب بھی اسی خواب میں گم ہیں کہ اس ملک میں ہزاروں پرائیویٹ سکولوں کی ایک نرسری قائم ہونے کے بعد یہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے اور کچھ عرصے کے بعد اس خطے میں بے مثل انتظامی آفیسر، بہترین سائنسدان اور عظیم دانشور پیدا ہونے شروع ہو جائیں گے۔ انہیں اس بار کے سول سروس کے بدترین نتائج کو غور سے دیکھ لینا چاہیے اور پھر ان گیارہ ہزار چار سو چھ امیدواروں کے سکولوں کے بارے میں معلومات اکٹھی کرکے غور کرنا چاہیے کہ ہم نے اس قوم کو کس دلدل میں پھنسا دیا ہے۔ یہ نتائج سول سروس کی تاریخ کے بدترین نتائج ہیں۔ صرف دو فیصد امیدوار یہ امتحان 
پاس کر سکے۔ اس امتحان میں بیٹھنے والے سب امیدواروں کے والدین نے روکھی سوکھی کھا کر انہیں برساتی کھمبیوں کی طرح پھیلے انگلش میڈیم سکولوں میں داخل کرایا۔ یہیں سے وہ اے اور او لیول میں نمایاں نمبر لے کر ان کالجوں اور یونیورسٹیوں میں گئے جو مروجہ نظام تعلیم سے مختلف اور خود کو آکسفورڈ کیمبرج اور ہارورڈ کی روایت کی وارث اور امین سمجھتی ہیں۔ ان کے والدین نے ان پر لاکھوں روپے فیسوں اور دیگر اخراجات کے طور پر خرچ کیے۔ آج سے پندرہ بیس سال قبل اس ملک میں شاید ہی کوئی ایک ایسا ادارہ موجود ہوتا ہو گا جو سول سروس کے امتحان کے لیے خصوصی تعلیم کا بندوبست کرتا ہو۔ لیکن آج ہر بڑے چھوٹے شہر میں ایسے اداروں اور اکیڈمیوں کا جال بچھا ہوا ہے جو اس ملک کی انتظامیہ کے سرخیل بننے کے خواہش مندوں کو تربیت دیتی ہیں۔ ان اکیڈمیوں میں ہر مضمون کا ایک ماہر‘ طالب علموں کو سول سروس کے امتحان کی تیاری کراتا ہے۔ بہت سے ریٹائرڈ سول سرونٹ امتحان میں کامیابی کے گُر بتاتے ہیں۔ یہ سلسلہ گزشتہ پندرہ سالوں سے جاری ہے۔ لیکن ان اداروں میں اب جو نسل داخلہ لے رہی ہے یا ان امتحانات میں جو لوگ ہر سال جوق درجوق شریک ہوتے ہیں ان کی بنیادی تعلیم اب ایک ایسی زبان میں ہونے لگی ہے جو ان کی تعلیمی استعداد کو شدید متاثر کر رہی ہے۔ تمام درسگاہیں اور ماہرینِ تعلیم متفق ہیں کہ کسی غیرملکی زبان میں علم کی ترسیل اور اس کو سمجھنے کی صلاحیت تیس فیصد سے زیادہ نہیں ہوتی۔ اس کے بعد اس زبان میں اظہار کرنے، لکھنے یا بولنے کی صلاحیت اور کم ہو جاتی ہے۔ اس لیے جب بھی کوئی فرد انگریزی زبان میں مضمون پڑھتا ہے تو دوسرے کو سمجھانے کے لیے اور اس کا مافی الضمیر بیان کرنے کے لیے اردو، پنجابی، پشتو، سندھی، بلوچی کا استعمال کرتا ہے تاکہ بات اگلے کے ذہن میں اچھی طرح بیٹھ جائے۔ ہمارے گزشتہ ایک سو سال کے نظام تعلیم کی یہی ایک خوبی تھی کہ لولا لنگڑا سہی، تکیہ، اپنی زبان پر ہی کیا جاتا تھا اور ایک عام سا استاد بھی بچپن میں یہ بات اپنے شاگردوں کے ذہن میں بٹھا دیتا تھا۔ پھر کسی حد تک اہم معاشرتی مضامین اردو میں ہوتے تھے جن کی وجہ سے طالب علم کو تاریخ اور حالات حاضرہ سے ایک خاص دلچسپی پیدا ہوتی تھی اور وہ عام سے انگریزی مضمون کو بھی ایک دوسرے سے بحث
مباحثے کے بعد اچھی طرح ذہن میں اتار سکتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کے بچپن سے لے کر جوانی تک قصوں، کہانیوں اور دیگر معلومات کا ماخذ اس کی اپنی زبان ہوتی تھی۔ اس دماغ کی سکرین پر جو دنیا آباد ہوتی وہ اسے اپنے حوالے سے پوری دنیا کو سمجھنے میں مدد دیتی۔ یوں اس ذہن کی صلاحیتیں بھی کھل کر سامنے آتیں اور وہ ایک ایسا شخص بن کر نکلتا‘ جسے بیک وقت دو یا تین زبانوں کو سمجھنے کا ملکہ حاصل ہوتا۔ اپنی مادری زبان، قومی زبان اردو جس میں اس کے اجتماعی لاشعور نے وہ سارے تلازمے اور لفظ اکٹھے کیے ہوتے اور پھر انگریزی۔ لیکن اب موجودہ نظام تعلیم نے اسے جب سے انگریزی تک محدود کیا ہے وہ غبی بن کر رہ گیا ہے اور (انگریزی کے طفیل) اس کی ساری تخلیقی صلاحیتیں تباہ ہو کر رہ گئی ہیں۔ 
دلیل دی جاتی ہے کہ اس سے تعلیم بہتر ہو گی۔ ان لوگوں کو شاید علم نہیں کہ ایک انگریز بچہ سکول کے علاوہ باقی پندرہ بیس گھنٹے گھر اور محلے میں ہزاروں ایسے محاورے، قصے، کہانیاں اور تبصرے انگریزی زبان میں سنتا ہے جو اس کی یادداشت اور ذہانت کا حصہ بن جاتی ہیں اور اس کا ذہن دن بدن وسعت اختیار کرتا جاتا ہے۔ پاکستان میں‘ جب بچہ سکول سے باہر آتا ہے تو پھر وہ انگریزی کو خیرباد کہہ دیتا ہے۔ محلے میں، گھر، دکان اور ہوٹل پر وہ روزمرہ‘ محاورے‘ کہانیاں‘ ضرب الامثال‘ غصے کے اظہار میں گالیاں‘ دکان یا ہوٹل پر لین دین اور ریڈیو‘ ٹیلی ویژن پر تبصرے سب اردو یا مقامی زبان میں کہہ سُن رہا ہوتا ہے۔ یوں یہ ایک بیگانے ماحول میں پروان چڑھتا ہے جس کا اس کی تعلیمی صلاحیت بڑھانے میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ نہ اس کا محاورہ بہتر ہوتا ہے اور نہ ہی زبان۔ نہ اس کی قوتِ استدلال یا بیان کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے علمی تناظر میں وسعت آتی ہے۔ سکول معاشرے سے اجنبی اور معاشرہ سکول سے اجنبی۔ یہ ہے ہمارا المیہ جس کی وجہ سے آج سول سروس کے امتحانات میں ہم دو فیصد نتائج حاصل کرنے کا ''تمغہ امتیاز‘‘ سینے پر سجائے ہوئے ہیں۔ میں اس فقرے کو ایک بار پھر دہرانا چاہوں گا جسے میں نے بارہا دہرایا ہے کہ دنیا کی پانچ ہزار سالہ تاریخ میں کوئی ایک قوم بھی ایسی نہیں جس نے کسی دوسرے کی زبان میں علم حاصل کیا ہو اور پھر ترقی بھی کی ہو۔ اس لیے آپ کسی دوسرے کی زبان میں علم سکھا تو سکتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس زبان میں تخلیقی صلاحیتیں مردہ ہو جاتی ہیں۔
ان پانچ ہزار سالوں میں دو ملکوں‘ بھارت اور سنگاپور نے انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے کی حماقت کی۔ سنگاپور گزشتہ پانچ سال سے سرتوڑ کوشش میں ہے کہ واپس کیسے آیا جائے اور بھارت میں اب تمام پالیسی ساز اداروں نے گھنٹی بجا دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بھارت سائنس کے میدان میں نقلچی بن کر ابھر رہا ہے۔ ہر سال 22 کروڑ بچے سکول میں داخل ہوتے ہیں اور 40 لاکھ سے بھی کم گریجوایٹ بن پاتے ہیں۔ دنیا میں جن ممالک میں سو فیصد شرح خواندگی ہے وہ سب کے سب اپنی قومی زبان میں تعلیم دیتے ہیں۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے پہلے پرنسپل لائیٹنر نے پنجاب کی تعلیمی حالت پر تقریباً تین ہزار صفحات پر مشتمل رپورٹ لکھی۔ اس کا لب لباب یہ ہے کہ انگریزوں کے آنے سے پہلے یہاں سو فیصد شرح خواندگی تھی اور یہی حال سندھ اور خیبر پختونخوا کا تھا۔ لیکن انگریز کے جانے تک ہماری شرح خواندگی گر کر گیارہ فیصد تک آ گئی تھی۔ انگریز اور انگریزی کے مدح خواں اس قوم سے اور کتنا انتقام لینا چاہتے ہیں؟۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں