مدارس بل:ترمیم ہوئی تو فیصلہ ایوان نہیں میدان میں ہوگا:فضل الرحمٰن
اسلام آباد(سٹاف رپورٹر، نامہ نگار،دنیانیوز) قومی اسمبلی میں مدارس بل پر حکومت اور جے یو آئی آمنے سامنے آگئیں،مولانا فضل الرحمن نے کہا مدارس بل قانون بن چکا، صدر کے اعتراض پر سپیکر نے قلمی غلطی قرار دے کر تصحیح کی،صدر پھر اعتراض نہیں کر سکتے۔
دوبارہ منظوری آئین کی خلاف ورزی ہوگی،ترمیم ہوئی تو فیصلہ ایوان میں نہیں میدان میں ہوگا، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا بل کے قانون بننے کیلئے دوبارہ منظوری یا صدرکے دستخط ضروری ہیں۔سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمٰن نے نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے کہا 26 ویں آئینی ترمیم اتفاق رائے سے پاس ہوئی تھی، کوشش یہ ہے کہ تمام معاملات افہام و تفہیم سے حل ہوں، سیاست میں مذاکرات ہوتے ہیں، دونوں فریق ایک دوسرے کو سمجھاتے ہیں۔ یہ راز تو آج کھلا ہے کہ ہماری قانون سازی آئی ایم ایف کی مرضی سے ہو رہی ہے ، ایوان کی عوامی نمائندگی پر ہمیں تحفظات ضرور ہیں لیکن ساتھ ساتھ پارلیمانی ذمہ داریاں بھی یہ ایوان نبھار ہا ہے ، ہم بھی اسی ایوان کا حصہ ہیں۔ بل میں پہلی بات کہ جن کی رجسٹریشن ہو چکی ہے وہ برقرار رکھی جائے گی، دوسری بات مدارس کے بینک اکاؤنٹس کھول دیئے جائیں گے ، تیسری بات غیرملکی طلبا کو مدارس میں تعلیم کے لیے 9 سال کا ویزا دیا جائے گا۔ معاہدے کے مطابق وزیر قانون نے مسودہ تیار کیا اور ایوان میں لایا گیا، اتفاق کے باوجود قانون سازی کے وقت بل میں تبدیلیاں کی گئیں، 21 اکتوبر کو بل منظور ہوا، 28 کو صدر نے اعتراض کیا، سپیکر اور قومی اسمبلی نے اصلاح کر کے بل واپس صدر کو بھیج دیا تھا۔صدر نے بل پر دوبارہ کوئی اعتراض نہیں کیا، دوسرے اعتراض کا حق بھی نہیں، تمام تنظیمات مدارس کا متفقہ مؤقف ہے کہ ایکٹ بن چکا ہے۔
سپیکر ایاز صادق نے انٹرویو میں کہا کہ ان کے مطابق یہ ایکٹ بن چکا ہے ، ایکٹ بن چکا تو گزٹ نوٹیفکیشن کیوں نہیں ہو رہا، اس بل کو دوبارہ لاکر ترمیم کرنا غلط نظیر ہو گی، صدر کا دوسرا اعتراض آئینی لحاظ سے ٹھیک نہیں، اب تاویلیں نہیں چلیں گی۔وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہاکہ وزیراعظم شہباز شریف کا پیغام ہے ، ہم ہرچیز کیلئے حاضر ہیں، صدر کے پاس دوبارہ بل پر اعتراض کا حق نہیں ہوتا، کوئی بھی قانون سازی تب تک مکمل نہیں ہوتی، جب تک صدر دستخط نہیں کرتے ، آرٹیکل 75 کہتا ہے کہ صدر 10 روز کے اندر رضا دیتا ہے یا پھر مجلس شوریٰ کو واپس بھیجتے ہیں،جب صدر بل واپس کرتا ہے تو آئین کے مطابق بل کو مشترکہ اجلاس میں رکھا جاتا ہے ، مشترکہ اجلاس بل ترامیم کے ساتھ یا ترامیم کے بغیر پاس ہوجاتا ہے ، صدر مملکت اس ایوان کا حصہ ہیں جب 28 اکتوبر کو صدر کا پیغام سپیکر آفس کو موصول ہوا تو وہ مشترکہ اجلاس میں آجانا چاہئے تھاجب مشترکہ اجلاس بل پاس کردے تو پھر وہ واپس صدر کو ارسال ہو جاتا ہے ،28 اکتوبر کا پیغام مشترکہ اجلاس میں نہیں آسکا،وزیر اعظم کا پیغام ہے ہم حاضر ہیں ہم ہر وقت میسر ہیں۔وزیر قانون نے مزید کہا وفاقی حکومت اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہے ، امن و امان کیلئے وفاق صوبوں کومکمل معاونت فراہم کرنے کیلئے پُرعزم ہے ۔ کرم کے مسئلے پر خیبر پختونخوا حکومت کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے ، گورنرنے وفاق کے نمائندے کی حیثیت سے وہاں جرگہ کیا۔ خوشی ہوتی اگر وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا بھی اقدامات کرتے ، یقین دلاتا ہوں وفاقی حکومت اس معاملے کو دیکھ رہی ہے اور وزیر داخلہ کو ہدایات ہیں کہ وہ اس پر نظر رکھیں۔