"WAC" (space) message & send to 7575

بلوچستان سب سے آگے

بنیادی جمہوریت کے انتخابات جماعتی بنیادوں پر کرانے کا کریڈٹ بلوچستان کی حکومت، سیاسی جماعتوںاور قبائلی سرداروں کو جاتا ہے۔ ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ سردار اور بااثر بلوچی سیاستدان اپنے اقتدار کے لیے مختلف اضلاع کے حصے بخرے کرتے رہے ہیں جس کی وجہ سے بلوچستان جو آبادی کے حوالے سے سب سے چھوٹا صوبہ ہے، تقسیم ہوتے ہوتے 32 اضلاع تک جا پہنچا ہے۔ اضلاع کی تقسیم بنیادی طور پر بہتر انتظامات کے عنوان کے تحت کی جاتی رہی لیکن عوام کے لیے تعلیم، پینے کا پانی، روزگار اور صحت کی سہولتوں کا فقدان رہا۔ ضلع خضدار کو‘ جو ضلع جھالاواں کہلاتا ہے‘ 25 فروری 1974ء کو قلاّت سے الگ کرکے ضلع کا درجہ دیا گیا مگر ضلع بن جانے کے باوجود بلوچ سرداروں کی مضبوط گرفت کی وجہ سے عام آدمی کو سہولتیں نہ مل سکیں۔خضدار کے ضلع بننے کا سب سے زیادہ نقصان قلات کے شاہی قبیلے احمد زئی کو ہوا۔ ان کی ریاست تو گئی ہی تھی سیاست بھی دم توڑنے لگی۔ 2005ء کے بلدیاتی انتخاب میں قلات کے پرنس آغا عرفان کریم اور پرنس عمر داور ضلع قلات کا انتخاب ہار گئے۔ زہری قبیلے کے میر نعمت اللہ زہری 2005ء میں ایک مذہبی جماعت کی حمایت سے کامیاب ٹھہرے۔ تاہم ضلع بننے سے زہری قبیلے کے ساتھ ساتھ سردار عطاء اللہ مینگل اور اختر مینگل کو فائدہ ہوا۔ زہری خاندان نے قلات سے بھی ضلع ناظم کیلئے طبع آزمائی کی تھی۔ سردار ثناء اللہ زہری کے چھوٹے بھائی میر ظفر اللہ زہری ضلع 
ناظم کا انتخاب سخت مقابلے کے بعد ہارے۔ ضلع لسبیلہ کی سیاست کو دیکھا جائے تو اس کی سرحدیں شہر کراچی سے جا ملتی ہیں۔ 30 جون 1954ء کو قائم ہونے والے اس ضلع میں ریاست لسبیلہ پر جاموٹ قبیلے کی علیانی شاخ کے افراد ہی حکمرانی پر فائز رہے ہیں۔ پرنس یوسف‘ جو بلدیاتی سیاست سے ہوتے ہوئے مرکز تک پہنچے‘ کے والد جام میر غلام قادر بھی دو مرتبہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ رہے۔ خود پرنس یوسف کے حصہ میں بھی بلوچستان کی وزارت اعلیٰ آئی۔ ان کے بیٹے جام کمال دو مرتبہ ضلع لسبیلہ کے بلامقابلہ ناظم رہے۔ اس ضلع میں لاسی اور بھوتانی قبیلہ بھی سیاست کے میدان میں آگے جانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ ضلع جعفر آباد میں جمالی قبیلہ مقامی سطح پر جعفر آباد اور نصیر آباد کے اضلاع کی حدود تبدیل کرانے میں دلچسپی لیتا رہا ہے۔ جعفر آباد کا علاقہ کبھی سندھ کے ضلع جیکب آباد کی تحصیل ہوا کرتا تھا اور اسی حلقے سے میر جعفر جمالی سندھ اسمبلی کے رکن کامیاب ہوتے رہے۔ تالپوروں اور خان آف قلات کی لڑائی میں یہ علاقہ بطور تاوان بلوچستان میں شامل ہوا۔ اوستہ محمد اور تحصیل چھٹ پٹ کبھی نصیر آباد اور کبھی جعفر آباد کا حصہ بنتے رہے ہیں۔ تحصیل کی اکھاڑ پچھاڑ کا مقصد سرداروں کے سامنے اس کے سوا کچھ اور نہیں تھا کہ مقامی سطح پر بھی اختیار و اقدار کی قوت ان کے پاس رہے۔ بلدیاتی انتخاب میں 1979ء سے 2013ء تک جمالی خاندان اپنا بول بالا کرتا رہا ہے۔ مشرف کے ضلعی انتخاب میں دونوں مرتبہ میر خان محمد جمالی ضلع ناظم چنے گئے۔ 
گوادر ضلع بن جانے سے مقامی آبادی کو کافی فائدہ ہوا ہے۔ اس ضلع میں روایتی سرداروں اور بلوچ لیڈروں کا اتنا عمل دخل نہیں۔ ضلع تربت کا سب سے زیادہ فائدہ قوم پرست جماعتوں کو ہوا ہے۔ جھل مگسی‘ جو مگسی سرداروں کی طاقت کا مرکز ہے، پہلے بولان کی تحصیل ہوا کرتی تھی۔ بولان کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ یہاں ماضی کی ایک مشہور جنگ لاشاری اور رند سرداروں کے درمیان لڑی گئی تھی۔ جھل مگسی کو 1991ء میں ضلع کا درجہ ملا تھا لیکن مگسی سرداروں کی بولان کی سیاست میں دلچسپی کبھی ختم نہیں ہوئی اور یہ بولان کے رند سرداروں کے مخالف رہے۔ 2001ء کے انتخاب میں رند اور مگسی کی بلدیاتی سیاست کا میدان مگسی سرداروں کے حصہ میں رہا۔ نوابزادہ خالد مگسی بہتر کارکردگی دکھا کر ضلع ناظم بن گئے۔ 2005ء کے انتخاب کے وقت سردار یار محمد رند مرکزی وزارت پر متمکن تھے یوں میر خالد مگسی کو جھل مگسی تک محدود رہنا پڑا۔ سردار یار محمد رند اپنے بیٹے سردار محمد خان رند کو ضلع ناظم بولان بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ میر خالد مگسی بھی جھل مگسی سے بلامقابلہ ناظم بن گئے۔ قلعہ عبداللہ کا قیام انتظامی ضرورتوں سے زیادہ سیاسی مصلحتوں کے پس منظر میں وقوع پذیر ہوا۔ قلعہ عبداللہ کا نام جنگ آزادی کے عظیم ہیرو غازی عبداللہ کے نام پر رکھا گیا تھا۔ انہوں نے انگریزوں کے تسلط کو روکنے کیلئے یہاں قلعہ تعمیر کرایا۔ 1994ء میں اسے پشین سے الگ کرکے ضلع کا درجہ دیا گیا۔ 
ضلع خاران قیام پاکستان کے بعد پاکستان میں شامل ہونے والی دوسری بڑی ریاست تھی۔ ریاست کے الحاق کا اعلان خود قائداعظم کے سامنے کیا گیا۔ الحاق سے پہلے پنجگور اس کا دارالحکومت تھا۔ ریاست ختم ہونے سے پنجگور ضلع بن گیا۔ ضلع پنجگور کو تقسیم کرکے ضلع خاران تشکیل پایا۔ 2005ء میں ضلع خاران کو تقسیم کرکے ضلع واشک بنایا گیا۔ ضلع سبی بلوچستان کے پرانے اضلاع میں شمار ہوتا ہے۔ 1970ء میں سبی کی 5 تحصیلوں میں کوہلو، ڈیرہ بگٹی اور ہرنائی بھی شامل تھیں۔ اب یہ تینوں تحصیلیں اضلاع بن چکی ہیں۔ فروری 1974ء میں تحصیل کوہلو اور ڈیرہ بگٹی کو الگ کرکے کوہلو کو ضلع بنایا گیا تو ضلع کوہلو مری قبیلے کا مرکز بن گیا۔ اس کے بعد ضلع ڈیرہ بگٹی بھی الگ تشخص پانے میں کامیاب ہوگیا۔ ڈیرہ بگٹی پر نواب اکبر بگٹی کی مکمل حکمرانی قائم رہی۔ مقامی حکومتوں کے لیے ڈیرہ بگٹی سے ان کے نامزد افراد ہی کامیاب ہوتے رہے۔ تقسیم کا یہ سلسلہ تو بہت دراز ہے اب آگے چلنے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کی ترقی کیلئے وزیراعلیٰ عبدالمالک نے نچلی سطح پر جمہوریت کا جو دروازہ کھولا ہے اس پر سرداروں کو بھی اپنے رویے سے مثبت اشارے دینے چاہئیں۔ نسلوں کی بجائے انسانوں کو اس کے معیار زندگی کے حوالے سے پہچانا جانا چاہیے۔ پشتون اور بلوچی کی تفریق کی وجہ سے عوام کو بنیادی سہولتوں کے حوالے سے ان کا وہ حق نہیں مل رہا جس طرح کا وہ پوری طرح استحقاق رکھتے ہیں۔ 
نسلی تقسیم ہی اس وقت عام آدمی کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، اس وقت بلوچستان کے 9 شمالی اضلاع میں پشتون مقامی آبادی کا حصہ 90 فیصد بتایا جاتا ہے جبکہ 10 جنوبی اضلاع میں بلوچوں کی آبادی 90 فیصد سے ہے۔ کوئٹہ اور سبی جو بڑے بڑے شہر ہیں، یہاں پشتون آبادی کی اکثریت ہے۔ سیاسی جماعتوں نے بلدیاتی انتخابات کے ذریعے جو سنگ میل طے کیا ہے اگلا مرحلہ جس میں سربراہوں کا انتخاب ہونا ہے اس میں سیاسی جماعتوں کا امتحان شروع ہوگا۔ چیئرمین اور میئر کا مرحلہ آنے تک روایتی بندر بانٹ نہ کریں اور یہ عہدے قبائلی سرداروں اور روایتی سیاستدانوں کو دینے کی بجائے عام آدمی کو آگے بڑھائیں تو جمہوریت کا سفر آگے بڑھ سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں