کشمیر :اب عالمی قوتیں بھی حرکت میں نظر آ رہی ہیں
اسلامی ملکوں کے جھگڑے ہمیں مساجد اور امام بارگاہوں تک ہرگز نہیں لانے چاہئیں سعودی عرب، یو اے ای،ایران نے بے شمار مواقع پر ہماری معاشی اور سفارتی مدد کی
تجزیہ: سلمان غنی جدوجہد آزادی کشمیر کے بزرگ رہنما سید علی گیلانی نے مسلم امہ اور پاکستان کے عوام کو مسئلہ کشمیر کا فریق قرار دیتے ہوئے انہیں فوری طور پر کشمیریوں کی مدد کو آنے کی اپیل کی ہے اور کہا ہے کہ بھارت کو کشمیری عوام سے کوئی غرض نہیں وہ کشمیر کی سر زمین چاہتا ہے ۔ پر عزم ، غیر متزلزل اور جرأت مندانہ جدوجہد کے حامل علی گیلانی کی پوری زندگی جدوجہد سے عبارت ہے ۔ بھارت کی جانب سے ظلم و جبر کے ہتھکنڈے اختیار کرنے کے باوجود سید علی گیلانی کو نہ کوئی دبا سکا نہ اپنے مؤقف سے ہلا سکا اور نہ ہی انہیں جھکایا جا سکا۔ سید علی گیلانی کی جانب سے مسلم امہ اور پاکستان کو مدد کیلئے آنے کی اپیل دراصل ان کیلئے چیلنج اور مسلم امہ کیلئے لمحہ فکریہ ہے اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس صورتحال میں امہ کا فرض کیا ہے اور مسئلہ کے بنیادی فریق اور وکیل کے طور پر پاکستان نے جدوجہد آزادی کشمیر میں سرگرم کشمیری عوام کی مدد کیسے کرنی ہے ۔ سید علی گیلانی نے بھی عالمی میڈیا کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کشمیریوں کی حالت زار کو اجاگر کر رہا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ کشمیر پر بھارتی قبضہ اور لاکھوں کی تعداد میں افواج کی موجودگی، کشمیریوں پر ہونے والے ظلم و تشدد، انسانی حقوق کے حوالے سے بھارتی کردار اور خصوصاً نریندر مودی کے طرز عمل کو جس طرح عالمی میڈیا دنیا کے سامنے لایا ہے ، کہا جا سکتا ہے کہ کشمیر میں روا رکھی جانے والی غیر انسانی صورتحال میں عالمی میڈیا نے فریق کا کردار ادا کیا اور دنیا کی کشمیر میں برپا ہونے والی قیامت صغریٰ پر آنکھیں کھولیں اور اب عالمی قوتیں بھی حرکت میں نظر آ رہی ہیں اور کشمیر کی صورتحال پر اپنے عوام کے سامنے سرخرو ہونے کی کوشش کر رہی ہیں ۔ملکی خارجہ پالیسی کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں مایوس ہونے کے بجائے اپنی ترجیحات کی بنیاد درست کرنا ہونگی۔ خارجہ پالیسی اور دوسرے ممالک سے تعلقات ، جذبات کی رو میں بہہ کر نہیں بلکہ حقیقت پسندانہ انداز میں ترتیب دینے ہوتے ہیں۔ پاکستان کی داخلی سیاست میں سرگرم سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو بھی اپنا بیانیہ اور مؤقف اپناتے ہوئے سنی عالم اسلام اور شیعہ عالم اسلام کو ذہن و دل سے نکالنا ہوگا۔ برادر اسلامی ملکوں کے جھگڑے ہمیں اپنی مساجد اور امام بارگاہوں تک ہرگز ہرگز نہیں لانے چاہئیں۔ ہمارا اول و آخر تعارف مملکتِ خداداد پاکستان رہنا چاہئے ۔ سعودی عرب، یو اے ای اور ایران نے بے شمار مواقع پر ہماری معاشی اور سفارتی مدد کی ہے ۔ بھارت سے یو اے ای کے سفارتی، تجارتی اور ثقافتی تعلقات ہیں۔ پورا عرب امارات ہندوستانی پروفیشنلز اور سفیروں سے بھرا ہوا ہے تو اس میں ہمارے لیے کیا سبق ہے کہ یو اے ای سے منہ موڑ لیں؟ ہرگز نہیں ہمیں بھی اپنے تعلقات اسی انداز سے آگے بڑھانے چاہئیں۔ عربوں کے معاشرے میں پاکستانی عام شہریوں کو پاکستان کا سفیر بننے سے کس نے روکا ہے ؟ کیا آج پاکستان کی وہ سیاسی قیادتیں کٹہرے میں کھڑی ہونگی جو سندھ کابینہ کے اجلاس بھی متحدہ عرب امارات میں کرتے تھے ۔؟ یا جو ایوانِ اقتدار میں بیٹھ کر بھی عرب امارات کے اقامے اپنی جیبوں میں ٹھونسے ہوئے تھے ؟ دوسرا پہلو ہے عسکری تعاون کا۔ کیا پاکستان نے یمن کے تنازع پر کھل کر خلیجی ممالک کا ساتھ دیا؟ اب اگر ساتھ نہیں دیا، متوازن رویہ رکھا تو پھر متحدہ عرب امارات کوحق حاصل ہے کہ کشمیر پر وہ بھی متوازن موقف رکھے ۔ ہمیں یہ نظریہ اس وقت سمجھ آئیگا جب ہم اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ عالم عرب آئیڈیلزم کی بجائے رئیس ازم کی بنیاد پر آگے جا رہا ہے ۔بہر حال کشمیر میں جاری صورتحال کو عالم اسلام اگر مذہب کی عینک سے نہیں دیکھتا تو کم از کم انہیں انسانی حقوق کے نقطئہ نظر سے دیکھنا چاہئے ۔ اس وقت مودی کو اعزاز دینا کشمیر میں مظلوم لوگوں کے زخموں پر مزید نمک پاشی بھی ہے اور تاریخ کی غلط سمت میں کھڑا ہو نا بھی ہے ۔ پاکستان بھی مسئلہ فلسطین کے معاملہ پر براہِ راست فریق نہیں ہے بلکہ پاکستان کی پوزیشن تاریخ کے چوراہے پر درست سمت میں کھڑا ہونا ہے ۔ مسئلہ فلسطین پر بلواسطہ پاکستان نے عربوں کے ساتھ مل کر جنگ بھی لڑی ہے ۔ اب چونکہ عالم عرب خود فلسطین سے منہ موڑ چکا ہے تو پھر کشمیر بھی ان کیلئے ترجیح نہیں رہا۔ یہ ساری صورتحال بتا رہی ہے کہ عالم اسلام دردِ دل رکھنے والی بڑی قیادتوں سے محروم ہے ۔ اب بھارت جوں جوں انسانی حقوق کی پامالی کرے گا ویسے ہی کشمیریوں کی ترجمانی مغرب میں بڑھتی جائیگی۔ سیاسی جدوجہد کرنے والے کشمیری اس حقیقت کو مت بھولیں کہ ان کی مزاحمت کی تحریک معلومات کے تیز رفتار دور میں سرحدوں سے بالاتر ہو چکی ہے اور عالم انسانیت ان کے خود ارادیت کے حق میں بیدار ہو چکا ہے اور اگر کشمیری اس طرح دادِ شجاعت دیتے رہے تو پھر آزادی کی تحریک اپنی منزل سے ہمکنار ہوگی۔