"AKZ" (space) message & send to 7575

جہالت سے محبت کیوں؟

قدیم زمانے سے لے کر اب تک‘ تمام فلسفی اور دانشور اس بات پر متفق ہیں کہ عقل کے بغیر زندگی بے کار ہے‘ اس کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ قید خانے میں سقراط بن کے رہنا اس سے بہتر ہے کہ ہم تخت پر کیلیان بن کر رہیں۔ جو عقل و شعور کی دولت سے مالا مال ہوتے ہیں‘ ان کے نزدیک زندگی کا مفہوم ہی مختلف ہوتا ہے۔ وہ وقتی آسائش کے بجائے تاریخ میں زندہ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ فانی زندگی تو ایک نہ ایک دن ختم ہو جائے گی مگر ضمیر پر اگر کوئی بوجھ ہوا تو وہ اسے اٹھا نہیں سکیں گے۔ یہ عقل ہی تھی جس سے ڈیکارٹ کو محبت ہو گئی تھی۔ سپنبوزا نے اسی کے سبب فاقے کاٹے۔ برونو اس کی خاطر زندہ جلا دیاگیا۔ انقلابِ فرانس نے عقل کی حسین دیوی کی پرستش کے لیے کئی صنم کدے تعمیر کیے۔ سقراط نے اس کی خاطر زہر کا پیالہ پیا۔ ابن رشد اس کی خاطر جلاوطن ہوا۔ ژان دارک اسی کی خاطر ''ملحد‘‘ کہلائی اور روئن (Rouen) کے بازار میں زندہ جلا دی گئی۔ گلیلیو گلیلی کے زندگی کے آخری سال اسی کی وجہ سے قید میں بسر ہوئے۔ سروتیس بھی اسی کی خاطر اپنی کتابوں کے ساتھ زندہ جلا دیاگیا۔ مادام رولاں اسی کی وجہ سے تختہ دار پر لٹکائی گئی۔ اگر علم و دانش کے یہ علمبردار تلواروں، زہر کے پیالوں، آگ اور تختہ دار سے ڈر جاتے تو آج انسان کس حالت میں ہوتا؟
علم و حکمت کی ان قندیلوں کو جہالت کی پھونکوں سے بجھانے کی ساری کوششیں ناکام ہو گئیں کیونکہ ان کے خیالات کو جلانے کے لیے ساری دنیا کا ایندھن ناکافی تھا۔ انسانی غور و فکر کو کسی بھی دور میں زنجیروں میں نہ جکڑا جا سکا۔ جسم جل گئے لیکن ذہن زندہ رہے۔ علم باقی رہا۔ شعور کو دوام ملا اور وجدان بعد از مرگ بھی روشنی بانٹتا رہا۔ جرم و سزا کے اس دور کے بعد بھی ان مفکرین کے خیالات باقی رہے اور آج تک باقی ہیں کیونکہ جسم کو تو فنا کیا جا سکتا ہے مگر خیال کو نہیں مٹایا جا سکتا۔ انسان آتے رہے اور جاتے رہے لیکن عقل کا سفر جاری رہا۔
آج دنیا بھر میں سب سے زیادہ اسی عقل و شعور کی تکریم کی جاتی ہے کیونکہ اسی کی مدد سے انسان اپنے دکھ کم کرتا جا رہا ہے۔ اسی کی وجہ سے اس کی بے سکونی ختم یا کچھ کم ہوئی ہے۔ اسی کی وجہ سے اس کی دہشت اور اس کا خوف ختم ہوا ہے۔ لیکن دنیا بھر کے بالکل برعکس ہم اس کی وجہ ہی سے بے سکونی میں مبتلا ہیں۔ اسی کی وجہ سے دہشت زدہ اور غمگین ہیں۔ اسی کی وجہ سے دکھوں کے طوفان میں گھرے ہوئے ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ آئیں‘ اس کی وجوہات کو تلا ش کرنے کی کوشش تے ہیں۔
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہمارے زمانے میں جس سرعت سے طرح طرح کی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں‘ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئیں۔ حتیٰ کہ پیریکلین کے عہد میں بھی نہیں ہوئیں۔ اب ہر چیز بدل گئی ہے۔ طرزِ زندگی بدل گیا ہے۔ اندازِ فکر تبدیل ہو گیا ہے۔ سوچ کو آزادی نصیب ہوئی ہے۔ زراعت سے صنعت، دیہات سے قصبہ اور قصبے سے شہر کے ارتقا نے سائنس کے مقام کو بلند تر کر دیا ہے۔ ان بدلتے ادوار میں جمہوریت اور اشتراکیت جیسے نظریات نے جنم لیا۔ عورت کو آزادی اور برابری حاصل ہوئی۔ پرانے اخلاقی تصورات شکستہ ہو گئے۔ زندگی آسان سے آسان تر اور آسائشات سے بھرپور ہو گئی لیکن محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں آج بھی سقراط کا زمانہ ہے۔ نئے تصورات سے ہماری اخلاقی زندگی خطرے میں ہے۔ ہم انسانیت کا صرف لیبل ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ آج ہم میں سے کسی میں یہ ہمت نہیں کہ زندگی کے سارے پہلوئوں کا جائزہ لے سکے۔ ہم ہر شعبے میں ماہرین سے خائف ہیں۔ ایمانداری سے ہمیں ڈر لگتا ہے۔ مساوات، برداشت، عدل و انصاف سے ہم خوفزدہ رہتے ہیں۔
جہالت کی چادر اوڑھ کر ہمیں سکون ملتا ہے۔ غور و فکر سے ہمیں نفرت ہے۔ سچائی اور دیانت سے ہمیں گھن آتی ہے۔ سوچنے سے ہماری طبیعت خراب اور بیزار ہونے لگتی ہے۔ جو سماج کی خاموشی کو توڑنے کی کو شش کرتا ہے ہم مل کر اس کا گلا گھونٹ دیتے ہیں۔ اپنے بوسیدہ عقائد اور نظریات کی زنجیروں میں خود کو ہر وقت جکڑے رہنے سے ہمیں خوشی ملتی ہے۔ اختلافِ رائے‘ جس کو مغرب میں ایک مثبت رجحان سمجھا جاتا ہے اور جو تحقیق کا راستہ وا کرتا ہے مگر ہمارے سے یہ برداشت نہیں ہوتا۔ بے شرمی، بے حیائی اور بے حسی ہمارے خون میں رچ بس گئی ہے۔ جہالت سے ہمیں محبت ہے۔ جسمانی اور ذہنی بیماریوں سے ہم سکون حاصل کرتے ہیں۔ اپنے حکمرانوں کی نالائقی، لاعلمی، کر پشن، لوٹ مار، ان کی عیاشیوں، نا اہلی پر ہمیں پیار آتا ہے۔ اب ہمارے نزدیک یہ جرم‘ جرم نہیں رہ گئے۔ زندہ باد اور مردہ باد کے نعروں میں مگن رہنا ہمارا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ اپنے اپنے ممدوح کے کینسر زدہ فیصلوں، اقدامات اور اعمال پر انہیں دل کھول کر داد دیتے پھرتے ہیں۔ جہالتوں کے غول در غول سماج میں آزادنہ گھومتے ہیں اور انہیں روکنے اور ٹوکنے والا کوئی نہیں ہے۔
ہم سب کی زندگی بے معنی ہو چکی ہے اب ہم روئے ارض پر بسنے والے باقی جانداروں کے علاوہ اور کچھ نہیں ہیں۔ زندگی کے ڈر امے میں ہر شخص کواپنا پارٹ تو یاد ہے لیکن وہ اس کے مطلب سے نابلد ہے۔ اس کے مفہوم سے ناآشنا ہے۔ انہی وجوہات نے ہماری فکر کو کھوکھلا بنا دیا ہے۔ ہر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم کر دیا ہے۔ وہ شخص جسے اپنے ضمیر پر اعتماد نہیں ہوتا‘ وہ زندگی کے اہم مسائل سے گریز کرتا ہے کیونکہ کسی وقت بھی زندگی کی یہ وسیع و عریض تجربہ گاہ اس کے حقیر جھوٹ کو بے نقاب کر سکتی ہے۔ کسی وقت بھی وہ حقیقت کے سامنے عیاں ہوکر لرزہ براندام ہو سکتا ہے‘ اس لیے وہ مسائل اور سچائی سے دور بھاگتا ہے ۔ وہ سچائی اور مسائل سے خوف زدہ رہتا ہے۔ وہ الفاظ کی تہوں کے نیچے زندگی سے بے تعلقی ڈھونڈتا ہے۔اس بے تعلقی اور لاتعلقی میں وہ اپنے لیے جائے پناہ ڈھونڈتا ہے۔
ہمارے معاشرے کی اکثریت کا یہ عالم ہے کہ وہ عقل و خرد کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتی ہے۔ وہ کہا جاتا ہے نا: عقل نہیں تو موجیں ہی موجیں‘ اب یہی معاشرے کا سرورق بن چکا ہے۔ کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ اگر ہمارے سماج میں عقل ہی مر جائے تو ہم کتنے سکون میں آ جائیں گے۔ وہی سکون جس کے لیے سارتر کی ماں ہر رات دعا مانگا کرتی تھی۔ جب عقل ہی نہیں ہو گی تو ہمیں کوئی اذیت‘ اذیت نہیں لگے گی۔ ہم کسی ناانصافی، ظلم و زیادتی پر آہ و بکا نہیں کریں گے۔ کسی عدم مساوات پر چیخ وپکار کریں گے نہ کسی بااختیار اور امرا کی گالیوں اور ذلت پر ماتم کریں گے اور نہ ہی اپنے فاقوں، غربت و افلاس، بیماریوں، بے روزگاری اور مہنگائی پر روئیں گے اور نہ ہی تقدیر کو بار بار دوشی ٹھہرائیں گے۔ نہ ہی سچائی سے دور بھاگیں گے نہ ہی زندگی سے بے تعلقی ڈھونڈیں گے اور نہ ہی کسی کے جھنجھوڑنے پر خوف زدہ ہوں گے۔ اسی لیے آئیں مل کر دعا مانگتے ہیں کہ خدا ہمارے سماج میں عقل کو مار دے کیونکہ ہمارے سماج میں اکثریت جہالت سے محبت کرنے والوں کی ہے۔ وہ شعور و علم کے اجالوں کے بجائے لاعلمی کے اندھیروں میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ 25 کروڑ انسانوں کو سکون اسی وقت مل سکے گا جب علم و شعور پہ جہالت و لاعلمی غالب آئے گی اور جب عقل کی موت ہو جائے گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں