بینکنگ سیکٹر میں اصلاحات کب ہونگی ?

بینکنگ سیکٹر میں اصلاحات کب ہونگی ?

اسٹیٹ بینک نے مانیٹری پالیسی میں 25 بنیادی پوائنٹس کا اضافہ کیا ہے ،اس کو موجودہ حالات میں غلط فیصلہ تو نہیں کہا جا سکتا مگر اس سے کوئی مقصد بھی حاصل نہیں ہو گا اور یہ غیر موثر ثابت ہو گا

(ڈاکٹرشاہد حسن صدیقی) اسٹیٹ بینک نے مانیٹری پالیسی میں 25 بنیادی پوائنٹس کا اضافہ کیا ہے ،اس کو موجودہ حالات میں غلط فیصلہ تو نہیں کہا جا سکتا مگر اس سے کوئی مقصد بھی حاصل نہیں ہو گا اور یہ غیر موثر ثابت ہو گا۔چند دن پہلے سٹیٹ بینک کی جو رپورٹ آئی تھی ،اس میں انہوں نے یہی کہا تھا کہ جب تک ہمارے مالیاتی و بیرونی شعبے میں ڈھانچہ جاتی اصلاحات نہیں کی جاتیں، اس وقت تک معیشت میں پائیدار بہتری نہیں آسکتی ۔ مانیٹری پالیسی خلا میں نہیں ہوا کرتی ۔سٹیٹ بینک کی جو دوسری پالیسیاں ہیں ،وہ مانیٹری پالیسی سے ہم آہنگ نہیں ہیں ۔اسی طرح حکومت کی مالیاتی پالیسیاں بھی سٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی سے ہم آہنگ نہیں۔سٹیٹ بینک کوبینکنگ سیکٹر میں جو مکمل ترین اختیارات حاصل ہیں ان سے بھی وہ مقاصد حاصل نہیں ہوتے جو مانیٹری پالیسی سے ہورہے ہیں ۔ اصل میں ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت پہلے ہی مہنگائی بڑھ رہی تھی،بجٹ خسارہ بھی بڑھ رہا تھا ،جس کی ایک وجہ یہ تھی کہ حکومت نے بے تحاشا قرضے لئے ہیں ،خاص طور پر ملکی کرنسی میں،اب اس پر شرح سود بڑھانے سے سود کی مد میں جورقم ادا کرنی پڑے گی ،اس میں اضافہ ہو گا ۔جس سے حکومت کا بجٹ خسارہ مزید بڑھ جائے گا اور جو قرضے بینکوں سے مل رہے ہیں ،اس میں تھوڑاساا ضافہ ہو گا تاہم ایک چھوٹی سی اچھی خبر یہ ہے کہ بینکوں سے جو منافع مل رہا ہے یا قومی بچت سکیمیں ہیں ،اس میں کچھ فائدہ ہو گا لیکن وہ قطعی ناکافی اس لئے ہوگا کیونکہ پاکستان میں اس وقت 12 ہزار ارب روپے بینکوں میں جمع ہیں ۔پاکستان میں کرنٹ اکائونٹ کے جتنے بھی اکائو نٹس ہیں، وہ نفع و نقصان کی بنیاد پر کھولے جاتے ہیں ۔سٹیٹ بینک اور بینکنگ کمپنی آرڈ یننس میں اس بات کی گارنٹی ہے کہ بینک منافع میں اپنے کھاتہ داروں کو شامل کرینگے لیکن بینکوں نے شریک کرنا بند کر دیا ہے اور اس میں سٹیٹ بینک ان کے ساتھ تعاون کررہا ہے ،جس سے آئین و قانون کی خلاف ورزی ہو رہی ہے ۔جس وقت بینکوں کا کل منافع 7ارب روپے تھا، اس وقت 7فیصد کے حساب سے دیتے تھے ، اب 314ارب روپے ہو گیا ہے اور وہ بچت کھاتوں پر 3.75فیصد دے رہے ہیں ۔اندازہ یہ ہے کہ 2002 سے اب تک کھاتہ داروں کو ایک ہزار 4سو ارب روپے کم ملے ہیں۔سوال یہ ہے کہ سٹیٹ بینک اگر یہ چیز درست نہیں کرتا تو پھر بچتوں کی شرح نہیں بڑھے گی ۔ادھرسی پیک کے باوجود بیرونی سرمایہ کاری نہیں آرہی ۔ٹیکسوں کی وصولی بھی نہیں ہورہی تو ایسے میں اس اقدام سے کیا مقاصد حاصل کر سکیں گے ،نظر نہیں آرہا ۔سٹیٹ بینک کو چاہیے کہ بینکنگ سیکٹر میں اصلاحات کرے اور حکومت کے ساتھ جو ان کی مانیٹرنگ کی میٹنگ ہوتی ہے ،اس میں مانیٹری اور مالیاتی پالیسی کو ہم آہنگ کرے ۔ ٹیکسوں اور بینکنگ سیکٹر میں بہتری لائیں ورنہ اس سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہوگا ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں