میری جنریشن سے تعلق رکھنے والا شاید ہی کوئی شخص ایسا ہو جو اپنے بچپن اور لڑکپن میں محمد علی سے محبت کا دعویدار نہ ہو۔ بچپن اور لڑکپن تو رہا ایک طرف‘ اب تو اس فقیر کی جوانی رخصت ہوئے بھی برسوں گزر چکے ہیں اور محمد علی کو اپنے اللہ کے حضور پیش ہوئے بھی آٹھ سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے مگر وہ میرے دل میں اب بھی اسی طرح جاگزین ہے جیسے میرے بچپن میں تھا۔ محمد علی میرا سدا بہار ہیرو ہے۔
یہ محمد علی سے محبت تھی جس نے مجھے باکسنگ کا دیوانہ بنایا۔ بلکہ مجھے کیا‘ میری ساری جنریشن کو محمد علی نے باکسنگ سے متعارف کرایا اور تب پاکستان میں باکسنگ کی ساری مقبولیت صرف اور صرف محمد علی کے طفیل تھی اور محمد علی کی مقبولیت اس کے قبولِ اسلام کی وجہ سے تھی‘ وگرنہ باکسنگ اور باکسر تو روئے ارض پر ایک عرصہ سے موجود تھے مگر انہیں اس خطے میں جانتا ہی کون تھا۔ بھلا محمد علی سے پہلے کسی نے عظیم باکسر جو لوئیس کا نام سنا تھا؟ ''براؤن بمبار‘‘ کی عرفیت سے شہرت رکھنے والا جو لوئیس‘ جس کا 1937ء سے 1949ء تک مسلسل 12سال ورلڈ ہیوی ویٹ چیمپئن رہنے کا ریکارڈ آج بھی دنیا بھر کے باکسر حسرت سے دیکھتے ہیں۔ لیکن تب اسے بھی پاکستان میں کون جانتا تھا؟ 174فتوحات سمیٹنے والے شوگررے روبنسن کا لگاتار 85باکسنگ مقابلوں میں ناقابلِ شکست رہنے اور 69 مقابلے ناک آؤٹ کی بنیاد پر جیتنے کے باوجود اسے ادھر کون جانتا تھا؟ وہ دنیا کا پہلا باکسر تھا جو پاؤنڈ فار پاؤنڈ (وزن کی بنیاد پر ہونے والا تقابلی جائزے) کے حوالے سے دنیا کا سب سے عظیم باکسر جانا جاتا ہے مگر پاکستان میں کون تھا جو اس کے نام سے بھی آشنا ہو؟ یہ صرف محمد علی تھا جس نے اس خطے میں باکسنگ سے محبت کا دِیا روشن کیا۔ وہ دِیا اس کی باکسنگ سے ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی بجھ گیا۔ لیکن بعض دلوں میں تو ایسا روشن ہوا کہ آج بھی فروزاں ہے۔ اس عاجز کا دل انہی دلوں میں سے ایک ہے۔
محمد علی کی محبت میں مَیں نے باکسنگ کھیلنی شروع کر دی۔ صبح منہ اندھیرے فجر کی نماز کے بعد ملتان سٹی ریلوے سٹیشن سے ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ ممتاز آباد کے ریلوے سٹیشن تک دوڑ لگاتا۔ گھر آکر سائیکل اٹھاتا اور قلعہ کہنہ قاسم باغ پر مزار حضرت بہاء الدین زکریا کے سامنے ایک راستہ نیچے جاتا تھا جہاں ملتان کا واحد باکسنگ رِنگ تھا‘ وہاں زردوزی کا کام کرنے والا استاد اقبال جیسا بے لوث اور پُرخلوص شخص لڑکوں کی تربیت میں بلامعاوضہ اور کسی ستائش سے بے پروا صبح صبح آ جاتا تھا۔ وہیں پر ایک باکسر منیر تھا جو تب ہینڈ پمپ لگانے کا کام کیا کرتا تھا۔ منیر باکسنگ کی خداداد صلاحیتوں سے مالا مال تھا۔ چھوٹے قد کے باوجود ایسا شاندار فٹ ورک کہ رِنگ میں تتلی کی طرح اڑتے ہوئے محمد علی کی کاپی لگتا تھا۔ جسم میں ایسی لچک اور پھرتی کہ مخالف باکسروں کے بیشتر مکے اسے چھو بھی نہ سکتے اور محض ہوا میں لہرا کر رہ جاتے۔ اگر اچھا کوچ اور تربیت مل جاتی تو کم از کم بھی ایشین لیول پر اپنا اور ملک کا نام روشن کر سکتا تھا۔ پنجاب باکسنگ چیمپئن شپ کیلئے ہم لوگ لاہور آ گئے تو ایبٹ روڈ پر دنیا نیوز کے دفتر کے سامنے والی گلی کے اندر جانکی دیوی ہسپتال کے ساتھ سپورٹس ہاسٹل تھا‘ جس میں تین دن گزارے۔ برے حالوں میں گزارے ہوئے وہ دن دوستوں کی ہمراہی نے ایسے شاندار بنا دیے کر آج بھی یادوں کے دریچے کھولوں تو خوشگوار ہوا کا جھونکا آتا ہے۔ جھلنگا چار پائیاں‘ نہ دری‘ نہ چادر اور نہ تکیہ۔ شدید گرمی میں ایک پنکھا‘ چھوٹی سی کھڑکی اور ایک کمرے میں چار لوگ۔ ساری رات جاگ کر گزرتی‘ دن سونے کی کوشش میں اور سہ پہر ریلوے سٹیڈیم میں گزر جاتی۔ محمد علی کے طفیل باکسنگ سے محبت کے وہ بھی کیا دن تھے!
اوائلِ عمری کی محبت تا عمر چلتی ہے۔ یہ اسی کا اثر ہے کہ یہ عاجز اب تک باکسنگ کی محبت سے اپنا پیچھا نہیں چھڑا سکا۔ لیکن اب بھی درمیان میں محمد علی ضرور کہیں نہ کہیں آ جاتا ہے جیسے میری مائیک ٹائسن سے محبت میں بھی درمیانی رشتہ محمد علی ہے۔ 20سال کی عمر میں دنیا کے کم عمر ترین ہیوی ویٹ چیمپئن بننے کا اعزاز رکھنے والے مائیک ٹائسن کا باکسنگ کیریئر اتار چڑھاؤ کا ایسا نادر نمونہ ہے کہ باکسنگ کی تاریخ نے ایسا شاید ہی کبھی دیکھا ہو۔ صرف ایک سال 1986ء میں 13پروفیشنل مقابلوں میں فتح حاصل کرکے ایک کیلنڈر سال میں فتوحات کا جو ریکارڈ قائم کیا وہ توڑنا ناممکن ہے۔ ان 13میں سے 11مقابلے ناک آؤٹ کی بنیاد پر جیتے جن میں ایک مقابلے میں اس نے شہرہ آفاق باکسر جو فریزیئر کے بیٹے ماروس فریزیئر کو صرف 20 سیکنڈ میں ناک آؤٹ کیا۔قارئین! آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آخر مجھے محمد علی سے محبت کے دوران اچانک مائیک ٹائسن کیوں یاد آ گیا اور اس کا اس ساری کہانی سے کیا واسطہ ہے؟ تو اس کی صرف ایک ہی وجہ ہے کہ ہم دونوں کا ہیرو محمد علی ہے۔ دو اکتوبر 1980ء کو جس وقت میں ٹی وی کے سامنے بیٹھا محمد علی اور لیری ہومز کے مقابلے کے دوران اپنے آنسو پونچھ رہا تھا عین اسی وقت 14سالہ مائیک ٹائسن اپنے گھر سے 30میل دور جا کر ایک کلوز سرکٹ سکرین پر یہ مقابلہ دیکھ رہا تھا اور اس دوران اپنے ہیرو کی بے بسی پر رو رہا تھا۔ دسویں راؤنڈ میں جب محمد علی کے منیجر اور ٹرینر اینجلو ڈنڈی نے تولیہ پھینک کر مقابلہ ختم کرنے کی درخواست کی تو میں ٹی وی کے سامنے سے اٹھ کر باتھ روم چلا گیا تاکہ وہاں چھپ کر رو سکوں اور اپنا منہ دھو سکوں۔
مائیک ٹائسن بتاتا ہے کہ جب ہم (ٹائسن اورٹرینر کس ڈی اماٹو ) واپس آ رہے تھے تو 30میل کے راستے میں کسی شخص نے بھی بات نہیں کی۔ ہم گھر پہنچے‘ اپنے بستروں پر چلے گئے‘ حتیٰ کہ سو گئے‘ مگر کسی نے ایک لفظ بھی نہیں بولا۔ اگلی صبح میں اٹھا تو کس ڈی اوماٹو فون پر علی سے بات کر رہا تھا۔ میں نے سنا وہ کہہ رہا تھا کہ علی وہ (لیری ہومز) ایک مفت خورہ ہے‘ تم نے اسے خود کو پیٹنے کی اجازت کیسے دی؟ کس ڈی نے فون میرے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ میں نے علی کو فون پر کہا کہ جب میں بڑا ہو جاؤں گا میں اس سے تمہارا بدلہ لوں گا‘ میں اسے تمہاری خاطر ناک آؤٹ کروں گا۔ علی نے مجھ سے کہا کہ وہ عظیم ترین مکے باز ہے اور وہ لیری ہومز سے دوبارہ مقابلہ کرے گا اور اسے شکست دے گا۔ میرا ہیرو مجھے تسلی دیتے ہوئے خوش کرنے کی کوشش کر رہا تھا مگر اس نے مجھے مزید دکھی اور اداس کردیا۔
مائیک ٹائسن نے اپنا وعدہ پورا کیا‘ جب اس نے آٹھ سال بعد اٹلانٹک سٹی کے ٹرمپ پلازہ میں لیری ہومز کو بدترین شکست سے دوچار کیا‘ محمد علی یہ مقابلہ دیکھنے کیلئے ایرینا میں موجود تھا۔ فائٹ شروع ہونے سے چند سیکنڈ قبل سیاہ سوٹ میں ملبوس پارکنسن میں مبتلا محمد علی رِنگ میں داخل ہوا اور مائیک ٹائسن کے کان میں سرگوشی کی: Get him for me (اسے میری خاطر رگڑ کر رکھ دو)۔ 22 سالہ مائیک ٹائسن نے سابق ورلڈ چیمپئن 38 سالہ لیری ہومز کو‘ جو گزشتہ 50 پروفیشنل مقابلوں میں سے 48 میں فتوحات کا ریکارڈ رکھتا تھا‘ چوتھے راؤنڈ تک مار مار کر بھرکس نکال دیا۔ اسے دوبار فرش کی راہ دکھائی اور چوتھے راؤنڈ میں اسے جب تیسری بار رِنگ کے فلور پر لٹایا تو ریفری نے لیری ہومز کی حالت دیکھتے ہوئے مقابلہ ختم کردیا۔
قارئین! آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ ہزار خامیوں اور خرابیوں کے باوجود آئرن مائیک کے نام سے شہرت رکھنے والے مائیک ٹائسن‘ جس کو اس کی رِنگ سے باہر والی حرکتوں کے باعث ایک زمانے میں The baddest man of the planet یعنی روئے ارض کا برا ترین شخص کہا جاتا تھا‘ مجھے کیوں اچھا لگتا ہے۔ یہ محبت بڑی عجیب چیز ہے۔ اشفاق احمد نے کیا خوب کہا تھا کہ ''محبوب وہ ہوتا ہے جس کی بری بات بھی اچھی لگے‘‘۔ محبت میں محبوب سے محبت کرنے والا کبھی رقیب بن جاتا ہے اور کبھی خود محبوب ٹھہرتا ہے۔ محبت کے سو رنگ ہوتے ہیں۔