"WAC" (space) message & send to 7575

مودی اور راہول کی انتخابی حکمت عملی

جب سے بھارتیہ جنتا پارٹی نے گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کو وزیراعظم کے امیدوار کے طور پر نامزد کیا ہے، انہوں نے جارحانہ سیاسی حکمت عملی اپنالی ہے اوراپنی پارٹی کی مقبولیت کیلئے بڑے بڑے دعوے کر رہے ہیں تاکہ عوام میں بھارتیہ جنتا پارٹی کا گراف اونچا اور مستقبل میں زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کر سکیں۔ بھارت کی 15 ویں لوک سبھا کی پارٹی پوزیشن پر نظر ڈالیں تو اس وقت 543 نشستوں میں سے دو خالی ہیں۔ سنگل لارجسٹ پارٹی کیلئے 270 ارکان کی حمایت ضروری ہے ۔ اس وقت بھارت کی لوک سبھا میں 38 جماعتوں کو نمائندگی حاصل ہے۔ کانگریس کی 206 اور اس کی روایتی حریف بھارتیہ جنتا پارٹی کی 116 نشستیں ہیں۔ ملائم سنگھ یادو کی سماج وادی پارٹی 22 ممبران کے ساتھ تیسرے اور ان کی حریف مایا وتی کی بھوجن سماج پارٹی کو 21 نشستیں حاصل ہیں۔ پارلیمنٹ میں گیارہ سیاسی جماعتیں ایسی ہیں جو ایک ایک نشست رکھتی ہیں۔ کانگریس اس وقت یونائیٹڈ پروگریسو الائنس کے اتحاد کی سربراہ اور حکومت میں ہے۔ اس اتحاد میں ارکان کی تعداد 275 ہے۔ اس کا مخالف اتحاد ’’نیشنل ڈیمو کریٹک الائنس‘‘ 139 ارکان پر مشتمل ہے۔ لیفٹ ونگ کے بھی اس پارلیمنٹ میں 25 ارکان ہیں۔ بال ٹھاکرے کی جماعت شیوسینا ،جو کانگریس کی روایتی حریف ہے، کے ممبران کی تعداد گیارہ ہے۔ ممتابینرجی کی ترنمول کانگریس کے پاس 19 نشستیں ہیں۔ تامل ناڈو کے سابق وزیراعلیٰ کروناندھی کے پاس 18 اور وزیراعلیٰ تامل ناڈو 9 نشستیں سنبھالے ہوئے ہیں۔ آندھر پردیش کے بابو نائیڈو کی پارٹی کے پاس چھ ووٹ ہیں۔ اس وقت سیاست کی کھچڑی زبردست انداز میں پک رہی ہے جبکہ کانگریس کی حکمت عملی جوش سے زیادہ جوڑ توڑ پر مشتمل ہے۔ ملائم سنگھ یادو ،جن کی سیاست کا مرکز بھارت کی سب سے بڑی ریاست یو پی ہے ، نے ایک بار پھر تیسری قوت ہونے کا نعرہ لگایا ہے۔ بھارت میں تیسرے اتحاد کی وجہ سے پارلیمانی سیاست میں مثبت روایات قائم نہ ہو سکیں۔ 1989ء کے انتخابات میں ایک معلق پارلیمنٹ وجود میں آئی۔ اس میں کانگریس کو 197 ، سوشلسٹ جنتا دل کو 142 اوربی جے پی کو 86 نشستیں ملیں۔ بی جے پی نے باہر سے وی پی سنگھ کو سپورٹ کیا بلکہ ان کی حکومت بھارتیہ جنتا پارٹی کے رحم و کرم پر ٹھہری۔ وی پی سنگھ سے حمایت لے کر چندر شیکھر وزیراعظم بنے پھر یہ بھی حکومت نہ چل سکی اور 1991ء میں وسط مدتی انتخابات کروانا پڑے۔ ان انتخابات نے کانگریس کو سنگل لارجسٹ پارٹی تو بنا دیا مگر اس کی قیمت راجیو گاندھی کی جان دے کر چکانا پڑی اور وہ تامل ناڈو میں انتخابی جلسہ میں خودکش حملہ میں زندگی کی بازی ہار گئے۔ 543 کے ایوان میں کانگریس نے راجیو کے قتل سے اُبھرنے والی حمایت سے 232 نشستیں حاصل کر لیں مگر کانگریس کو گاندھی خاندان کی سیاسی محاذ سے خاموشی سے علیحدگی کی قیمت ادا کرنا پڑی تھی۔کانگریس اور اقتدار کی ایسی کھینچا تانی شروع ہوئی کہ نرسیما راؤ کی وزارت عظمیٰ میں پارٹی تیزی سے زوال کی طرف بڑھتی گئی اور 1998ء کے انتخابات میں کانگریس صرف 140 نشستوں تک محدود ہو گئی۔ ستیارام کیسری کانگریس کے صدر بنے تو وہ بڑھاپے کی آخری حدوں کو چھو رہے تھے۔ پارلیمانی سیاست میں ان سے اتنی غلطیاں سرزد ہوئیں کہ سونیا گاندھی کو سیاست میں دخل دینا پڑا تاکہ ان کے خاندانی پارٹی پارلیمانی سیاست سے مٹ ہی نہ جائے۔ ستیارام کیسری نے پہلے متحدہ محاذ کے وزیراعظم ڈیوے گوڈا اور پھر اندرکمار گجرال کی حکومت کو گرانے میں بھرپور حصہ لیا۔ عوام نے بھارت کی سب سے بڑی جماعت کے لیڈر کے اس کردار کو پسند نہیں کیا۔ یو پی کی ریاست جو کسی زمانے میں کانگریس کی سیاست کا مرکز تھی اسے یہاں سے ایک بھی نشست نہ مل سکی۔ خود سونیا گاندھی کرناٹک سے کامیاب ہوئیں۔ قوم پرستی کے جس جذبے کو بی جے پی نے ابھارا تھا اقتدار کیلئے اسے بھی ایک اتحاد این ڈی اے بنانا پڑا۔ اس اتحاد میں جے للیتا کے اٹھارہ ووٹوں نے باجپائی کی حکومت کو تگنی کا ناچ نچایا۔ اسی طرح منموہن کی پہلی حکومت بھی اتحادیوں کے شکنجے میں جکڑی رہی۔ جوڑ توڑ کی سیاست میں ارکان پارلیمنٹ کی کارکردگی بھی زوال پذیر ہوئی ،جس کی ایک جھلک بھارت کے ایک جریدے نے دکھائی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صرف جھارکھنڈ میں 82 فیصد ارکان اسمبلی پر مجرمانہ مقدمات درج ہیں۔ اتر پردیش ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے۔ یہاں 403 ممبران اسمبلی میں سے 40 فیصد ارکان پر کریمنل مقدمات درج ہیں۔یہی حال دیگر اسمبلیوں کا ہے۔ صرف لوک سبھا ممبران کی بات ہو تو ہر 30 میں سے ایک کے خلاف قتل یا اس سے متعلق مقدمہ چل رہا ہے۔ ہر 23 میں سے ایک ممبر اقدام قتل کے مقدمہ میں ملوث ہے۔ ہر 34 میں سے ایک پر اغوا کا الزام ہے۔ ہر 54 میں سے ایک پر ڈکیتی اور لوٹ مار کا مقدمہ درج ہے۔ 16 ویں لوک سبھا کے انتخابات میں کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی دونوں سر دھڑ کی بازی لگا رہی ہیں تاکہ سنگل لارجسٹ پارٹی بن سکیں۔ کانگریس اس کوشش میں ہے کہ ایسی ریاستوں میں کامیابی حاصل کرے جس سے ان کی کامیابی کے دروازے کھل سکیں۔ سونیا گاندھی نے پارلیمنٹ میں چوتھی بڑی پارٹی بھوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایا وتی جو چار مرتبہ اتر پردیش کی وزیراعلیٰ رہ چکی ہیں، سے ایڈجسٹمنٹ اور اتحاد کیلئے ہاتھ بڑھایا ہے۔ مایاوتی، راہول سے اتحاد اسی صورت میں کریں گی جب لوک سبھا اور ریاستی اسمبلی میں سیٹوں کی تقسیم کا مرحلہ مکمل ہوگا۔ وہ یوپی میں 50 فیصد سے زائد نشستیں اپنے پاس رکھنا چاہتی ہیں۔ راہول گاندھی نے مایاوتی سے ہونے والی ملاقاتوں میں نرمی دکھائی ہے۔ اگر یہ اتحاد ہو جاتا ہے تو بھارت کی سیاست میںدلت، مسلمان اور برہمن ایک صف میں کھڑے ہو سکتے ہیں۔ اس اتحاد کا فائدہ دہلی کے ریاستی انتخاب میں بھی ہوگا اور یو پی لوک سبھا کے انتخاب میں کانگریس اور مایا وتی کو زیادہ نشستیں مل سکتی ہیں جبکہ نریندر مودی نے بھی یو پی کو ٹارگٹ بنایا ہے۔ تیسرے اتحاد کا نعرہ لگانے والے ملائم سنگھ یادو اسی میں سے پچاس ساٹھ نشستیں حاصل کرنے کے دعویدار ہیں۔ اگر وہ کامیاب ہوجاتے ہیں تو وہ وزیراعظم کے امیدوار ہو سکتے ہیں۔ کانگریس کو آندھر اپردیش کو تقسیم کرکے تلنگا ریاست بننے پر کانگریس کے اندر بغاوت کا سامنا ہے۔ اس کے 18 کے قریب ارکان لوک سبھا نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا ہے۔ بنگال میں ممتازبینرجی کو فیڈرل فرنٹ وفاقی مورچہ کی کانگریس سے بڑھتی دوستی پسند نہیں۔ تامل ناڈو کی چوتھی مرتبہ وزیراعلیٰ بننے والی اداکارہ جے للیتا کو ان کے مخالف کروناندھی کے کانگریس سے رابطے پسند نہیں۔ بہار میں لالو پرشاد یادو کی پارٹی بھی کانگریس سے ناراض بیٹھی ہے۔ بھارت کی پارلیمانی سیاست کے حوالے سے سامنے آنے والے پول سے لگتا ہے مودی کیلئے بہت بڑی تبدیلیوں کی گنجائش نہیں۔ البتہ نومبر اور دسمبر 2013 ء میں پانچ ریاستوں میں ہونے والے انتخابات مقبولیت کا پیمانہ بن سکتے ہیں۔ چھتیس گڑھ کی سیاست اگر تبدیل ہوئی تو اس میں ’’دلت‘‘ ووٹوں کا اہم کردار ہوگا۔ یہاں بی جے پی کی حکومت ہے۔ مدھیہ پردیش میں بھی بی جے پی کی حکومت ہے۔ کانگریس نے یہاں مایاوتی سے اتحاد سمیت ہر آپشن کھلا رکھا ہے۔ راجستھان کانگریس کا پہلے ہی گڑھ ہے۔ مینزو روم کی 40 رکنی اسمبلی میں کانگریس کی حکومت 32 ارکان پر مشتمل ہے۔پارلیمنٹ کی مدت جیسے جیسے کم ہورہی ہے مودی اور راہول گاندھی کی حکمت عملی آگے بڑھ رہی ہے۔ جملہ بازی، جوش خطابت اور انتخابی تقریری حربوں میں تو مودی صاحب آگے نظر آ رہے ہیں لیکن ان کے ساتھ انتہا پسندی اور مسلم دشمنی کا لیبل بھی موجود ہے۔ ان سے سیکولر فورسز بھی ناراض ہیں۔ نہرو خاندان کے اگلے جانشین کے طور پر راہول آگے بڑھ رہے ہیں۔ کس کی حکمت عملی کامیاب ہو گی اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں