"AKZ" (space) message & send to 7575

سب سے مشکل کام خود کو جاننا ہے

یو نانی فلسفی تھیلس کو سقراط سے پہلے کے ''سات دانا ترین آدمیوں‘‘ میں ایک خیال کیا جاتا ہے۔ اس نے کہا تھا کہ ''دنیا کا سب سے مشکل کام خود کو جاننا ہے۔ دوسری طرف سدھارتھ ایسی ابدی سچائی کی تلاش میں تھا کہ جو اسے تما م دکھوں اور دنیاوی بندھنوں سے نجات دلا دے۔ اسی تلاش کے دوران وہ ''گیا‘‘ کے قریب پہنچا اور تقریباً چھ برس تک وہاں ریاضتوں اور کٹھن مشقوں میں مشغول رہا۔ ان ریاضتو ں کے باعث وہ نہایت دبلا اور کمزور ہو گیا، پھر اس نے ان کٹھن ریاضتوں کو ترک کر دیا اور یہ تہیہ کر کے پیپل کے ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا کہ اس وقت تک یہاں سے نہیں اٹھے گا جب تک نروان نہ پا لے۔ اس کی یہ مراد پوری ہوئی اور وہ ''بدھ‘‘ یعنی بصیرت یافتہ بن گیا۔ نروان پا لینے کے بعد سدھارتھ گوتم بدھ کہلایا۔ اب گوتم بدھ نے سوچا کہ اس بصیرت کو دوسرے انسانوں تک بھی پہنچانا چاہیے؛ چنانچہ انہوں نے اپنے پیروکار اور چیلے بنائے جو بڑھتے بڑھتے سَنگھ یعنی جماعت کی شکل اختیار کر گئے۔ بدھ نے وہ راستہ دیکھ لیا تھا جو تمام دکھوں کے فنا ہونے‘ ان سے نجات اور نروان تک لے کر جاتا تھا۔ وہ سارناتھ کی طرف گئے اور ہرن باغ میں پہلا وعظ کیا۔ ''اے بھکشوئو! دنیا میں دو انتہائوں سے بچنا چاہیے۔ ایک خواہشا ت کے پیچھے بھاگنا اور نفسانی لذت میں کھو جانا اور دوسری‘ کٹھن ریاضتیں اور خود اذیتی‘‘۔
گوتم بدھ نے اپنی فکری عمارت کی بنیاد انسانی دکھ کی حقیقت پر رکھی۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کی پہلی عظیم سچائی ''دکھ‘‘ ہے۔ یہ زندگی کی اصل حقیقت ہے۔ گوتم بدھ کے خیال میں جسمانی تکالیف، بیماری، ذہنی پریشانی، حالات کا جبر، عزیزوں سے جدائی اور قابلِ نفرت لوگوں کی صحبت کے علاوہ زندگی کی عارضی مسرتیں اور عیاشیاں بھی آخر کار دکھ کا سبب بنتی ہیں۔ چونکہ یہ خوشیاں مستقل نہیں ہوتیں‘ اسی لیے جب غم ان کی جگہ گھیرتا ہے تو دُکھ کی افزائش ہوتی ہے۔ تغیر پذیر‘ کسی مستقل عنصر سے محروم اور کھوکھلی زندگی بجائے خود دکھ کا بڑا سبب ہے جو انسان کے لیے غیر تسلی بخش صورتحال پیدا کرنے کی محرک ہوتی ہے۔ انہوں نے دُکھ کی اقسام بھی بیان کیں جو آج بھی بدھ مت کی تعلیمات کا حصہ ہیں۔ بدھ مت میں سب سے عظیم سچائی یعنی ''دکھ‘‘ کی تین مختلف اقسام بتائی گئی ہیں: ایک قسم کے دُکھ وہ ہیں جنہیں ان کے عمومی مظاہر کے ساتھ ہر شخص محسوس کرتا ہے۔ دوسرے وہ ہیں جنہیں زندگی میں مستقل عنصر کی موجودگی کے بغیر ایک سلسلہ علت و معلول کے باعث محسوس کیا جائے۔ تیسری قسم وہ ہے جو بے ثبات اور تغیر پذیر زندگی کے باعث پیدا ہوتے ہیں۔
آئیے! یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ دکھ ہوتے کیا ہیں اور یہ آتے کہاں سے ہیں؟ اصل میں تمام دکھ ناسمجھی کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ سقراط کہا کرتا تھا کہ ''میں ایک بات جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا‘‘۔ جب آپ یہ جان لیتے ہیں کہ آپ کچھ نہیں جانتے تو پھر آپ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس طرح انسان بھوت پریت سے ڈرتے ہیں‘ اسی طرح وہ دکھ جاننے سے بھی ڈرتے ہیں مگر وہ جب یہ جان جاتے ہیں تو پھر دکھ ان سے دور بھاگنا شروع کر دیتے ہیں۔ زندگی کے آغاز میں جب انسان کچھ نہیں جانتا تھا تو وہ ہر چیز سے ڈرتا تھا۔ ہر چیز بار بار اس کے سامنے آ کر اسے ڈراتی تھی اور وہ ہر بار اس سے خوف زدہ ہو جایا کرتا تھا۔ اس لیے آغاز کی زندگی دکھی تھی۔ پھر جیسے جیسے اس نے غور و فکر کا دروازہ وا کیا اور سوچنے کا آغاز کیا تو پھر اس کے جاننے کی شروعات ہوئی۔ جیسے جیسے اس نے جاننا شروع کیا تو اس کے خوف اور ڈر میں کمی آنے لگی اور خوف اور ڈر اس سے ڈرنے لگے۔ جب انسان اپنے خوف‘ جو اصل میں سب سے بڑا جھوٹ ہوتے ہیں‘ سے ڈرنے لگے تو یہیں سے دکھوں کے مرنے اور خوشیوں کے زندہ ہونے کا آغاز ہونے لگتا ہے کیونکہ خواہشات خوف سے جنم لیتی ہیں۔ خوفزدہ انسان خواہشوں کے پیچھے بھاگتا ہے کیونکہ وہ اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتا ہے جبکہ جاننے والا اپنے آپ کو محفوظ سمجھتا ہے‘ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ دکھ آپ کے بن بلائے وہ مہمان ہوتے ہیں جنہیں آپ اصل میں کبھی اپنا مہمان دیکھنا ہی نہیں چاہتے چونکہ نہ جاننے کی وجوہ سے آپ بھٹکتے پھر رہے ہوتے ہیں اور اس بھٹکنے میں آپ وہاں‘ وہاں چلے جاتے ہیں جہاں آپ جانا ہی نہیں چاہتے۔ اصل میں سب سے وحشت ناک پہلو یہ ہے کہ انسانوں کی اکثریت کبھی بھی اپنے آپ کو جاننے کی کوشش نہیں کرتی۔ انہیں ساری عمر یہ معلوم ہی نہیں ہو پاتا کہ وہ اصل میں ہیں کیا اور وہ چاہتے کیا ہیں اور وہ پیدا کیوں کیے گئے ہیں‘ وہ زندہ کیوں ہیں؟ وہ ساری عمر صرف اور صرف اندھیروں سے اپنا سر پھوڑ تے رہتے ہیں۔ ان میں کچھ دولت کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیتے ہیں، کچھ زمینوں کے پیچھے پڑ جاتے ہیں، کچھ طاقت کو زندگی سمجھنے لگتے ہیں، کچھ اختیارات کے حصول کے پیچھے اپنی زندگی صرف کر دیتے ہیں اور کچھ اقتدار کو سب کچھ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ یہ سب وہ لوگ ہیں جو ناسمجھی کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں اور جنہیں خوف کی بیماری لاحق ہو تی ہے۔ اصل میں یہ سب کے سب دکھی انسان ہوتے ہیں‘ جنہیں سب سے زیادہ پیار، محبت اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اصل میں یہ جاننے والوں کے منتظر ہوتے ہیں کہ کہیں سے وہ آ جائیں اور انہیں ان کے دکھوں سے نجات دلا دیں تاکہ انہیں چین‘ سکون اور سکھ نصیب ہو سکے۔
عظیم یونانی فلسفی پائرہو (Pyrrho) کہاکرتا تھا ''دانا شخص خواہشات سے آزاد ہونے کے بعد دکھ سے آزاد ہو جاتا ہے‘‘۔ وہ جان لیتا ہے کہ لوگ اپنی خواہش پوری کر نے کے لیے باہم لڑتے اور جدوجہد کے باوجود خواہ مخواہ کچھ چیزوں کو دوسری چیزوں سے بہتر تصور کر لیتے ہیں۔ اس قسم کی جدوجہد اور کوشش بے مقصد اور لاحاصل ہوتی ہے کیونکہ تمام چیزیں ایک جیسی بے تعلق اور غیر اہم ہیں۔ ہمارے حکمرانوں ہی کی مثال لے لیجئے۔ وہ سب کچھ جاننے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن سب جانتے ہیں کہ اصل میں انہیں یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ وہ کچھ نہیں جانتے۔ حقیقت میں ان کا اصل مسئلہ ہی عدم واقفیت یعنی نہ جاننا ہے۔ اس لیے وہ اپنے اصل مسئلے ہی سے ناواقف رہتے ہیں وہ دوسروں کو اپنا مسئلہ سمجھے بیٹھتے ہیں جبکہ وہ اپنا مسئلہ خود آپ ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ اپنے لیے اور دوسروں کے لیے مسائل پہ مسائل پیدا کرتے چلے جا تے ہیں۔ وہ بے تعلق اور غیر اہم چیزوں کے لیے اپنی اور اپنے گھر والوں کی صحت تک دائو پر لگا دیتے ہیں‘ یہ جانے بغیر کہ یہ ساری جدوجہد اور کوشش بے مقصد اور لاحاصل مشق ہے، آخر میں سوائے مایوسی کے انہیں اور کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ خود اذیتی میں مبتلا ہو گئے ہیں تو غلط نہ ہو گا۔ حقیقت میں وہ صرف خود کو اذیت پہ اذیت دیے جا رہے ہیں۔
کبھی آپ نے ترقی یافتہ ممالک کے حکمرانوں کو مارے مارے پھرتے دیکھا ہے؟ کبھی اپنے اقتدار کی خاطر انہیں ریاست کے اہم کرداروں کے خلاف بولتے ہوئے سنا ہے؟ وہ سب اقتدار میں آتے ہیں‘ اپنے ملک اور اپنے عوام کی خدمت کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ وہ یوں اقتدار کے فراق میں مبتلا نہیں رہتے۔ امریکہ کو ہی دیکھ لیں۔ اس کے پانچ سابق صدور تاحال حیات ہیں۔ وہ صدر بنتے ہیں‘ زیادہ سے زیادہ دو مدت پوری کرتے ہیں اور پھر عام شہری بن کر دوبارہ زندگی کی رعنائیوں سے بھرپور لطف اندوز ہونے لگتے ہیں۔ ان کے گھر والے بھی دوبارہ عام شہری بن جاتے ہیں۔ مغرب کے بیشتر معاشروں کا یہی حال ہے اور یہ وہاں صدیوں سے ہوتا آ رہا ہے کیونکہ وہ زندگی اور اس کی حقیقت کو جان چکے ہیں۔ لوگ آتے ہیں‘ اپنے اپنے حصے کا کام کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ یہ ازل سے ہوتا آ رہا ہے اور ابد تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ دنیا میں کوئی بھی ناگزیر نہیں ہے۔ دنیا کا نظام ہر قسم کے خود ساختہ ''ناگزیر‘‘ افراد سے پہلے بھی چل رہا تھا اور ان کے بعد بھی چلتا رہے گا۔ رومن فلسفی پوٹینس کہتا ہے: خود شناسی میں ہم خوبصورت اور اپنی ذات سے لاعلمی میں بدصورت ہوتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں