"WAC" (space) message & send to 7575

وزیر اعظم کا دورہ امریکہ کتنا کامیاب؟

پندرہ سال کے بعد وزیر اعظم میاں نواز شریف کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کا جو موقع میسر آیا اس میں انہوں نے تقریباً انہی باتوں کا اعادہ کیا جس کا اظہار وہ اس سے پہلے کئی بار کر چکے تھے۔ انہی خیالات کا اظہار وہ امریکہ کے چار روزہ سرکاری دورہ سے پہلے مختلف انداز میں کرتے رہے۔ میاں نواز شریف طویل عرصہ تک پاکستان اور اقتدار سے باہر رہے۔ اس عرصے میں بہت کچھ بدل گیا۔ بہت سے عالمی ایشوز تبدیل ہو گئے۔ کئی ممالک کی قیادتیں تبدیل ہو گئی۔ دہشت گردی کی جنگ نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ حالیہ دورہ واشنگٹن میں میاں صاحب کے نزدیک سب سے اہم معاملہ اعتماد اور تعلقات کی بحالی تھا۔ وزیر اعظم نواز شریف کا دورہ کامیاب رہا یا ناکام، اس بارے میں متضاد آرا ظاہر کی جا رہی ہیں۔ پاکستانی کے ساتھ ساتھ عالمی میڈیا بھی ناکامی کے تاثر کو عام کر رہا ہے۔ وزیر اعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کہنا ہے پاکستان مخالف لابی عالمی میڈیا میں ان کے خلاف پروپیگنڈا میں مصروف ہے۔ اس ملاقات کے بارے میں ناکامی کا تاثر پھیلانا ڈپلومیسی کے پیرایہ میں درست نہیں۔ امریکہ جنوبی ایشیا میں نہ تو بھارت کو کھونا چاہتا ہے اور نہ پاکستان کو۔ ہماری خارجہ پالیسی ضیاء الحق کے دور سے جس سمت پر چل رہی ہے اسی میں چلی جا رہی ہے‘ اس میں کوئی تبدیلی نہیں لائی گئی۔ سابق سفیر ملیحہ لودھی تو پاکستان کی خارجہ پالیسی کو ’’امریکہ کی افغان پالیسی‘‘ کا عنوان دیتی ہیں اور یہ بات کسی حد تک درست بھی، میاں نواز شریف کے دورہ امریکہ کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ کرنے سے پہلے اس کے مفادات کے پورے پس منظر پر غور کر لیا جائے تو بہتر ہو گا۔ 1977ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو ہٹا کر مارشل لاء لگانے کا ذمہ دار امریکہ کو سمجھا گیا۔ اس کا تذکرہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی کتاب اور انٹرویو میں کئی بار کیا۔ ضیاء الحق نے جمہوریت کا وعدہ توڑ کر اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کا راستہ اختیار کیا تو اس وقت کے امریکی صدر خفا ہو گئے لیکن افغانستان میں روسی فوجوں کے داخلے کے ساتھ ہی نقشہ ایسا تبدیل ہوا کہ واشنگٹن ضیاء الحق کیلئے دیدہ و دل فرش راہ کرنے پر مجبور ہو گیا۔ یکم اکتوبر 1980ء کا دن یادگار ٹھہرا۔ اس روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں انہوں نے کشمیر سمیت بہت سے معاملات پر بات کی‘ جس پر اندرا گاندھی نے شدید احتجاج کیا کہ ضیاء الحق نے کشمیر اور بھارت میں فسادات کیوں چھیڑا۔ 3 اکتوبر 1980ء کو وائٹ ہاؤس میں ان کی خوب آؤ بھگت کی گئی۔ ایک گھنٹے کی ملاقات میں جمی کارٹر نے ضیاء الحق کو یاد دلایا کہ 1959ء کے معاہدہ کے تحت امریکہ نے پاکستان کے تحفظ کا جو معاہدہ کر رکھا ہے وہ اب بھی اس پر قائم ہے۔ افغانستان میں طالبان کے طاقتور بن جانے کا عمل بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور کے آخری سال میں عروج کو پہنچا اور اس کے بعد پاکستان کی خارجہ پالیسی کی قسمت افغانستان سے جڑ گئی۔ افغانستان سے روسی فوجوں کو پسپائی سے پہلے دنیا دو سپر ایٹمی قوتوں کے ٹکرانے کے خوف میں مبتلا تھی۔ پھر یہ خوف جنوبی ایشیا میں منتقل ہو گیا جس سے سب سے زیادہ پریشان امریکہ ہی ہے۔ پاک بھارت تعلقات اس خطے کی ضرورت ہیں۔ بے نظیر بھٹو دوسری بار اقوام متحدہ کے اجلاس سے خطاب کرنے گئیں تو وہ بھی اپنے والد کی طرح کشمیر ایشو کو نہ بھولیں۔ تین اکتوبر 1996ء کو انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب میں کشمیر کے ایشو پر عالمی برادری کی بھرپور توجہ دلائی۔ مسئلہ کے حل کیلئے 9 ممالک کی تجویز پیش کی۔ جب بے نظیر بھٹو امریکہ میں تھیں تو پاکستان میں ان کی حکومت آخری سانس لے رہی تھی۔ 1998ء میں سلامتی کونسل کے اجلاس سے پہلے امریکی ایوان نمائندگان اور سینٹ کے نمائندوں پر مشتمل پینل نے پاکستان اور بھارت پر عائد پابندیوں کو ختم کر دیا اور آئی ایم ایف بھی اس کے بعد پاکستان کی مدد کیلئے تیار ہو گیا۔ پاکستان اور بھارت ایٹمی دھماکے کر چکے تھے۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اور دوستی کی نئی لکیر کھینچنا ضروری ہو گیا تھا۔ دوسری طرف افغانستان میں طالبان اور شمالی اتحاد کی جنگ خطرناک حدود پار کر چکی تھی۔ میاں نواز شریف 1998ء میں سلامتی کونسل کے اجلاس میں شرکت کیلئے امریکہ گئے تو اسی روز کابل میں طالبان اور احمد شاہ مسعود کی فوجوں نے ایک دوسرے پر خوفناک حملہ کیا تھا۔ اس ماحول میں وزیر اعظم پاکستان کا شاندار استقبال ہی نہیں ہوا بلکہ امریکی صدر بل کلنٹن نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کام کرنے کا اعلان بھی کیا۔ میاں نواز شریف نے بل کلنٹن سے وائٹ ہاؤس میں جو ملاقات کی تھی وہ کامیاب رہی تھی جس میں پاکستان پر ایٹمی دھماکوں کی وجہ سے لگائی گئی پابندیوں اور دباؤ کی فضا کو ختم کا مطالبہ کیا تاکہ پاکستان کی معیشت اور تجارت سے مضبوط ہو۔ میاں نواز شریف کے حالیہ دورے کو دیکھا جائے تو ڈرون حملوں کے حوالے سے ان کے موقف کو پذیرائی ملی ہے۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے بل امرس نے ایک رپورٹ جنرل اسمبلی میں پیش کی‘ جس میں بتایا گیا ہے کہ 2004ء سے اب تک فاٹا میں 330 ڈرون حملوں میں 2200 افراد مارے جا چکے ہیں‘ جن میں 400 عام شہری تھے۔ رپورٹ میں واضح طور پر عالمی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اس سے پہلے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ نے دنیا کے ضمیر کو جھنجوڑ کر رکھ دیا اور خود امریکہ میڈیا میں بحث چل رہی ہے کہ ڈرون حملے روکے جائیں۔ پاکستان میں جمہوریت کا جو نیا سفر شروع ہوا ہے امریکہ نے اس کی مشکلات کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ معیشت اور توانائی کے بحران پر قابو کے نتائج بھی وقت گزرنے کے ساتھ سامنے آئیں گے۔ جہاں تک مسئلہ کشمیر اور ممبئی حملوں کے ملزموں کا تعلق ہے پاکستان جماعۃ الدعوۃ کے بارے میں پہلے ہی تحقیق کر چکا ہے۔ ناکافی شواہد پر ان کے خلاف کارروائی نہیں ہو سکتی۔ منموہن سنگھ جن کی جماعت 2014ء کے انتخاب میں طاقتور حریفوں سے مقابلہ کرنے جا رہی ہے۔ میاں نواز شریف نے امریکہ میں دوستی کا جو ہاتھ بڑھایا تھا وہ کاوش رائیگاں نہیں گئی۔ وزیر اعظم نواز شریف کے دورہ امریکہ کے مثبت نتائج آنے میں ایک سال یا اس سے زائد عرصہ لگ سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں