جناب نواز شریف اور جناب عمران خان کے حامیوں میں اور کسی بات پر اتفاق ہو یا نہ ہو‘ اس ایک نکتے پر وہ سو فیصد متفق ہیں کہ پاکستان اپنی تاریخ کے انتہائی مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ سیاست کی کوئی کل سیدھی ہے نہ معیشت کی۔ آبادی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے‘ وسائل میں مطلوب اضافہ نظر نہیں آ رہا‘ قرضوں کا بوجھ اتارنے کے لیے مزید قرضے لیے جا رہے ہیں۔ 1971ء میں پاکستان دو لخت ہوا تو مشرقی پاکستان آبادی کے لحاظ سے برتری رکھتا تھا۔ جنرل یحییٰ خان کے دور میں جس قومی اسمبلی کے انتخابات کرائے گئے‘ اس میں آبادی کی بنیاد پر تمام صوبوں کو نمائندگی دی گئی تھی۔ مشرقی پاکستان کی نشستیں 165تھیں تو مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کے نمائندوں کی تعداد 135تھی۔ اگر ایسا آئین بنا لیا جاتا جس میں وفاقی حکومت کے پاس زیادہ اختیارات ہوتے تو مشرقی پاکستان کی حکومت مغربی پاکستان (کے چاروں صوبوں) پر قائم ہو جاتی۔ ایسی صورت میں صوبائی خود مختاری کا نعرہ مغربی پاکستان سے بلند ہوتا لیکن شیخ مجیب الرحمن اور ان کے ہم نوا حالات کو سلجھانا نہیں اُلجھانا چاہتے تھے‘ اس لیے انہوں نے اس موقع سے فائدہ نہ اٹھایا اور پاکستان کو ایسی دلدل کی طرف دھکیل دیا گیا جس سے نکلنا ممکن نہیں تھا۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا‘ اب اس ''واردات‘‘ کو پچاس برس سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے لیکن ہمارے مشرقی بھائیوں کو چین نصیب نہیں ہوا۔ دستور تو ان کی نئی مملکت نے فٹا فٹ بنا لیا لیکن اس کی جو درگت بنی وہ سب کے سامنے ہے۔ بنگلہ دیش کے بانی کہلانے والے شیخ مجیب الرحمن کی حکومت فوجی بغاوت نے اس طرح ختم کی کہ انہیں اپنے خاندان سمیت گولیوں کا نشانہ بنا ڈالا۔ ان کی دو بیٹیاں‘ جو بیرونِ ملک تھیں‘ وہی زندہ رہ سکیں۔ ان میں سے ایک نے بعدازاں واپس پہنچ کر ان کی جانشینی کا حق ادا کیا۔ عوامی لیگ کی سربراہی ان کے سپرد ہوئی اور انہیں طویل اقتدار کا لطف اٹھانے کا موقع بھی مل گیا۔ گزشتہ مہینے ''عوامی بغاوت‘‘ کے ذریعے ان کا تختہ اُلٹ ڈالا گیا۔ وہ بیرونِ ملک بھاگ گئیں‘ ان کے خون کے پیاسے انہیں واپس لانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ ان کے ہاتھ نہیں آ رہیں۔ اگر وہ فرار نہ ہوتیں تو ان کا حشر بھی اپنے والد سے کچھ مختلف نہ ہوتا۔ مشتعل ہجوم ان کے خون کا پیاسا نظر آ رہا تھا۔ اس نے وزیراعظم ہاؤس میں توڑ پھوڑ کر کے‘ اور شیخ صاحب کے مجسموں کو ریزہ ریزہ کر کے اپنے غصے کو ٹھنڈا کر لیا۔ شیخ مجیب الرحمن کے بعد برسر اقتدار آنے والے جنرل ضیا الرحمن نے اگرچہ بنگلہ دیش کا رُخ بدل دیا تھا‘ ایک نئی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نے عوامی جذبات کی ترجمانی سنبھال لی تھی لیکن رخصت انہیں بھی ایک فوجی بغاوت ہی کے ذریعے کیا گیا۔ گولی کا نشانہ بنا کر اقتدار سے تو کیا دنیا ہی سے رخصت کر دیا گیا۔
شیخ حسینہ نے وزیراعظم بن کر اپنی حریفِ اول بیگم خالدہ ضیا الرحمن کو حوالۂ زنداں کیا۔ جماعت اسلامی اور مسلم لیگ کے کئی رہنماؤں کو 1971ء کے فرضی واقعات کو بنیاد بنا کر پھانسی چڑھا دیا گیا۔ ہزاروں سپردِ زنداں کیے گئے‘ اور سینکڑوں غائب کر دیے گئے۔ شیخ حسینہ کے طویل دورِ حکومت میں ترقی کا بہت ڈھنڈورا پیٹا گیا لیکن نوجوانوں کی بغاوت ان کو لے ڈوبی۔ اعلیٰ عدالتوں کے کئی جج بھی اپنے عہدوں سے الگ کر ڈالے گئے۔ اب ڈاکٹر محمد یونس کی قیادت میں بننے والی عبوری حکومت مستقبل کی نقشہ گری میں مصروف ہے۔ گویا بنگلہ دیش جن نعروں اور دعووں کی بنیاد پر بنایا گیا‘ وہ سب کھوکھلے ثابت ہوئے۔ جمہوریت کی مالا جپنے کے باوجود انتقالِ اقتدار کا کوئی مستقل نظام قائم نہیں کیا جا سکا۔
ہمارے (سابقہ) مشرقی بازو کے ساتھ جو کچھ ہوا سو ہوا‘ مغربی پاکستان میں بھی اقتدار کا کھیل کسی قاعدے اور ضابطے کے مطابق نہیں کھیلا جا سکا۔ 1973ء کا آئین تو اتفاقِ رائے سے بن گیا لیکن اسے بار بار معطل کرکے جرنیلوں نے اقتدار سنبھالا‘ یہاں کے سیاستدان ایک دوسرے سے برسرِ پیکار رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے عہد میں انتخابی دھاندلی نے عوامی جذبات کو مشتعل کیا تو ان کے خلاف بننے والا نو جماعتی اتحاد ان سے ٹکرا گیا۔ نتیجتاً مارشل لا کا مزہ چکھنا پڑا۔ جنرل ضیا الحق کا طیارہ حادثے کا شکار ہوا تو معاملات پھر سیاستدانوں کے ہاتھ میں آئے‘ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف دو بڑے حریف ایک دوسرے کے مقابل تھے۔ دونوں نے ایک دوسرے کے اقتدار کو ختم کرنے کے لیے بازیاں لگائی تھیں‘ یہاں تک کہ جنرل پرویز مشرف نے شب خون مارا اور اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ آئین معطل ہوا‘ نواز شریف حوالۂ زنداں ہوئے‘ بے نظیر بھٹو کے ہاتھ بھی خالی ہو گئے۔ دونوں کو طویل عرصہ ملک سے باہر گزارنا پڑا‘ دونوں نے بالآخر ''میثاقِ جمہوریت‘‘ پر دستخط کیے‘ ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کا عہد کیا اور واپسی کا راستہ ہموار کر لیا۔ جنرل پرویز مشرف کو ایوانِ صدر خالی کرنا پڑا‘ انہوں نے دو بار آئین معطل کیا تھا‘ ایک بار تو بچ نکلے کہ عدلیہ نے ان کے اقدام پر مہر توثیق ثبت کر دی لیکن دوسری بار جب انہوں نے ججوں کے ساتھ وہ سلوک کرنا چاہا جو اس سے پہلے نواز شریف اور ان کے رفقا کے ساتھ کر چکے تھے‘ تو لینے کے دینے پڑ گئے۔ بے نظیر بھٹو کو لیاقت باغ راولپنڈی میں دہشت گردوں نے نشانہ بنایا‘ وہ دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت آصف علی زرداری کے ہاتھ آ گئی۔ نواز شریف 2013ء میں دوبارہ وزیراعظم بنے تو اب انہیں ایک نئی سیاسی جماعت کا سامنا تھا۔ کرکٹ کے میدان میں پاکستان کو عالمی طاقت بنانے والے عمران خان اپنی تحریک انصاف کے ساتھ ان کے مقابل تھے۔ عمران خان نے مقتدر حلقوں کے ساتھ مل کر نواز شریف کا تختہ اُلٹ ڈالا‘ ان کے اقتدار کی راہ ہموار ہوئی‘ وہ وزیراعظم ہاؤس جا پہنچے لیکن مدت پوری نہ کر سکے۔ انہیں تخت پر بٹھانے والوں ہی نے ان کا دھڑن تختہ کر دیا۔ اب عمران خان جیل میں ہیں‘ نوازشریف مسلم لیگ کی قیادت سنبھالے ہوئے ہیں‘ شہباز شریف وزیراعظم بن چکے ہیں لیکن حالات نازک سے نازک تر بتائے جا رہے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف ایک دوسرے کو زچ کرنے کا عالمی ریکارڈ قائم کر چکی ہیں۔ دہشت گردی کا عفریت پھر سر اُٹھا چکا ہے۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ ایک بین الصوبائی شاہراہ پر سفر کرنے والے 23پنجابی مسافروں کو گولی کا نشانہ بنا کر دہشت گردوں نے قومی وحدت کو پارا پارا کرنے کی کوشش کی ہے‘ اس پر ہر پاکستانی مضطرب ہے۔ پنجاب میں جذبات کو مشتعل کرنے والے بھی حرکت میں آ رہے ہیں لیکن مقامِ شکر یہ ہے کہ اہلِ پنجاب کی بڑی تعداد وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کی اس بات سے متفق ہے کہ کسی بلوچ نے کسی پنجابی کو نشانہ نہیں بنایا‘ دہشت گردوں نے پاکستانیوں کو ہلاک کیا ہے۔
پاکستانی قوم اپنے رہنماؤں‘ اپنے نمائندوں کی طرف دیکھ رہی ہے۔ ان میں سے ہر ایک مشکل ترین حالات کی گردان کررہا ہے لیکن ایک دوسرے کے ساتھ مل کر مشکلات کو کم کرنے کی تدبیر نہیں کر رہا۔ ایک دوسرے کو بربادی کا ذمہ دار قرار دینے والے‘ ایک دوسرے کے گلے کو ماپنے والے یہ کیوں نہیں سمجھ رہے کہ وہ ایک ہی کشتی کے مسافر ہیں۔ کشتی میں سوراخ ہو گا تو سب ڈوب جائیں گے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)