کلایسکی موسیقی کے بعد پاکستانی پاپ میوزک بھی ٹھپ

کلایسکی موسیقی کے بعد پاکستانی  پاپ میوزک بھی ٹھپ

انڈسٹری گزشتہ 10 سال سے زوال پذیر ہے ، وینٹی لیٹر(مصنوعی نظام تنفس ) کے سہارے زندہ رکھنے کی کوششیں کی جارہی ہیں 1995ء کے سروے کے مطابق پاکستان میں ایک کروڑ کیسٹس فروخت ہوا کرتی تھیں جس میں70فیصد بھارتی چوری کامیوزک شامل تھا 2002ء میں بین الاقوامی سافٹ وئیر بنانے والی کمپنیوں نے جنرل مشرف کے حکم پر چوری بند کرائی جس سے انڈسٹری بھی متاثر ہوئی

ابرارالحق سمیت دوسرے گلوکار متبادل شعبوں میں قسمت آزمائی کرنے لگے، مہینوں میوزک کنسرٹ نہیں ہوتے ، معاشی دبائو کاشکار ہیں ریاست ، حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر سے میوزک کو بچانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہورہی،پاکستانی میوزک انڈسٹری کے حوالے سے خصوصی رپورٹ لاہور( طاہر سرورمیر سے)پاکستان کی میوزک انڈسٹری گزشتہ 10 سال سے زوال پذیر ہے اوراس وقت حالت یہ ہے کہ اسے وینٹی لیٹر (مصنوعی نظام تنفس)کے سہارے زندہ رکھنے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔ قابلِ تشویش امر یہ بھی ہے کہ پاکستانی کلچر کی اس نمائندہ صنف کو بچانے کے لئے ریاست، حکومت اورپرائیویٹ سیکٹر سے کو ئی خاطر خواہ کوشش بھی نہیں کی جارہی۔پاکستان میں کلاسیکی اورنیم کلاسیکی موسیقی کو زوال یافتہ ہوئے تو عشرے گزر گئے حیر ت ناک امر یہ ہے کہ پاپ میوزک جو سننے والوں میں بے حد مقبول ہوا کرتا تھا اور اس سٹائل کے میوزک سے وابستہ گلوکار جنہیں ماضی قریب میں سٹار ز اور میگا سٹارز سمجھا جاتاتھا کچھ عرصہ سے گلوکاری کو خیر آباد کہہ کر کوئی دوسرا پیشہ اپنانے سے متعلق سنجیدگی سے سوچ بچار کررہے ہیں۔ ایونٹ مینجمنٹ سے وابستہ آرگنائزز بتاتے ہیں کہ مہینوں گزر جاتے ہیں لیکن کوئی محفل موسیقی یا پاپ میوزک کا پنڈال نہیں سجتا۔کیسٹ انڈسٹری سے وابستہ بعض افراد نے بتایاہے کہ 1995ء کی ایک ریسرچ کے مطابق پاکستان میں ایک کروڑ کے قریب کیسٹس فروخت ہوا کرتی تھیں جس میں70فیصد انڈین میوزک اور 30 فیصد پاکستانی میوزک شامل ہوا کرتاتھا۔پاکستان اور بھارت کے مابین چونکہ کسی قسم کا کاپی رائٹ ایکٹ موجود نہیں ہے اسلئے کروڑوں اور اربوں روپے کاچربہ میوزک حکومت کوکسی قسم کا ٹیکس ادا کئے بغیر فروخت کیا جاتا رہا۔اعداد وشمار کے مطابق 30فیصد پاکستانی میوزک میں ستر فیصد پنجابی لوک اور فلمی میوزک شامل رہتاتھا جبکہ پاپ میوزک ،قوالی اوردیگر اصناف کا میوزک 30فیصد تھا۔پاکستانی میوزک انڈسٹری کے کالے دھندے کی اس مارکیٹ پر زوال کی مہر اس وقت ثبت ہوئی جب جنرل مشرف کے دور میں آئی ٹی سافٹ وئیر بنانے والے کارپوریٹس نے شکایت کی کہ پاکستان میں بیٹھے ’’چور‘‘ انکا بیش قیمت سافٹ وئیر کوڑیوں میں فروخت کررہے ہیں۔2002میں چربہ سازی کے خلاف آپریشن کلین اپ کیاگیا جس کے باعث غیر قانونی میوزک دھندے میں ملوث کمپنیاں زیر زمین چلی گئیں،اس آپریشن سے وہ میوزک میکر بھی معاشی طور پر بدحال ہوگئے جو پاکستانی میوزک پروڈیوس کررہے تھے۔پاکستانی میوزک انڈسٹری سے وابستہ افراد کی بدحالی کے تابوت میں آخری کیل سوشل میڈیا نیٹ نے ٹھونکا جس نے میوزک سننے کے لئے کیسٹ اور سی ڈی کی محتاجی ختم کردی۔ ایک اندازے کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں میں کسی بڑے سٹار کی آڈیو کیسٹ اورسی ڈی ریلیز نہیں کی گئی ۔اس سے قبل پاپ سنگرز کی سی ڈی ریلیز کرنے کے لئے ریکارڈنگ کمپنیوں اورمیوزک چینلز کے درمیان مقابلے کی فضاء قائم تھی اورپاپ سٹارز کی کیسٹیں اورسی ڈیز 50سے 80لاکھ روپے میں بھی خریدی جاتی تھیں۔ میوزک انڈسٹری کی بدحالی کا اندازہ اس امر سے لگایاجاسکتا ہے کہ اس سے وابستہ سنگرز متبادل شعبوں سے وابستہ ہورہے ہیں،گلوکار ابرارالحق ایک عرصہ سے سیاسی میدان میں بھی سٹار بننے کیلئے کوشاں ہیں مگر یہاں ان کی دال تاحال نہیں گل رہی اور اس نئے گرائونڈمیں وہ ابھی بارہوئیں کھلاڑی ہی سمجھے جارہے ہیں۔ایسے ہی جیسے میوزک کے شعبہ میں گلوکار نمایاں ہوتا ہے اورکورس میں کئی ایک ’’زیرتعمیرگلوکار‘‘صرف ہنگورے بھر رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح گلوکار علی حیدر ، جواد احمد، فاخر ، حدیقہ کیانی، شہزاد رائے بھی سنجیدگی سے گلوکاری کے علاوہ کوئی دوسرا سائیڈ بزنس کرنا چاہ رہے ہیں۔گلوکار جواد احمد نے کہاکہ میوزک انڈسٹری کا برا حال ہے اورفنکار سوچ رہے ہیں کہ کوئی متبادل ذریعہ آمدنی ہونا چاہیے ۔جوا د نے کہاکہ میوزک انڈسٹری کی بدحالی میں بہت سی وجوہات کا عمل دخل ہے ،ایک عرصہ سے انڈیا کی مارکیٹ میں بھی سولو آڈیواوروڈیو میوزک نہیں آرہے اسکی ایک وجہ تو سوشل میڈیا ہے مگر وہاں فلم کامیوزک اتنا بڑا ہے کہ دنیا کو لگتا ہے کہ بھارتی میوزک زوال پذیر نہیں ہے۔انہوں نے کہاکہ دنیا بدل گئی ہے انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے رجحانات اور تقاضے بھی بدل گئے ہیں اورہم سب اس سے متاثر ہورہے ہیں۔گلوکار رفاقت علی خاں نے کہا کہ ایک عرصہ سے پاکستانی میوزک میکرز کے پاس سٹار بنانے کی اتھارٹی نہیں رہی ، پاکستان میں صرف وہی گلوکار پیسہ کماتا ہے جسے بالی وڈ مارکیٹ پرموٹ کرتی ہے۔انہوں نے کہاکہ پاکستانی میڈیا کے لئے یہ ایک سوال ہے کہ اسکے پاس یہ اتھارٹی کب آئے گی کہ گلوکاروں کا حفظ مراتب طے کرے ؟ایک عرصہ سے صرف وہ سنگرز ہی معاشی طور پر آسودہ ہیں جنہیں بھارتی میڈیا پروموٹ کررہا ہے ان میں پہلے نمبر پر راحت فتح علی خاں کانام آتا جبکہ دیگر فنکاروں میں عاطف اسلم، شفقت امانت اورعلی ظفر شامل ہیں۔پاکستان کی میوزک انڈسٹری بالکل سکڑ چکی ہے ۔ایک عرصہ سے قومی زبان میں فلمیں بھی نہیں بن رہیں، میوزک ڈائریکٹرز صرف مختلف ٹی وی ڈراموں کے تھیم سونگ بنا کر گزارا کر رہے ہیں۔ریاستی ٹی وی اگرچہ روایتی طور پر میوزک پروڈیوس کررہاہے مگر اس کا دائرہ کار ہمیشہ کی طرح محدود ہے۔ فنکاروں نے پرائیویٹ ٹی وی چینلز سے اپیل کی ہے کہ وہ پاکستانی میوزک کوبچانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں اورصرف نیوز انڈسٹری کو فلم انڈسٹری کا درجہ نہ دیں۔پرائیویٹ سیکٹر کو پاکستانی میوزک کے لئے سلاٹ (وقت) اور ایسی پروگرامنگ کرنا چاہیے جس سے میوزک زندہ رہ سکے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں