"AKZ" (space) message & send to 7575

ناامیدی کبھی آخری منزل نہیں ہوتی

10 اگست 1976ء کو شمالی آئرلینڈ کے شہر بلفاسٹ (Belfast) کی گلیوں میں ایک عجیب واقعہ رونما ہوا۔ یہ وہ زمانہ ہے جب آئر لینڈ کیتھولک اور پروٹسٹنٹ گروہوں کے مابین فسادات کی زد میں تھا۔ انہی فسادات میں آئرش ریپبلک آرمی کا ایک اہلکار فرار کی کوشش میں پیچھا کرنے کے والوں کو دھوکا دینے کی کوشش میں اپنی گاڑی لے کر ایک گلی میں پہنچ گیا۔ اچانک گولی چلنے کی آواز آئی اور گولی اس کار سوار کے جسم میں پیوست ہو گئی۔ شدید زخمی ڈرائیور گاڑی کے سٹیئرنگ پر گر گیا اور گاڑی بے قابو ہو گئی۔ پہلے یہ گاڑی ایک گھر کی باڑ سے ٹکرائی اور پھر اس نے کچھ فاصلے پر موجود ایک ماں اور اس کے تین بچوں کو کچل دیا۔ ماں اگر چہ شدید زخمی ہوئی مگر اس کی زندگی بچ گئی لیکن اس کے تینوں بچے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔
تیسری دنیا میں شاید یہ واقعہ اتنا عجیب نہیں۔ آج کی دنیا پر غور کریں تو غزہ میں اب تک پانچ ہزار سے زائد بچے شہید ہو چکے ہیں۔ جس زمین پر بھی جنگ اور فسادات اپنے پنجے گاڑتے ہیں‘ وہاں خوف اور تشدد پھوٹ پڑتے ہیں اور سب سے زیادہ نشانہ بچے ہی بنتے ہیں۔ مگر 1976ء کے اگست میں بلفاسٹ کے اس واقعے نے بالکل مختلف نتیجہ پیش کیا۔ اس علاقے میں‘ جہاں تین بچے ہلاک ہوئے تھے‘ اپنے گھر میں موجود ایک خاتون نے کار کے باڑ سے ٹکرانے کی آواز سنی جس پر وہ فوراً گھر سے باہر نکلی۔ جونہی وہ دوڑ کر جائے وقوعہ پر پہنچی تو اس کی آنکھوں میں خوف کا پورا منظر سما گیا۔ اس منظر نے اس کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس پُرتشدد اور دہشت انگیز واقعے کے خلاف کچھ کر گزرنے کی پُرجوش خواہش اس پر طاری ہوگئی۔ مشورہ کرنے یا منصوبہ سازی کے لیے وقت نہیں تھا۔ اس نے اس انداز میں سوچا بھی نہیں‘ بس ایک وجدانی کیفیت میں وہ سبھی کچھ کیا جو اس کے دل نے کہا۔ وہ اس سڑک‘ جہاں یہ حادثہ پیش آیا تھا‘ کے کنارے پر واقع ہر مکان پر گئی۔ خوف کا لبریز پیالہ الٹ چکا تھا۔ وقت آ گیا تھا کہ ہر مرد و عورت کو ایسے بے رحم تشدد پر احتجاج کے لیے اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔ اب یہ سیاسی رویوں یا مذہبی عقائد کا معاملہ نہیں رہ گیا تھا۔ اس کا بس ایک ہی علاج تھا کہ عوام خود اس کے خلاف آواز اٹھائیں۔ ریڈیواور ٹیلی ویژن نے اس گھریلو عورت کی مہم میں کچھ دلچسپی دکھائی اور اسے دہشت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے آئرش عوام کے نام ایک اپیل نشر کر نے کا موقع فراہم کیا۔ اس کی اپیل کا فوری جواب ملا اور زیادہ سے زیادہ لوگوں نے اس کی پکار پر لبیک کہا۔ سب سے پہلے اُن تین بچوں کی خالہ آگے بڑھی اور ان دونوں عورتوں نے مل کر جنگ زدہ علاقے کی طرف اپنے صلح کے سادہ مگر دل کو چھو لینے والے پیغام کے ساتھ دلیری سے قدم بڑھائے۔ اس مختصر سی ابتدا سے دنیا میں وہ کچھ ہوا جس کو شمالی آئر لینڈ کی امن تحریک کے نام سے جانا جاتا ہے۔
1976ء کا نوبیل امن انعام اُس گھریلو خاتون ''بیٹی ولیمز‘‘ (Betty Williams) اور اُس حادثے میں ہلاک ہونے والے تین بچوں کی خالہ ''مریڈ کوریگن‘‘ (Mairead Corrigan) کو دیاگیا۔ سوال یہ ہے کہ یہ عورتیں اپنی مہم میں کیوں کامیاب ہوئیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ محاذِ جنگ کے دونوں جانب امن کی آرزو نے جڑیں پکڑ لی تھیں اور ان دونوں عورتوں نے جو کچھ کہا‘ وہ ہزاروں‘ لاکھوں دلوں کے خیالات کی گونج تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عوامی جذبات کی ترجمان بن گئیں۔ انہوں نے غلط سمت سے شروعات کی یعنی اوپر سے نہیں کی‘ خود کو ذہین و فطین سمجھنے والوں کے درمیان سے نہیں کی جو سیاسی بصیرت کے حامل تھے۔ نہیں! انہوں نے عام آدمی سے رابطہ کیا‘ ایک ساد ہ پیغام کے ساتھ۔ انہوں نے کبھی اپنے کام کی مشکلات کی پروا نہیں کی۔ بس وہ اپنے کام میں جتی رہیں‘ اس لیے کہ انہیں مکمل یقین تھا کہ یہ وہ کچھ ہے جس کی انہیں اشد ضرورت ہے۔ ایک باہمت اور بے غر ض عمل‘ جو ہزاروں افراد کے لیے روحانی فیضان ثابت ہوا جس نے ظلمت میں ایک شمع روشن کی اور جس نے اُن لوگوں کو نئی امید دلائی جو سمجھتے تھے کہ ساری امیدیں ختم ہوچکی ہیں۔
آج اگر ہم پاکستان میں امید کو ڈھونڈنے نکلیں تو ہر جگہ ہمارا استقبال مایوسی کر رہی ہو گی۔ ہم امید کو ملک میں کہیں بھی تلاش نہیں کر پائیں گے۔ ہاں‘ نا امیدی، مایوسی اور بے بسی سے ہماری ملاقات نہ چاہتے ہوئے بھی بار بار اور خود بخود ہوتی چلی جائے گی۔ آج پاکستان میں سب بے بس نظر آتے ہیں۔ سب خوفزدہ ہیں۔ بے بسی اور خوف کا آپس میں کیا تعلق ہے‘ آئیے اس کو جاننے کی کو شش کرتے ہیں لیکن اس سے بھی پہلے بے بسی کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب آپ کسی ایسی صورتحال سے دوچار ہوتے ہیں جس سے باہر نکلنے کی کوئی راہ آپ کو دکھائی اور سجھائی نہ دے رہی ہو اور آپ کے اعصاب اور ذہن شل ہوکر آپ کا ساتھ دینے سے صاف انکار کر دیں۔ جب آپ کے اعصاب، حوصلہ، جذبہ اور ہمت آپ کے دشمن بن جائیں تو آپ ایسے وقت میں خود کو بالکل لاچار اور بے بس محسوس کرتے ہیں۔ جب کوئی انسان بے بس ہو جاتا ہے تو پھر اسی لمحے ان کی تاک میں بیٹھا خوف انسانوں کو دبوچ لیتا ہے۔ روزگار کا خوف، بے عزتی کا خوف، بے اختیاری کا خوف، مہنگائی کا خوف، پانی و بجلی کی عدم دستیابی کا خوف۔ صحت و تندرستی کا خوف، بیماریوں کا خوف۔ ہر طرح کا خوف پھر انسان کے دل و دماغ میں رقص شروع کر دیتا ہے ایسے میں ناامیدی کی چادر تن و من پر پوری طرح حاوی ہو جاتی ہے اور انسان کو کوئی روشنی کی کرن‘ بہتری کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا۔
آج ہم سب کو اپنی ناامیدی کے علاوہ اور کسی بات کا ہوش نہیں۔ آج ہم سب اپنی اپنی نظروں میں بھی بے توقیر ہو چکے ہیں۔ سب سے زیادہ وحشت ناک صورتِ حال یہ ہے کہ ہم سب اس کو اپنی آخری اور حتمی منزل سمجھے بیٹھے ہیں۔ یہ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں کہ ناامیدی کبھی آخری منزل نہیں ہوتی۔ ناامیدی ہمیشہ اسی وقت جنم لیتی ہے جب امید مرتی ہے۔ اگر ناامیدی کو مار دیا جائے تو ایک بار پھر امید پیدا ہو جاتی ہے۔ اگر یہ بات غلط ہوتی تو بیٹی ولیمز اور مریڈ کوریگن کبھی اُس وحشت و دہشت کے ماحول اور ناامیدی کے حالات میں اپنے گھروں سے نہ نکلتیں۔ وہ اگر حالات کے آگے ہتھیار ڈال دیتیں تو کبھی بھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتی تھیں۔ کیا ہم ان دونوں گھریلو خواتین سے بھی گئے گزرے ہیں جو ناامیدی اور مایوسی کے خلاف اور اپنی بے بسی اور لاچاری کے خلاف اپنے گھروں سے نکلنے کے لیے ہی تیار نہیں ہیں۔ ان کے خلاف بولنے، اٹھنے اور دوسروں کو آواز دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
یاد رکھیں! یہ زندگی آپ کو صرف ایک بار جینے کے لیے ملی ہے‘ اگر آپ ان حالات کا مقابلہ کرنے اور بھرپور کوشش کرتے ہوئے زندہ رہنے پر راضی ہیں تو پھر الگ بات ہے‘ لیکن اگر نہیں تو پھر شمالی آئرلینڈ کی ان دو گھریلو خواتین کی طرح آپ کو صرف عام لوگوں کو آواز دینے کی ضرورت ہے۔ ایک بار امید کی شمع جلا کر دیکھیں۔ آپ حیران رہ جائیں گے کہ کس طرح عام لوگ آپ کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں کیونکہ ناامیدی کبھی آخری منزل نہیں ہوتی۔ یاد رکھیں‘ عام لوگ ہمیشہ ایک آواز‘ روشنی کی ایک لو کے منتظر رہتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں