"AKZ" (space) message & send to 7575

نفرت بدلے کی آگ میں بہہ نکلتی ہے

کیرولین نے کہا ہے ''کوئی بھی اس کہانی کا انجام نہیں جانتا‘ وہ کہانی جو آپ کی زندگی کی کہانی ہے۔ لیکن اس کا انجام کیا ہے‘ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کیا کر رہے ہیں اور کیسے شب و روز گزار رہے ہیں‘‘۔
فرانز فینن (Frantz Fanon) بیسوی صدی کا ایک ایسا نفسیاتی معالج، فلاسفر اور سرگرم سیاسی کارکن تھا‘ بڑی تعداد میں سیاسی لیڈروں اور انقلابی تحریکوں نے جس کی ذات سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے علاقوں اور ملکوں میں انقلاب کی آبیاری کی ہے۔ اس کی کتاب ''زمین کے ستائے ہوئے‘‘ (The Wretched of the Earth) تمام دنیا کے انقلابیوں کے لیے کسی صحیفے کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ کتاب 18 سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے اور صرف انگریزی زبان میں اس کی دسیوں لاکھ کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔ اس کتاب کا دیباچہ مشہور فلسفی ژاں پال سارتر نے لکھا ہے۔ فینن نے نوآبادیاتی دور میں ویسٹ انڈیز کے ایک جزیرے Martinique میں آنکھ کھولی۔ اس وقت یہ جزیرہ ایک فرانسیسی کالونی کی حیثیت رکھتا تھا۔ نوآبادیاتی دور، اس کی آلائشوں اور مغربی طاقتوں کے ظلم و جبر کو فینن نے قریب سے دیکھا۔ فینن اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ ہم مقامی آبادی کو ہر شہر میں دو حصوں میں تقسیم ہوا دیکھتے ہیں۔ اول: ایک ایسا علاقہ جو امیر‘ کامیاب اور بارسو خ لوگوں کی رہائش گاہ ہوتی ہے اور جہاں خود غیر ملکی حاکم بھی رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ دوم: غربا‘ مجبور اور محکوم مقامی لوگوں پر مشتمل خستہ حال آبادیاں۔ ان حالات میں معاشی بنیادوں پر انسانوں کی طبقاتی تقسیم ازخود نسلی مسائل کو جنم دیتی ہے۔
فینن کا خیال ہے کہ ظالم اپنے جبر کو قابلِ قبول بنانے کے لیے اکثر مذہب کا سہارا لیتا ہے۔ خدا کے نام پر نسلی امتیاز کو قدرت کا قانون کہہ کر وہ اپنی خود ساختہ فوقیت کو قانونی رنگ پہنا لیتا ہے اور غریب عوام کو یہ چکما دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے کہ خدا دنیاوی آسائشوں کو پسند نہیں کرتا اور اس کی رِضا یہی ہے کہ دنیا میں غریبوں پر مشکلات ہوں تاکہ جنت میں ان کا مستقل ٹھکانہ ہو۔ لیکن اس کے برعکس ایک انقلابی دنیا میں رہتے ہوئے جنت کے مزے لوٹنا چاہتا ہے۔ وہ کسی تصوراتی جنت کے بجائے حقیقت کا سامنا کرنا چاہتا ہے۔ وہ احمقوں کی جنت میں رہنے کے بجائے زمین کے دکھ اورسکھ کو ترجیح دیتا ہے۔ فینن ہمیں بتاتا ہے کہ نو آبادیاتی طاقتیں ایسی زبان استعمال کرتی ہیں جس میں مقامی لوگ جانور، درندوں اور غیر مہذب افراد کی طرح جانے پہچانے جاتے ہیں۔ وہ مقامی لوگوں کے لباس ، روایات اور مذہبی عقائد کا مذاق اڑاتی ہیں۔ ان کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی طرح مقامی آبادی کی تضحیک کی جائے اور انہیں خود سے کم تر بلکہ غیر مہذب اور غیر انسانی ثابت کیا جائے۔ نو آبادیاتی طاقتیں رفتہ رفتہ ایسا روپ دھار لیتی ہیں جیسے وہ مقامی لوگوں کو مذہب یا جمہوریت کے نام پر ان کی سیاسی اور روحانی اصلاح کا بیٹر ا اٹھائے ہوئے ہیں۔ ان کا یہ رویہ مقامی لوگوں کے لیے ناراضی، غصے اور جھنجھلاہٹ کا سبب بنتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ یہ ناراضی نفرت میں تبدیل ہوتی جاتی ہے۔ پھر جب عام لوگ بھی آزادی کی جدوجہد میں شریک ہو جاتے ہیں تو یہ نفرت بدلے کی آگ میں بہہ نکلتی ہے اور پھر کئی دہائیوں اور صدیوں سے جمع غصے کا لاوا ایک بھیانک تشدد کا روپ دھار کر ابل پڑتا ہے اور اس آگ میں زبان، کلچر، مذہب غرضیکہ طاقت کے نام پر تھوپی گئی ہر روایت بھسم ہو جاتی ہے۔ اس طرح عوام صدیوں سے روا رکھی گئی تمام زیادتیوں کا حساب چکتا کر دیتے ہیں۔
فینن کا خیال ہے کہ مقامی لوگوں کی یہ بغاوت بتدریج انقلاب کی شکل اختیار کرتی ہے اور سیاسی شعور کے ادراک کے ساتھ ساتھ وہ اپنے علاقے اور عوام کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ وہ ایک خوش آئند مستقبل کے لیے اپنے آج کو دائو پر لگا دیتے ہیں کیونکہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے عدل و انصاف پر مبنی سماج کا قیام چاہتے ہیں۔ مقامی بستیوں کے مجبور و محکوم لوگ‘ جن کی ہڈیوں میں نفرت اور غصے کا لاوا دہک رہا ہوتا ہے‘ سب سے پہلے اپنے ہی لوگوں پر اپنے غصے اور برتری کی دھا ک بٹھانا چاہتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب وہ ایک دوسرے کی سر پھٹول میں مشغول ہوتے ہیں۔ فینن اس جھنجھلاہٹ اور غصے کو سمجھنے میں قاری کی مدد کرتا ہے اور وضاحت کرتا ہے کہ کس طرح یہ نفرت جذباتی اور سماجی طور پر داخلی رخ اختیار کر لیتی ہے اور بالآخر جب یہ نفرت ظالم کے خلاف تشدد کی شکل اختیار کرتی ہے تو مظلوم اپنے منفی جذبات کے زیر اثر لاشعوری طور پر اس جلاد کا روپ دھار لیتا ہے جو کسی وقت ظالم کا حقیقی روپ تھا۔ مقامی باشندے دراصل بے بس اور پسے ہوئے انسان ہوتے ہیں جن کا ایک ہی سپنا ہوتا ہے کہ کسی طور وہ ظالم کو انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کریں۔
فرانز فینن کی موت 6 دسمبر 1961ء کو امریکہ میں بلڈ کینسر کی وجہ سے ہوئی۔اس وقت اس کی عمر محض 36 برس تھی۔ اس کو جب کینسر کا علم ہوا تو اس نے الجزائر میں آزادی کی جنگ لڑنے والی قیادت کو پیغام بھیجا کہ اسے بھی اس جنگ میں ایک سپاہی کے طور پر شامل کیا جائے کہ وہ ایک بند کمرے میں اپنے بستر پر موت نہیں چاہتا۔
اگر آج پاکستان کا جائزہ لیں تو بالکل وہی حالات نظر آتے ہیں جن کا ذکر فینن نے اپنی کتاب میں کیا ہے ۔ فرق صرف اتنا سا ہے کہ ہمار ے موجودہ حالات کے ذمہ دار ہم خود ہی ہیں نہ کہ کوئی غیر ملکی نو آبادیاتی طاقت۔ بقول فرازؔ: یہاں کب کوئی اغیار کا لشکر اترا۔ آج معاشرے پر نظر دوڑائیں، ہر شہری کی ہڈیوں میں غصے کا لاوا پک رہا ہے۔ آج ہر عام پاکستانی اپنے ساتھ ہونے والی ناانصا فیوں اور ظلم کی وجہ سے نفرت کی آگ میں سلگتا نظر آ رہا ہے۔ کیا یہ سچ نہیں کہ کئی دہائیوں سے جمع غصے کا لاوا ایک بھیانک تشدد کا روپ دھار چکا ہے۔ آئے روز ہم شہریوں کی جانب سے چوروں‘ ڈاکوئوں کو مارنے حتیٰ کہ جلا دینے تک کی خبریں سنتے ہیں یعنی عام لوگ اب چھوٹے چوروں اور لٹیروں کے خلاف اپنی عدالت لگا کر خود ہی انہیں سزائیں دے رہے ہیں۔ وہ اس وقت آپس کی سر پھٹول کے مرحلے میں ہیں مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پچیس کروڑ عوام اپنے ساتھ ہونے والی تمام ناانصافیوں کا حساب چکتا کرنے کا سو چ رہے ہیں۔ وہ طاقت کے زور پر تھوپی گئی ہر بوسیدہ روایت کو بھسم کرنے کا ارادہ کیے ہوئے ہیں۔ حالات کی نبض پڑھنے والوں کا ماننا ہے کہ پاکستان میں بہت جلد ایک نیا سورج اُگنے والا ہے۔ اب ایک نئے معاشرے کا جنم ہونے والا ہے۔ معصوم انسانوں کا معاشی استحصال کرنے والوں‘ عوام پر ظلم کے پہاڑ ڈھانے والوں‘ ان کی زندگیو ں میں زہر گھولنے والوں‘ ان کے آنگنوں میں ذلت بھرنے والوں‘ انہیں مذہب، زبان، قومیت اور دیگر حوالے سے تقسیم کرکے اپنا الوسیدھا کرنے والوں کا وقتِ حساب جلد آنے والا ہے۔
بھلا معصوم لوگوں کو گمراہ کرنے والے کیا امید رکھتے ہیں کہ جب مظلوموں‘ محکموں کی محصو ر آوازیں آزاد ہوں گی تو وہ ان استحصالی طبقات کی شان میں قصیدے پڑھیں گی؟ جب صدیوں سے سلے ہوئے ہونٹ کھلیں گے تو وہ کیا ان کی تعریف کریں گے؟ جب ان کے سر‘ جنہیں اشرافیہ کے طبقات نے زمین تک جھکا رکھا تھا‘ اٹھیں گے تو ان کی آنکھوں میں تحسین و آفرین کی شمعیں جلیں گی؟ جب عام لوگ اپنی جھکی ہوئی کمروں کو سیدھا کرکے کھڑے ہوں گے اور ان کی نگاہیں ان لوگوں کو ڈھونڈیں گی جنہوں نے ان پر ناکردہ گناہوں کا بوجھ ڈھویا۔ ایسے میں ان کی آنکھوں سے نکلتے ہوئے شعلوں سے بچانے کے لیے پناہ کی کوئی جگہ نصیب نہیں ہو گی اور نہ ہی کسی کو معافی مل سکے گی۔ ظلم کی رات طویل ضرور ہوتی ہے مگر صبح کو طلوع ہونے سے نہیں روک سکتی۔ ہر تاریک رات کے بعد صبح طلوع ہوتی ہے اور ہر غلامی کی زنجیریں ایک دن ٹوٹ کر رہتی ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں