کیا تمام سویلین کا اے پی ایس کے مجرموں کی طرح فوجی ٹرائل کیاجاسکتاہے؟:جج آئینی بینچ
اسلام آباد(کورٹ رپورٹر)سپریم کورٹ کا آئینی بینچ سویلین کے فوجی ٹرائل سے متعلق فیصلے کیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت آج بھی کریگا،جسٹس مسرت ہلالی نے کہا ہے کہ سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل اے پی ایس جیسے مجرموں کیلئے تھا۔
کیا تمام سویلین کے ساتھ وہی برتاؤ کیا جاسکتا ہے جیسے اے پی ایس سانحہ میں کیا گیا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا روزانہ فوجی جوان جانیں قربان کررہے ہیں، شہدا کا احساس ہے مگر ان شہدا کے مقدمات فوجی عدالتوں میں کیوں نہیں چلتے ،پارلیمنٹ چاہے تو کل قانون بنا دے ترچھی آنکھ سے دیکھنا جرم ہے ،کہا جاتا ہے پارلیمنٹ سپریم ہے میرے خیال میں آئین سپریم ہے ،آئینی بینچ نے سزا یافتہ قیدیوں کی نقل و حرکت کی آزادی پر پنجاب حکومت سے رپورٹ طلب کرلی۔جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کی، وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے کہا عدالتی فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 8 کی ذیلی شق 3 اور 5 کی غلط تشریح کی گئی، ایف بی علی کیس میں طے ہوچکا کہ سویلین کا فوجی عدالت میں ٹرائل ہوسکتا ہے ، دونوں ذیلی شقیں یکسر مختلف ہیں انہیں یکجا نہیں کیا جاسکتا، غلط تشریح کی بنیاد پر کہہ دیا گیا کہ ایف بی علی کیس الگ نوعیت کا تھا، ایف بی علی پر ریٹائرمنٹ کے بعد ٹرائل چلایا گیا تھا جب وہ سویلین تھے ، فیصلے میں کہا گیا جرم سرزد ہوتے وقت ریٹائر نہیں تھے اس لئے کیس الگ ہے ۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ دیکھتے ہیں اس پر ہم آپ سے اتفاق کرتے ہیں یا نہ کریں، موجودہ کیس میں 9 مئی والے ملزمان تو آرمڈ فورسز سے تعلق نہیں رکھتے ، آج کل ایک اصطلاح ایکس سروس مین کی بھی ہے ، یہ لوگ تو ایکس سروس مین بھی نہیں تھے ۔
چلیں ہم صرف شہری کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں، سوال یہ ہے سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کس حد تک ہوسکتا ہے ؟جسٹس مسرت ہلالی نے کہا سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل اے پی ایس جیسے مجرموں کیلئے تھا، کیا تمام سویلینز سے وہی برتاؤ کیا جاسکتا ہے جیسے اے پی ایس سانحہ میں کیا گیا؟، پاکستان کا آئین معطل نہیں ہے ۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ یہ بتائیں ملٹری کورٹس سے متعلق بین الاقوامی پریکٹس کیا ہے ؟۔ خواجہ حارث نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر میں مثالیں پیش کروں گا،جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا اگر کوئی محض ایک سوچ رکھتا ہو کیا اس کے خلاف کیس ملٹری کورٹس میں چلے گا؟ کون سے کیسز آرٹیکل 8 کی ذیلی شق 3 کے تحت فوجی عدالتوں میں چلیں گے ؟جسٹس نعیم اختر افغان کا وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث سے مکالمہ ہوا، جسٹس نعیم نے کہا کہ خواجہ صاحب لگتا ہے آپ کی تیاری مکمل نہیں، 5 رکنی بینچ نے آرمی ایکٹ کی کچھ دفعات کالعدم کی ہیں، اگر ہم بھی کالعدم رکھیں پھر تو سویلین کا فوجی ٹرائل ہو ہی نہیں سکتا، اگر ہم کسی اور نتیجے پر پہنچے تو طے کرنا ہوگا کون سے سویلین کا فوجی ٹرائل ہوسکتا ہے ؟ اب آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترمیم بھی ہوچکی، اس کی روشنی میں بتائیں، کل جسٹس جمال مندوخیل نے فوجی چوکی کی مثال دے کر سوال اسی لئے پوچھا تھا۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہ قانون بنانا بلاشبہ پارلیمنٹ کا اختیار ہے کہ کیا کیا چیز جرم ہے ؟، پارلیمنٹ چاہے تو کل قانون بنا دے ترچھی آنکھ سے دیکھنا جرم ہے۔
اس جرم کا ٹرائل کہاں ہوگا وہ عدالت قائم کرنا بھی پارلیمنٹ کی آئینی ذمہ داری ہے ، آئین پاکستان پارلیمنٹ کو یہ اختیار اور ذمہ داری دیتا ہے ، کہا جاتا ہے پارلیمنٹ سپریم ہے ، میرے خیال میں آئین سپریم ہے ۔جسٹس محمد علی مظہر نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے استفسار کیا کہ ملٹری کورٹس کیس بتائیں جیل میں رکھے گئے ملزموں کو جیل مینوئل کے تحت سہولیات دی جا رہی ہیں؟ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے جواب دیا کہ لاہور کی جیل میں 27 ملزم لائے گئے تھے ، 2 ملزموں کو رہا کر دیا گیا تھا، جیل مینوئل کے تحت گزشتہ دس دنوں میں دو دفعہ ملاقاتیں کرائی گئیں،ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے کہا ملزموں کو گھر کا کھانا فراہم کرنے کی بھی اجازت ہے ، ملاقاتیں بھی ہو رہی ہیں اور گھر کا کھانا بھی فراہم کیا جا رہا ہے ۔جسٹس محمد علی مظہر نے حفیظ اللہ نیازی سے مکالمہ کیا کہ نیازی صاحب آپ تو کہہ رہے تھے ان ملزموں کو ابتر حالات میں رکھا جا رہا ہے ، حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ ان ملزموں کو قید تنہائی میں رکھا جا رہا ہے ، ملزموں کو اپنے سیل سے باہر نہیں نکالا جا رہا۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہر قیدی کو الگ الگ کمرہ دیا جائے ؟ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میں نے بطور وکیلِ 14 دن قید جیل کاٹی ہے ، صبح فجر کی نماز کے بعد سیل سے باہر نکال دیا جاتا ہے ، قیدی چاہے تو دھوپ لگوائے یامختص کردہ احاطے میں گھومے پھرے ۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے مسکراتے ہوئے کہا جمال مندوخیل صاحب آپ کو وکیل کے طور پر رعایت ملی ہو گی۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے کہا میں بینچ کے ایک رکن جسٹس شاہد بلال حسن کیساتھ بہاولپور جیل میں رہ چکا ہوں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ یہاں اب پرانے راز نہ کھولیں، جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دئیے کہ ہم روزانہ کی بنیاد پر اس معاملے کو دیکھیں گے ، اگر جیل میں کسی کو بھجوانا پڑا تو بھجوائیں گے ۔حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ وکلا کیساتھ ملاقات کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی، صرف ماں، باپ اور بیوی سے ملاقات کرائی جا رہی ہے ۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ میں جب پشاور ہائیکورٹ میں چیف جسٹس تھی تو باقاعدگی سے جیلوں کا دورہ کرتی تھی، عام طور پر ملٹری کورٹس سے سزا یافتہ ملزموں کے قریب نہیں جانے دیا جاتا، میں ان ملزموں کے قریب ہائی سکیورٹی حصار میں گئی۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا قید تنہائی میں رکھنا بہت بڑی سزا ہے ، اگر دو دن کسی کمرے میں بند کر دیا جائے تو انسان نہیں رہ سکتا، جیلوں میں دہشتگردوں اور قتل کے ملزموں کو آزاد گھومنے پھرنے کی اجازت ہے ، ان ملزموں نے کونسا اتنا بڑا جرم کر دیا ہے ؟بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے ملزموں کو قید تنہائی میں رکھنے اور وکلا سے ملاقات نہ کروانے سے متعلق جواب طلب کر لیا۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ چند سوالات سامنے آئے ان کا جواب خواجہ حارث سے لیں گے ۔ جس کے بعد کیس کی سماعت آج تک ملتوی کردی گئی۔