بلوچستان کے حالات پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ایک امریکی کرنل Ralph Peterنے 2006ء میں امریکی ڈیفنس جرنل‘ جو دنیا کا سب سے بڑا دفاعی میگزین مانا جاتا ہے‘ میں ''Blood borders‘‘ کے عنوان سے خطے کا ایک نیا نقشہ پیش کیا تھا جس میں بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ دکھایا گیا تھا اور یہی استعماری قوتوں کا اصل ایجنڈا ہے‘ جس کی تکمیل کیلئے سفاک دہشت گرد‘ تخریب کار اور علیحدگی پسند عناصر اپنی پے در پے گھناؤنی وارداتوں سے بلوچستان کو دہشت گردی کی آگ میں جلا رہے ہیں۔ دشمن کی ان سازشوں سے نمٹنے کیلئے جمعرات کے روز اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں اعلیٰ عسکری و سول قیادت نے بلوچستان سے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے کا مصمم ارادہ کیا۔ بلاشبہ یہ افواجِ پاکستان کا عزمِ صمیم ہے کہ وہ مادرِ وطن کیلئے روزانہ جانوں کے نذرانے پیش کر رہی ہیں۔
گزشتہ دنوں امریکی سی آئی اے کی اہم سابق رکن اور Intelligence analyst سارا ایڈمز کایہ انکشاف منظر عام پر آیا تھا کہ ہم نے پشتونستان اور علیحدہ بلوچستان بنانے کیلئے فنڈنگ کی‘ جس کی ابھی تک وائٹ ہاؤس نے تردید نہیں کی۔ میری معلومات کے مطابق افغانستان سے انخلا کے بعد طالبان کو امریکہ سے 18.5ارب ڈالر ملے۔ احمد شاہ مسعود کے بیٹے کے مطابق اب بھی ہر ماہ بذریعہ جہاز 67ملین ڈالر افغانستان آرہے ہیں‘اگر یہ رقم پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو رہی ہوتی تو ہمیں اس فنڈنگ سے کوئی غرض نہ ہوتی ۔ یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ بلوچستان کو Battle Groundبنا دیا گیا ہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی بلوچستان میں تخریب کاری کو سپانسر کر رہی ہے۔ بلوچستان نیشنل فرنٹ (BNF) کے پلیٹ فارم سے کوہستان سے چترال تک علیحدہ ریاست کا مطالبہ ''را‘‘ کے تنخواہ دار ایجنٹوں کی طرف سے کیا جاتا ہے۔ بلوچستان میں را نے بی ایل اے کے ساتھ مل کر بلوچ نیشنل ازم کو ہوا دی۔ آزاد بلوچستان کیلئے بلوچ لبریشن آرمی‘ بلوچ لبریشن فرنٹ‘ بلوچ لبریشن آرگنائزیشن اور لشکرِ بلوچستان سر گرم ہیں۔ بلوچستان کے پانچ اضلاع سبی‘ خضدار‘ تربت‘ کوئٹہ اور ڈیرہ بگٹی ان تنظیموں کی قتل و غارت سے شدید متاثر ہیں۔ ان اضلاع میں قومیت کے نام پر ٹارگٹ کلنگ‘ ٹرینوں پر فائز نگ‘ دھماکے‘ ریلوے ٹریک اڑانے اور سوئی گیس کی پائپ لائن اڑانے سمیت دیگر تخریبی کارروائیوں میں بلوچ لبریشن آرمی ملوث ہے۔ اطلاعات ہیں کہ کابل میں ٹی ٹی پی کے تین کیمپ اور جلال آباد میں بی ایل اے کے دو تربیتی کیمپ ہیں جو را اور طالبان کی سر پرستی میں چل رہے ہیں۔ ان کیمپوں میں بی ایل اے کے چار سو سے زائد دہشت گرد ٹریننگ لے رہے ہیں جو اپنے بیرونی آقاؤں کے کہنے پر پاکستان میں چینی شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں‘ ان کے پاس جدید اسلحہ اور مواصلاتی نظام ہے۔ اگر کلبھوشن یادیو کو بروقت سزا مل گئی ہوتی تو را کے سلیپنگ سیل پاکستان میں کام نہ کر رہے ہوتے۔ کچھ عرصہ قبل یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ بلوچستان میں ایرانی تیل کی سمگلنگ سے حاصل ہونے والی آمدنی میں سے کالعدم تنظیمیں بھی حصہ وصول کرتی ہیں۔ تیل کی سمگلنگ میں بلوچ لبریشن آرمی‘ بلوچ لبریشن فرنٹ سمیت متعدد کالعدم بلوچ مسلح تنظیمیں براہِ راست ملوث ہیں۔ بی ایل اے کراچی میں بھی گینگ وار میں ملوث رہی ہے۔ بی ایل اے نے بھارت کی شہ پر پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کا آغاز کیا تھا‘ ان کارروائیوں کے بدلے را کی جانب سے دہشت گردوں کو اسلحہ‘ گولہ بارود اور مالی معاونت فراہم کی جاتی ہے۔ بلوچ لبریشن فرنٹ کا بنیادی مقصد پیسہ کمانا ہے جو اس گروپ کو پیسے دیتا ہے‘ اس کے مقاصد کی تکمیل کیلئے یہ گروپ کام کرتا ہے۔
بلوچستان میں دہشت گردی کے نیٹ ورک کو ایندھن فراہم کرنے کیلئے تعلیمی اداروں میں بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کو استعمال کیا جارہا ہے۔ 2018ء میں بلوچ لبریشن آرمی‘ بلوچ ری پبلکن آرمی‘ بلوچستان لبریشن فرنٹ‘ بلوچ ری پبلکن گارڈز نے براس (بلوچ راجی اجوئی سانگر) کے نام سے ایک اتحاد قائم کیا تھا۔ اب بعض علاقوں میں بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچ لبریشن فرنٹ مشترکہ طور پر کام کر رہی ہیں۔ بلوچ ری پبلکن گارڈز بی ایل اے اور بی ایل ایف کے اتحاد کا حصہ بن چکی ہیں۔ بلوچستان میں 14دہشت گرد تنظیموں کے 46 کیمپ قائم ہیں۔ یہ دہشت گرد تنظیمیں پنجابی‘ ہزارہ ‘ سندھی اور بلوچیوں کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ چند ماہ قبل بلوچستان میں کالعدم دہشت گرد تنظیم بلوچ نیشنلسٹ آرمی کے سربراہ گلزار امام شنبے کی گرفتاری ہماری خفیہ ایجنسیوں کا کارنامہ اور ان کے پروفیشنل ازم کا منہ بولتا ثبوت ہے جبکہ 70فراریوں کا ہتھیار چھوڑ کر قومی دھارے میں شمولیت کا اعلان اس ضمن میں ایک بڑی پیش رفت ہے۔
کالعدم بی این اے سالہا سال سے بلوچستان میں غیرمقامی باشندوں کی ٹارگٹ کلنگ‘ زیارت میں قائداعظم ریذیڈنسی سمیت دیگر سرکاری اور نجی عمارتوں کی توڑ پھوڑ جیسی کارروائیوں میں ملوث رہی ہے۔ ان مذموم سر گرمیوں کیلئے بی این اے‘ بی ایل اے اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کو بھارتی سرپرستی کے علاوہ بھاری فنڈنگ بھی میسر ہے۔ بلوچستان کے مسنگ پرسنز میں شامل بہت سے افراد دہشت گرد گروہوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ ایک مسنگ پرسن بالاچ مولا بخش‘ جس سے 500گرام دھماکا خیز مواد برآمد ہوا تھا‘ سکیورٹی فورسز پر ہوئے 11حملوں میں ملوث ہونے کے ساتھ ساتھ اس نے تربت میں مزدوروں کے قتل کا بھی اعتراف کیا تھا۔ ان دہشت گردوں کے ہاتھوں تین ہزار سے زائد بلوچ جاں بحق ہو چکے ہیں۔ بلوچ خواتین بھی ان علیحدگی پسند تنظیموں کے ظلم کا شکار ہو چکی ہیں۔ افواجِ پاکستان کو بدنام کر نے کیلئے یہ دہشت گرد تنظیمیں اپنے بلوچ مخالفین کو قتل کرکے اس کا الزام سکیورٹی فورسز پر لگا دیتی ہیں۔ پاکستان میں بلوچ علیحدگی پسندوں کی کئی معروف ویب سائٹس پی ٹی اے کی جانب سے بلاک کی جا چکی ہیں جن میں بلوچ وارنا اور بلوچ وائس سرفہرست ہیں۔ دہشت گرد گروہ پڑھے لکھے نوجوانوں کو ورغلا نے کے عوض بھارت سے بھاری معاوضہ لے رہے ہیں۔ 2018ء میں بی ایل اے نے مجید بریگیڈ کے نام سے اپنا خودکش دستہ قائم کیا اور چینیوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ مجید بریگیڈ رواں برس کی پہلی سہ ماہی میں 40 بلوچ نوجوانوں کو مروا چکا ہے۔ ان تنظیموں نے شاندار بلوچ روایات کو پامال کرتے ہوئے پڑھی لکھی خواتین کو بھی دہشت گردی میں استعمال کرنا شروع کر دیا ہے‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تنظیمیں کسی بھی زوایہ سے بلوچ نہیں۔ اپریل 2022ء میں 30 سالہ شری بلوچ نے کراچی یونیورسٹی کے کنفیوشس سینٹر کے باہر خود کو دھماکے سے اُڑا لیا جس سے تین چینی انسٹرکٹرز سمیت چار افراد جاں بحق ہوئے۔ جون 2023 ء میں خاتون خودکش بمبار سمیہ قلندرانی بلوچ نے تربت میں افواجِ پاکستان کے قافلے کو نشانہ بنایا۔25 سالہ سمیہ بی ایل اے کے میڈیا ونگ کیلئے کام کر رہی تھی۔ کریمہ محراب بلوچ 2020ء میں کینیڈا میں پُراسرار طور پر مردہ پائی گئی ۔ وہ بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد (BSOA) کی پہلی خاتون چیئرپرسن تھی اور انڈین پے رول پر کام کر رہی تھی۔ بلوچوں کے حقوق کا ڈھنڈورا پیٹنے والی ماہ رنگ بلوچ کے والد عبدالغفار لانگو کا بی ایل اے‘ بی ایس ایف اور بی ایس او جیسی دہشت گرد تنظیموں سے تعلق رہا جن کو اقوام متحدہ نے بھی دہشت گرد قرار دے رکھا ہے۔ ماہ رنگ بلوچ کی یکجہتی کمیٹی کریمہ بلوچ کی کینیڈا میں ہلاکت کے بعد ہی بنائی گئی تھی۔ اسی طرح سمی دین ڈاکٹر دین محمد کی بیٹی ہے‘ جو ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ جیسے مسلمہ دہشت گرد کا ساتھی تھا اور جسے اقوام متحدہ نے بھی دہشت گرد ڈکلیئر کر رکھا ہے۔ بلوچستان میں کام کرنے والی ان شدت پسند تنظیموں کا پاکستان کے خلاف بھارت کے ساتھ گٹھ جوڑ واضح ہو چکا ہے۔ مگر ہماری سکیورٹی فورسز دشمن کے شیطانی منصوبوں کے سامنے سیسہ پلائی کی دیوار بن کے کھڑی ہیں!