"WAC" (space) message & send to 7575

سیاست پربرادری ازم کا غلبہ

نچلی سطح پر عوام کو کاروبار حکومت میں شامل کرنے کی حکمت عملی قیام پاکستان سے بہت پہلے طے ہو چکی تھی۔ اس کے لیے مقامی حکومتوں کا جو نظام برطانوی راج میں قائم کیا گیا تھا اس میں اصل طاقت سرکاری عہدیداروں کے پاس ہی تھی؛ البتہ یہ ضرور ہوا کہ عام لوگوں کو بھی کچھ اختیارات مل گئے۔ حکومت نے تقسیم کرو اور حکومت کرو کا فارمولا اوپر کی سطح پر ہی نہیں مقامی حکومتوں پر بھی آزمایا۔ برادری ازم کو اہم ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ قومی سطح کے لیڈر بھی اس رو میں بہہ گئے۔ انہوں نے آل انڈیا سطح پر قائم ہونے والی جاٹوں، راجپوتوں، آرائیوں، گجروں اور دیگر برادریوں کے اجلاسوں کی حوصلہ افزائی کی جس سے برادریوں کی سیاسی قوت میں زبردست اضافہ ہوا۔ متحدہ پنجاب میں یہ حربہ 1937ء کے انتخابات سے پہلے لاہور کی بلدیاتی سطح پر آزمایا گیا۔ پہلی مرتبہ جاٹ اور راجپوت برادریوں کے اتحاد نے پنجاب کے اقتدار اعلیٰ پر سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت قبضہ کر لیا۔ اس کے بانی سر فضل حسین تھے جنہوں نے پنجاب میں جاٹ اور راجپوتوں کی سیاسی بالادستی قائم کرنے کیلئے متحدہ پنجاب میں ایک فارمولا ترتیب دیا۔ زمینداروں کے تحفظ کیلئے یونی نسٹ پارٹی پہلے ہی قائم تھی پھر بھی اس کو مقبول بنانے کیلئے مغربی پنجاب میں دو بڑی برادریوں کا سہارا لیا گیا۔ سر فضل حسین راجپوتوں کے نمائندہ بن گئے جبکہ جاٹ برادری کی لیڈری سردار حبیب موکل کے حصہ میں آئی۔ سر فضل حسین نے انبالہ ڈویژن کے رانگڑ راجپوتوں، میواتیوں، جالندھر اور لاہور کے نارو، رانوں، راولپنڈی کے راجوں، فیصل آباد اور منٹگمری کے راجپوتوں، وٹوؤں اور جوئیہ برادری کو متحد کیا اور ایسے امیدواروں کا چناؤ سامنے لایا گیا جو اپنے علاقوں میں راجپوتوں کے معتبر اور مستند لیڈر تھے۔ سردار حبیب اللہ جاٹ مہاسبھا کے پہلے ہی مرکزی لیڈر تھے۔ سر چھوٹو رام جو بنیا ازم کے مخالف تھے‘ اس کے صدر اور سردار حبیب اللہ اس کے سیکرٹری تھے۔ دونوں نے برادری کے تشخص کو اس قدر آگے بڑھایا کہ مشرقی پنجاب کے سکھ اور ہندو جاٹ بھی اس پلیٹ فارم پر آگئے۔ سردار حبیب اللہ موکل نے مغربی پنجاب میں جاٹوں کی مختلف گوتوں، چیمہ، چٹھہ، باجوہ، سندھو، وڑائچ، تارڑ، ڈھلوں، بٹر، ملہی اور کاہلوں سے منسلک زمینداروں کو ساتھ ملا لیا۔ سر فضل حسین نے راجپوت بالادستی کا نعرہ تو لگایا مگر اس کا فائدہ کسی اور نے اٹھایا۔ پنجاب انتظامیہ کی بھرپور تائید کے باوجود وہ وزارت اعلیٰ کے منصب پر اس لیے نہ پہنچ سکے کہ ان کی صحت اتنی شکستہ ہو گئی کہ وہ 1937ء کے انتخاب سے پہلے ہی انتقال کر گئے۔ راجپوتوں کی قیادت سر سکندر حیات کے حصہ میں آئی۔ انہوں نے راجپوتوں کے پلیٹ فارم کو سر فضل حسین کے انتقال کے بعد بھی مضبوط رکھا مگر ان کی سر حبیب اللہ موکل سے ان بن رہی۔ ان کے مقابلے میں سر سکندر حیات نے ضلع سیالکوٹ کے جاٹ سیاستدان سر شہاب الدین کو اپنے گروپ میں شامل کیا جو جوئیہ راجپوت احمد یار دولتانہ کے ہم زلف تھے اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب ممتاز دولتانہ کے خالو تھے۔ سر شہاب الدین نے جو علامہ اقبال کے ہم عصروں میں شمار ہوتے تھے، اپنی سیاست کا مرکز لاہور کو بنایا اور یہاں وسیع و عریض کوٹھی الممتاز کے نام سے تعمیر کی۔ وہ بلدیہ لاہور کے دو مرتبہ چیئرمین رہے۔ سر شہاب الدین اور احمد یار دولتانہ نے 1937ء میں سردار حبیب موکل کو ناکام بنانے کیلئے باغبانپورہ کے میاں افتخار الدین کو آگے بڑھایا اور کامیاب کرایا۔ سر سکندر حیات کی حکمت عملی سے جاٹوں کے لیڈر سر شہاب الدین بن گئے جو سر فضل حسین کے فارمولے کے مطابق سپیکر اسمبلی بنے اور وزارتِ اعلیٰ کا قرعہ سر سکندر حیات کے نام نکلا۔ برادری ازم کا جو تشخص 1937ء کے انتخاب میں ابھرا،اس کا سحر آج تک نہیں ٹوٹ سکا۔برادری ازم کی نچلی سطح پر بھی تنظیمیں قائم ہونے لگیں اور آل انڈیا سطح پر راجپوتوں اور جاٹوں کو ہی نہیں دیگر برادریوں کو بھی پلیٹ فارم میسر آ گئے۔ لاہور سے آرائیں برادری کو 1937ء کے انتخاب میں تین ممبر میاں عبدالعزیز مالواڑہ اور سردار آصف احمد علی کے چچا سردار محمد حسین گنجیانوالہ اور میاں افتخار الدین میسر آئے۔ لاہور میں بلدیاتی انتخابات بھی قیام پاکستان سے پہلے تسلسل کے ساتھ ہو رہے تھے اور یہاں کشمیری، آرائیں اور ککے زئی تین بڑی برادریاں آپس میں نبردآزما رہتی تھیں۔ برادری ازم کا نظارہ ہمارے شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال کو بھی اپنے پہلے انتخاب میں دیکھنا پڑا۔ علامہ اقبال مسلمانوں کی فکری رہنمائی کر رہے تھے پھر بھی ان کے قریبی حلقے نے مشورہ دیا کہ وہ پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے انتخاب میں حصہ لیں۔ عبدالعزیز مالواڑہ اور بلدیہ لاہور کے سابق چیئرمین ملک محمد حسین علامہ اقبال کے حق میں دستبردار ہو گئے لیکن آرائیں برادری کے اہم رہنما ملک محمد امین نے مقابلہ کی ٹھانی اور ناکام رہے۔ عوام نے برادری ازم کو مسترد کرتے ہوئے علامہ اقبال کے حق میں فیصلہ دیا۔ مجموعی طور پر برادری ازم کا نعرہ ہر الیکشن کی ضرورت رہا ہے یہاں تک قومی سطح کی سیاسی جماعتیں بھی امیدوار کا انتخاب کرتے ہوئے اس کا ووٹ بینک اور برادری کی طاقت کا اندازہ لگاتی ہیں۔ تقسیم کے بعد ہونے والے بلدیاتی انتخابات،جو ہر ضلع میں الگ الگ تاریخوں میں ہوتے تھے، میں برادریاں اپنے اتحاد کا بھرپور مظاہرہ کرتی رہیں۔ 1958ء کا مارشل لاء سیاست کی نفی تھا۔ برادری ازم کی جو چنگاری 1946ء میں دبی تھی وہ پھر بھڑک اٹھی۔ بنیادی جمہوریت کے پلیٹ فارم نے برادری کے بتوں کو زندہ کر دیا۔ ضیاء الحق کے بلدیاتی اور 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات نے ذات برادری کے سوال کو ایسا زندہ کیا کہ اس سے اب تک پیچھا نہیں چھڑایا جا سکا۔ لاہور ہائی کورٹ نے سیاسی جماعتوں کو بلدیاتی انتخاب کرانے کا جو حکم دیا ہے اس سے برادری ازم کے ختم ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت کا علم بلند کرنے والی جماعتوں کی تنظیم سازی ابھی تک یونین کونسل تک نہیں پہنچی۔ 2013ء کے انتخابی عمل سے پہلے آئینی ضرورت پوری کرنے کیلئے سیاسی جماعتوں نے جس طرح انتخابات کرائے وہ تماشا سے زیادہ نہیں۔ قومی سطح پر پارٹی انتخابات سے ڈرنے والے یونین کونسل کی سطح پر کیسے جمہوریت قائم رکھ سکتے ہیں۔ لاہور کی بلدیاتی سیاست قیام پاکستان کے بعد کشمیری، آرائیں اور ککے زئی میں بٹی نظر آتی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد لاہور کے 21 انتخابات ہوئے ہیں۔ دس مرتبہ آرائیں، چھ مرتبہ کشمیری، دو مرتبہ سید، ایک مرتبہ جاٹ اور ایک مرتبہ ککے زئی سربراہی کے حق دار ٹھہرے۔ پرویز مشرف کے دور میں دو مرتبہ ہونے والے انتخابات میں ضلع اٹک کی سربراہی دو مرتبہ راجپوت، راولپنڈی میں راجپوت، جہلم میں جاٹ ، گجرات اور منڈی بہاؤ الدین میں جاٹ ، ضلع گوجرانوالہ 2 مرتبہ جاٹ، ٹوبہ ٹیک سنگھ دو مرتبہ آرائیں، قصور دو مرتبہ راجپوت، اوکاڑہ دونوں مرتبہ سید، ساہیوال اور پاکپتن دونوں مرتبہ راجپوت، پاکپتن میں دونوں مرتبہ راجپوت، خانیوال اور لودھراں میں بھی دونوں مرتبہ ہراج اور کانجو راجپوت، ڈیرہ غازی خان اور راجن پور میں بلوچ، بہاولنگر اور بہاولپور میں جاٹوں کے پاس رہی ہے۔ راجپوتوں کے مقابلے میں جاٹوں کی برتری کی اہم وجہ یہ ہے کہ اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب کے بارے میں یہ تاثر تھا کہ بلدیاتی اور قومی سیاست میں انہوں نے جاٹوں کو پرموٹ کیا۔ برادری ازم کی پروموشن اسی وقت رک سکتی ہے جب سیاسی جماعتوں کا اپنا نظام مستحکم ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں