آئی ایم ایف کو معاشی اہداف پر رپورٹ پیش، قومی مالیاتی معاہدے پر آج مذاکرات

آئی ایم ایف کو معاشی اہداف پر رپورٹ پیش، قومی مالیاتی معاہدے پر آج مذاکرات

اسلام آباد(مدثرعلی رانا)نیتھن پورٹر کی قیادت میں آئی ایم ایف کا وفد 5 روزہ مذاکرات کیلئے پاکستان پہنچ گیا، تعارفی سیشن میں وزیرمملکت برائے خزانہ علی پرویز ملک، چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال، سٹیٹ بینک کے حکام سے ملاقات کی اور معاشی اہداف پر رپورٹ جمع کرائی گئی۔

تعارفی سیشن میں ریونیو شارٹ فال، منی بجٹ پر بھی بات چیت کی گئی۔ نیشنل فسکل پیکٹ(قومی مالیاتی معاہدہ) پرآج مذاکرات دوبارہ ہوں گے ، شیڈول کے مطابق خیبرپختونخوا کیساتھ مذکرات 14 اور 15 نومبر کوکئے جائینگے ،صوبوں کیساتھ آئی ایم ایف کا یہ طے پایا تھا کہ 30 اکتوبر تک تمام صوبے زرعی آمدن پر ٹیکس لگانے کیلئے قانون سازی مکمل کریں گے مگر شرط پرعملدرآمد نہیں ہوسکا۔ ذرائع وزارت خزانہ کے مطابق آئی ایم ایف کیساتھ مذاکرات کا آغاز ہو گیا ہے ، وزیرمملکت برائے خزانہ نے رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران معاشی اہداف ، ایف بی آر کے محصولات کے اہداف بارے آگاہ کیا ، آئی ایم ایف وفد رپورٹ کا جائزہ لیکر آج متعلقہ وزارتوں سے مذاکرات کرے گا ۔ چیئرمین ایف بی آر کی سربراہی میں ٹیم کی آئی ایم ایف کو بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ جولائی سے اکتوبر کے دوران ایف بی آر کو192 ارب روپے ریونیو کا شارٹ فال رہا ، جولائی سے ستمبر تک 2652 ارب روپے ٹیکس جمع کیا گیا اور جولائی سے اکتوبر 3440 ارب روپے ٹیکس جمع کیا گیا، جولائی سے اکتوبر تک ٹیکس ٹارگٹ 3632 ارب روپے تھا۔ وفد کو ریونیو شارٹ فال پورا کرنے کیلئے پلان شیئر کردیاگیاہے جبکہ ایف بی آر انفورسمنٹ آرڈیننس پر بھی بریف کیا گیا، ریونیو محصولات پر دوبارہ مذاکرت ہونگے ۔

ذرائع کی جانب سے بتایا گیا کہ ایف بی آر میں ٹرانسفارمیشن پلان، ٹریک اینڈ ٹریس، ریٹیلرزسکیم پر عملدرآمد کے حوالے سے آئی ایم ایف متفق نہیں ۔ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران تاجر دوست سکیم میں رجسٹرڈ تاجروں سے 12 ارب روپے سے زائد اکٹھے کرنا تھے لیکن ایف بی آر یہ ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہا ۔ آئی ایم ایف وفد کو ایف بی آر میں ٹرانسفارمیشن پلان پر اقدامات بارے بھی آگاہ کیا گیا۔ قومی مالیاتی معاہدہ کے تحت آئی ایم ایف کیساتھ انتہائی اہم شرط پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔ صوبوں کیساتھ آئی ایم ایف کا یہ طے پایا تھا کہ 30 اکتوبر تک تمام صوبے زرعی آمدن پر ٹیکس لگانے کیلئے قانون سازی مکمل کریں گے جبکہ صوبے اسمبلی سے یہ قانون سازی کرانے اور آئی ایم ایف کی شرط پوری کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے ۔ باوثوق ذرائع بتاتے ہیں کہ پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا کے صوبائی حکام کیساتھ آئی ایم ایف وفد مذاکرات کرے گا ، خیبرپختونخوا کیساتھ مذکرات 14 اور 15 نومبر کو ہوں گے ، سندھ اور بلوچستان تاحال زرعی آمدن پر ٹیکس عائد کرنے کیلئے قانون سازی نہیں کر سکے ۔

ذرائع کا کہنا ہے سیاسی صورتحال پر بھی بات چیت کا امکان ہے ۔ آئی ایم ایف کہہ چکا ہے کہ پاکستان کے اندرونی معاملات پر بات چیت آئی ایم ایف مینڈیٹ میں شامل نہیں لیکن یہ بھی بتایا گیا کہ سیاسی صورتحال پر بات چیت ہو سکتی ہے ۔ صوبوں میں زرعی آمدن پر ٹیکس 5 فیصد سے 45 فیصد تک عائد کیا جائے گا، آئی ایم وفد 11 سے 15 نومبر تک مذاکرات میں صوبائی حکومتوں کے زرعی اشیا کی امدادی قیمتیں مقرر نہ کرنے کے اقدامات کا بھی جائزہ لے گا۔ آئی ایم ایف وفد وزیرخزانہ محمداورنگزیب سے بھی ملاقات کرے گا، جو مذاکرات ہو رہے یہ انتہائی اہم نوعیت کے ہیں کیونکہ دوسری قسط کیلئے مذاکرات کے وقت اس رپورٹ میں شامل اہداف اور معاشی صورتحال کا جائزہ لیکر قرض کے اجرا کا فیصلہ کیاجائیگا ۔ وفد سے منی بجٹ پر بھی بات چیت ہوئی جس پر آئندہ دنوں دوبارہ مذاکرات ہونگے ۔ فنانشل سیکٹر پر بھی رپورٹ جمع ہو چکی ہے جس پر آج مذاکرات شیڈول ہیں ، گریڈ 17 سے 22 تک افسروں کے اثاثے پبلک کرنے کے اقدامات کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔

اسلام آباد (ذیشان یوسفزئی) عالمی مالیاتی ادارے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف)کے ایل این جی کی درآمد پر شدید اعتراضات سامنے آگئے ۔ ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف حکام نے دورے سے قبل ایل این جی سیکٹر کے متعلقہ حکام سے حکومتی خریداری کے کردار پر رپورٹ طلب کی تھی اور مطالبہ کیا تھا کہ ایل این جی کی خریداری نجی شعبے کے ذریعے کرائی جائے ، رپورٹ میں بتایا گیا حکومتی سطح پر لانگ ٹرم ایگریمنٹ کے تحت PSO اور PLL ایل این جی درآمد کرتا ہے ۔ ایگریمنٹ ختم ہونے کے بعد آئی ایم ایف کے اس مطالبے پرعملدرآمد کویقینی بنایاجائے گا۔ پاورسیکٹر پربریفنگ کیلئے ورکنگ مکمل کر لی گئی، ایل این جی کی درآمد پر سرکاری ملکیتی اداروں کی اجارہ داری ختم کرنے ،نجی شعبے کے ذریعے خریداری اور پاور سیکٹر سرکلر ڈیٹ مینجمنٹ پلان بارے آگاہ کیاجائیگا۔ پاکستان لانگ ٹرم ایگریمنٹ کے تحت 10 کارگوز قطر سے منگواتا ہے ۔

ذرائع نے مزید بتایا آئی ایم ایف حکام کا مطالبہ ہے حکومت کو ایل این جی کے کاروبار سے نکل کر اسے نجی شعبے کے حوالے کرنا ہوگا تاکہ مقابلے کی فضا کو قائم کیا جاسکے ۔ اس وقت پاکستان حکومتی سطح پر ماہانہ دس کارگوز ایل این جی معاہدوں کے تحت منگواتا ہے جس میں 9 کارگوز پی ایس او اور ایک پی ایل ایل درآمد کرتا ہے ۔ پاکستان ماہانہ ایک ارب کیوبک فٹ تک ایل این جی درآمد کرتا ہے ۔ پی ایس او کے کارگوز پاور سیکٹر اور گیس کمپنیوں کو فراہم کیے جاتے ہیں۔ گیس کمپنیاں یہی ایل این جی پائپ کے ذریعے صارفین کو بیچتی ہیں جبکہ پی ایل ایل کے کارگو سے درآمدی گیس کے الیکٹرک کو مہیا کی جاتی ہے ۔ ایل این جی درآمد کرنے کیلئے حکومتی ادارے قرض لیتے ہیں جس پر سود ادا کرنا پڑتا ہے ۔ ایس این جی پی ایل نے مالی سال 2025 کی ریکوائرمنٹ میں 150 ارب روپے ایل این جی کی مد میں مانگے ہیں جن پر 32 ارب روپے کا سود بھی آئے گا۔ آئی ایم ایف کو اس بات پر شدید اعتراضات ہیں ۔

ذرائع پٹرولیم ڈویژن نے بتایا حکومت قطر سے معاہدے کے تحت ایل این جی لیتی ہے جو اس مرتبہ دسمبر اور جنوری میں سرپلس میں ہوگی لیکن معاہدے کے تحت حکومت اس کو آگے نہیں بیچ سکتی۔ آئی ایم ایف کو پاور سیکٹر پر بھی بریف کیا جائے گا جس میں سرکلر ڈیٹ مینجمنٹ پلان پر بات چیت کی جائے گی۔ آئی ایم ایف حکام کو تقسیم کار کمپنیوں کے نقصانات ، بجلی چوری ، لائن لاسز اور نجکاری پر بریف کیاجائے گا۔ ذرائع پاور ڈویژن کے مطابق بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری کا عمل 2026 میں شروع ہوگا ، نجکاری کے لیے حکومت کنسلٹنٹس کی خدمات لے چکی ہے ۔ آئی ایم ایف کو بجلی کی قیمتوں میں بروقت اضافے پر بھی بریف کیا جائے گا۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں