سیاسی ٹرائل میں من پسند نتائج کیلئے غیر شفاف طریقے آزمائے جاتے ہیں:جسٹس منصور علی شاہ
اسلام آباد(نمائندہ دنیا، نیوز ایجنسیاں )سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سزا کے خلاف صدارتی ریفرنس کے فیصلے کے 5 ماہ بعد اضافی نوٹ جاری کردیا ۔
اس میں انہوں نے کہا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کا ٹرائل سیاسی ٹرائل کی کلاسیک مثال ہے ۔سیاسی ٹرائل میں من پسند نتائج کیلئے غیر شفاف طریقے آزمائے جاتے ہیں ۔ عوام کا ایگزیکٹو جیل میں ہے ، اسمبلیاں ایسے خاموش ہیں جیسے قبرستان، کیا ایک پھول ایسے باغ میں پروان چڑھ سکتا ہے جو صحرا میں تبدیل ہو چکا ہو؟۔جسٹس منصور علی شاہ نے نوٹ میں کہا کہ ذوالفقارعلی بھٹو کیس میں تفتیش کی منظوری غیر قانونی طور پر دی گئی۔اضافی نوٹ میں کہا گیا کہ سیاسی ٹرائل میں عموماََ سابق اتحادیوں کے ہی بیانات لے کر گواہ بنایا جاتا ہے ۔نوٹ میں کہا ہے کہ بھٹو نے خود کہا تھا آئین کی چھتری تلے ہی عدلیہ آزاد رہ سکتی ہے اور کہا تھا صحرا میں پھول نہیں کھل سکتے ۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آمرانہ دور میں ججوں کو یاد رکھنا چاہیے ان کی اصل طاقت عہدے پر فائز رہنا نہیں آزادی کو قائم رکھنا ہے ، جسٹس دوراب پٹیل نے بھٹو کیس میں جرات مندی سے اختلاف کیا۔دوراب پٹیل نے ضیا کے جاری کردہ عبوری آئین کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کیا۔جسٹس منصور علی شاہ نے نوٹ میں کہا کہ سمجھوتہ کر لینے کی میراث چھوڑنے کے بجائے عہدہ کھودینا ایک چھوٹی سی قربانی ہے ، جج کی بہادری کا اندازہ بیرونی دباؤ کا مقابلہ کرنے ، مداخلت کے خلاف ثابت قدم رہنے سے لگایا جا سکتا ہے ۔
جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ آمرانہ مداخلتوں کا مقابلہ کرنے میں تاخیر قانون کی حکمرانی کے لیے مہلک ثابت ہو سکتی ہے ، دراندازیوں کی فوری مزاحمت اور اصلاح کی جانی چاہیے اور عدلیہ کا کردار انصاف کا دفاع کرنا ہے ۔آمرانہ حکومتیں سیاسی مخالفین کیخلاف سیاسی ٹرائل کا استعمال کرتی ہیں جن کا مقصد اقتدار پر قبضے کو قانونی حیثیت دینا اور مستحکم کرنا ہوتا ہے ۔انہوں نے لکھا کہ یہ ٹرائل تحقیقات کے دوران ملزموں کے سابق ساتھیوں سے حاصل کیے گئے بیانات اور شواہد پر انحصار کرتے ہیں۔ ملزم کے ساتھیوں کو ملزم کیخلاف ثبوت فراہم کرنے کیلئے مجبور کیا جاتا ہے ۔جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا ہے کہ سیاسی ٹرائل آمرانہ حکومتوں کے لیے ایک طاقتور عدالتی ہتھیار کا کام کرتے ہیں، مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے ان ٹرائلز میں انصاف کے تقاضوں کی خلاف ورزی کی جاتی ہے ۔انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کے مقدمے کو سیاسی ٹرائل کی بہترین مثال قرار دیتے ہوئے مزید لکھا کہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے طریقہ کار اور انصاف کے تقاضوں کی متعدد خلاف ورزیاں کی گئیں ۔ذوالفقار علی بھٹو کے نوٹ کا حوالہ بھی دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آزاد عدلیہ مارشل لا کی مخالف ہے ، آزاد عدلیہ صرف آئین کی چھتری کے نیچے کام کر سکتی ہے ، بندوق کے سائے میں نہیں۔