"WAC" (space) message & send to 7575

خود مختاری اور سیاسی رویے

امریکہ دہشت گردی کی جنگ میں کامیابیوں کا تمغہ سجا کر 2014 ء میں افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے۔ اس نے تقریباً بارہ سال پر پھیلی اس جنگ میں اپنے اہداف خاصی حد تک حاصل کر لیے ہیں۔ اب وہ ایک جمہوری حکومت کے تسلسل کے لیے طالبان کو افغانستان کے جمہوری عمل میں متحرک کرنا چاہتا ہے۔چنانچہ طالبان سے مذاکرات کے لیے تقریباً ایک سال سے مختلف چینل استعمال کررہا ہے ۔ 11 مئی 2013ء کے انتخابی عمل میں کامیابی کے ساتھ ہی میاں نواز شریف نے حیران کر دینے والا بیان جاری کیا کہ وہ پاکستان تحریک طالبان سے مذاکرات چاہتے ہیں۔نئے حکمرانوں کا مقصد یہی تھا کہ کشت و خون سے ریاست ہی نہیں سوسائٹی بھی کمزور ہو رہی ہے، اسے پھر سے مستحکم کیا جائے۔ حکومت نے سب سے پہلے ڈرون حملوں کا سوال اٹھایا، حقوق انسانی کی تنظیمیں متحرک ہوئیں، اورڈرون حملوں کے بارے میں بحث چل نکلی۔ اپنے حالیہ دورہ ٔامریکہ میں میاں نواز شریف نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ہی نہیں وائٹ ہاؤس کے سامنے بھی یہ مسئلہ اٹھایا۔اسی دوران میں ڈرون حملوں کے حوالے سے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی ایک چارج شیٹ جاری کر دی۔ یوں اس ایشو پر جو امید پیدا ہوئی اسے تازہ ڈرون حملے نے ناامیدی کی طرف دھکیل دیا۔ ڈرون حملوں سے پہلے میاں صاحب نے طالبان سے مذاکرات میں پیش رفت کے حوالے سے برطانیہ کے نائب وزیراعظم نک کلیگ کو ملاقات میں بتایا کہ آئین اور قانون کے اندر رہتے ہوئے طالبان سے مذاکرات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ حکومت پاکستان نے 2نومبر کو تین رکنی وفد وزیرستان بھیجنا تھا، جس کی تفصیلات عمران خان، سید خورشید علی شاہ اور مولانا فضل الرحمن سے بھی شیئر کی گئی تھیں ۔ پاکستان کو امن کی ضرورت ہے۔ کتنے طالبان اور کتنے شہری ڈرون حملوں میں مارے گئے یہ بحث ہوتی رہے گی مگر یہ سچ ہے کہ ردعمل میں پاکستان کے پچاس ہزار کے قریب بے گناہ شہری مارے جا چکے ہیں۔ اقتصادی نقصان کا تو تخمینہ ہی نہیں لگایا جاسکتا۔ حالیہ امریکی ڈرون حملہ میاں نواز شریف اور بارک اوباما کے درمیان ہونے والی ملاقات کے دو ہفتوں کے اندر ہی کر دیا گیا ہے۔ میاں نواز شریف کے دورہ امریکہ میں زیر بحث موضوعات میں ڈرون حملوں کو اولیت حاصل تھی۔ باب وڈ ورڈ نے پہلا پتھر پھینکتے ہوئے ایک رپورٹ لکھی جو امریکہ کے سب سے بڑے بااثر اخبار کی زینت بنی اور جس میں چشم کشا انکشافات سامنے آئے کہ کس طرح امریکہ میں پاکستان کا سفیر ہر حملے اور اس کے ٹارگٹ کے بارے میں معلومات حاصل کرتا تھا، اور5 سال کس طرح قیادت ڈرون حملوں پر راضی رہے۔ ایک متاثرہ فرد امریکی کانگریس کی خارجہ امور کمیٹی کے سامنے ڈرون حملے سے اپنے خاندان کے بکھرنے کی کہانی بیان کر رہا تھا تو اس کی مترجم بھی ترجمہ کرتے ہوئے آنسوؤں پر قابو نہ رکھ سکی۔کمیٹی کے رکن ایلن گریس کا یہ بیان حکمرانوں اور سیاستدانوں کو غوروفکر کا موقع فراہم کرتا ہے،جس میں انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان چاہے تو ڈرون حملے کل ہی بند ہو سکتے ہیں؟ ایسا ہی سوال نما جواب میاں صاحب کو وائٹ ہاؤس کی طرف سے ملا تھا کہ یہ حملے کس کی اجازت سے ہوتے رہے ہیں؟ جب میاں صاحب اپوزیشن میں تھے،وہ سابقہ حکومت کو مورد الزام ٹھہرایا کرتے تھے کہ یہ حملے باہر سے نہیں خود پاکستان کے اندر سے ہوتے ہیں۔ وزیراعظم کے دورہ امریکہ کی کامیابی اور ناکامی پر بحث ہوتی رہے گی۔ البتہ دو موضوعات نے نتیجے کے طور پر فوری سر اٹھایا ہے۔ ایک ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی اور دوسرا ڈرون حملوں میں حکومت پاکستان کا یوٹرن۔ 2 مئی 2011ء کو بی ایم اے کاکول سے دو کلومیٹر دور ایبٹ آباد کے بلال ٹاؤن کے اس کمپاؤنڈ کا راستہ ڈاکٹر شکیل نے ہی امریکی سی آئی اے کو دکھایا تھا جس کے بعد اسامہ بن لادن کے خلاف کارروائی عمل میں آئی ۔ تحقیقات کے لیے سابقہ حکومت نے سپریم کورٹ کے ریٹائر جج جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں کمیشن آف انکوائری قائم کیا جس کی رپورٹ 2 جنوری 2013 ء کو اس وقت کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو پیش کی گئی ۔اس رپورٹ میں ایک پورا باب ڈاکٹر شکیل آفریدی کے کردار کا احاطہ کرتا ہے ۔اس وقت اسامہ بن لادن کے سر کی قیمت ڈھائی کروڑ ڈالر مقرر تھی اور اطلاع دینے والے کیلئے 20 لاکھ ڈالر کا انعام تھا۔ 23 مئی 2012ء کو ڈاکٹر کو جاسوسی کے الزام میں 33 سال قید کی سزا ہوئی۔ اس سزا کے بعد سے ڈاکٹر آفریدی امریکہ کا ہیرو ہے۔۔ حکومت نے دوسرا یوٹرن ڈرون حملوں کے اعداد و شمار کے حوالے سے لیا ہے جس کی وجہ سے امریکہ کو جنگی جرائم کی عدالتوں میں لے جانے والی ایمنسٹی انٹرنیشنل کا منہ بند کر دیاگیا ہے۔ چودھری نثار نے 30 اکتوبر 2013 ء کو ڈیفنس منسٹری کی رپورٹ میں بتایا کہ 5 سالوں میں ڈرون حملوں میں 2160 دہشت گرد اور 67 سویلین مارے گئے ،حالانکہ صرف ڈمہ ڈولہ کے ایک ڈرون حملے میں 80 بچے مارے گئے تھے جو مدرسے میں زیر تعلیم تھے۔ چودھری نثار کی اس رپورٹ سے اگلے روز ان کے حوالے سے جاری ہونے والے اعداد و شمار کی امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے خوب تشہیر کی۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کی طرف سے نیویارک ٹائمز کو پیش کئے گئے اعداد و شمار میں 2004 ء سے اب تک 400 سویلین ہلاکتوں کی تعداد بتائی گئی تھی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے یہ تعداد 900 بتائی۔ امریکہ نے ایسا ہی ایک حملہ 20 اگست 1998 ء کو اسامہ بن لادن کے ٹھکانوں پر کروز میزائلوں سے کیا تھا۔ امریکی جنرل رئٹسن 20 اگست 1998ء کی شام ساڑھے سات بجے پاکستان پہنچے اور ساڑھے دس بجے واپس چلے گئے ۔اس وقت کے آرمی چیف جہانگیر کرامت نے وزیراعظم کو امریکہ کے حملے سے آگاہ کر دیا تھا۔ یہ سوال شدت سے اٹھایا گیا کہ پاکستان کی سرحد حملے میں استعمال ہوئی یا نہیں ۔تمام میزائل پاکستان کی سرحد کے اوپر سے گزرے بلکہ کچھ پاکستان کے اندر بھی گرے تھے۔ 2 دسمبر 1998ء کو میاں صاحب نے امریکہ کا دورہ کیا۔ دورہ امریکہ سے واپسی پر 18 دسمبر 1998 ء کو امریکی صدر بل کلنٹن نے میاں صاحب کو ایک ٹیلی فون کرکے فرمائش کی کہ وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے طالبان کو بڑے حملے سے روکنے میں مدد دیں ۔ اس کی 3 صفحات پر مشتمل رپورٹ حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔ حالیہ ڈرون حملہ حکومت کے لیے سوالیہ نشان ہے کہ اس کی اطلاع کس نے دی؟ حکیم اللہ محسود کا نام امریکہ کے انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں تھا۔ اس کے سر کی قیمت 50 لاکھ ڈالر تھی۔ بیت اللہ محسود کے ڈرون حملے میںمارے جانے کے ردعمل میں افغانستان میں7 امریکیوں کی ہلاکت کے علاوہ بہت سی کارروائیوں کی منصوبہ بندی اور حکمت عملی میں حکیم اللہ محسود کا نام آتا رہاہے۔ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر امریکہ تو خوش ہوگا کہ اس نے اپنے ایک دشمن کو ٹھکانے لگا دیا،اور یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہوا جب حکومت پاکستان چار ماہ کی محنت کے بعد ملک کی تمام چھوٹی بڑی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر مذاکرات کے لیے تین رکنی وفد وزیرستان بھیج رہی تھی اور چودھری نثار مذاکرات کے فوکل پرسن تھے۔ موجودہ حملوں کے ردعمل میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان بداعتماد ی کی فضا ایک بار پھر سر اٹھا رہی ہے جس کا آغاز 2011 ء میں اسامہ بن لادن کی موت سے ہوا تھا ،چنانچہ چند ماہ سے امریکہ اور پاکستان کے بہتری کی طرف بڑھتے ہوئے قدم فی الوقت رک سے گئے ہیں ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں