"ARC" (space) message & send to 7575

ہوم لینڈ سکیورٹی نظام وضع کریں

وزیر داخلہ نے تسلیم کیا ہے کہ جناح ایونیو پر سکندر نے جوتگنی کا ناچ نچایا اس Performance کو طول دینے کے وہ خود ذمے دار ہیں۔اس کے بعد انہوں نے گفتگو کی روانی میں باقی ذمہ داری میڈیا پر ڈالنے کی کوشش کی تو ان کو صحافیوں کی آنکھوں میں مزاحمت نظر آئی اور ایک آواز تو ٹی وی پربھی سنائی دی۔ ’’ہاں اس شخص کو وہاں بھیجا بھی ہم نے تھا ‘‘۔اس پر وزیر داخلہ نے میڈیا کو اس واقعے میں لپیٹنے کی اپنی کوشش ترک کردی اور تمام ذمہ داری خود ہی اٹھالی۔بظاہرمحترم چودھری نثار نے یہ بھی بتایا کہ ملک کے اہم ادارے جو سکیورٹی امور کے ماہر سمجھے جاتے ہیں بالکل تیار تھے بلکہ انہوں نے پیشکش بھی کی مگر وزیر داخلہ کے بقول انہوں نے پولیس کے ذریعے اس معاملے سے نمٹنے کو ترجیح دی اورجب وہ ترجیح دے چکے تو ان کو معلوم ہوا (یعنی وزیر داخلہ کو پہلے پتہ نہیں تھا) کہ پولیس والوں کے پاس کچھ بھی نہیں ہے لہٰذا انہوں نے کہا کہ اب پولیس کو جدید سازو سامان دیاجائے گا۔ اس قسم کی باتیں ہمارے لوگ جب ایسی قیادت کے منہ سے سنتے ہیں جن کو حکومت چلانے کا وسیع تجربہ ہے ،تو ان کو یہ باتیں ہضم نہیں ہوتیں۔ لوگوں کے ذہن میں سوال ابھرتا ہے کہ آخر کیوں ایسا نہیں ہوا کہ اس بے احتیاط قسم کے مسلح شخص کو دو تین کمانڈوز جاکر غیر مسلح کردیتے اور معاملہ ختم ہوجاتا۔کیا ہمیں کمانڈوز درآمد کرنے پڑتے ہیں ؟ وزیر داخلہ کے ذہن میں اگر کوئی انتظامی باریکی ہوگی تو عام لوگ نہ اس سے واقف ہیں اور نہ ہی وہ اس کو سمجھنا چاہتے ہیں۔وہ دیکھتے ہیں کہ اس واقعے سے ہمارا منفی تاثر ابھرا ہے۔دنیا بھر میں انتظامی امور چلانے کے لیے ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ Go Getters یہ ایسے لوگوں کو کہا جاتا ہے جو کسی نہ کسی طریقے سے وہ کام مکمل کردیتے ہیں جو ان کے ذمے لگایا جاتا ہے۔ فوج میں بھی یہ اصطلاح استعمال ہوتی ہے اور ہمارے سول محکموں میں بھی لوگ اس سے واقف ہیں اور کسی بھی محکمے کے اچھے سربراہ کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ماتحتوں میں کون کون ہے جو Deliver کرسکتا ہے۔ Go Getters عام طور پر چھوٹے موٹے قواعد و ضوابط کو وقتی طور پر بالائے طاق رکھ کر بھی اپنا کام نکال لیتے ہیں بعدازاں ان کے افسران ان کی کارگزاری کو Regularise کرلیتے ہیں۔ہنگامی صورت حال میں دنیا بھر میں ایسے لوگوں سے کام لیا جاتا ہے مگر اس احتیاط کے ساتھ کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔Go Gatters سے کام لینے والے وہ سپروائزر جو ان افراد کو احتیاط کے دائرے میں رکھتے ہیں Smooth Operators کہلاتے ہیں۔ان کے اوپر محکمانہ سربراہ ہوتے ہیں جن کی نگرانی وزیر وغیرہ کرتے ہیں۔وزیر سے نیچے جتنے افراد ہوتے ہیں سب کا اپنا اپنا دائرہ اختیار ہوتا ہے۔ یہ سب لوگ جب اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کسی ہنگامی صورت حال سے نبردآزما ہوتے ہیں تو ہر ایک کو پتہ ہوتا ہے کہ کس نے کیا کرنا ہے۔اب اس عمومی پس منظر کو ذہن میں رکھ کر دیکھیے کہ جناح ایونیو پر جو ڈرامہ ہوا وہاں آپ کو ایسے کسی انتظام کی جھلک دکھلائی دی۔ایسا کوئی انتظام غالباً ہے ہی نہیں۔کم از کم اسلام آباد کی پولیس تو اس ضمن میں بے بس دکھائی دی۔ ہماری فوج کے اداروں کے پاس ایسے پکے انتظامات ہیں لہٰذا جب تک وزیر داخلہ پولیس میں کوئی موثر نظام قائم نہیں کرلیتے اور بقول اپنے پولیس والوں کو جدید سازو سامان فراہم نہیں کروا دیتے تو اس وقت تک ان کو پاکستان کے دیگر اداروں سے مدد حاصل کرنے میں شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔اسلام آباد پولیس نے اس روز جو کارکردگی پیش کی اس کے نتیجے میں صورت حال میں ایک خلاء پیدا ہوگیا تھا اور قدرت کا اصول ہے کہ جگہ خالی نہیں رہتی۔کوئی نہ کوئی طاقت آکر وہ خلا پر کردیتی ہے اور پاکستان میں اور کچھ ہو نہ ہو خلا پر کرنے والے جانباز بہت ہیں۔یہ بڑی خطرناک ہوتی ہے۔زمرد خاں نے جو کچھ کیا وہ ایک Typical پاکستانی ذہنیت کا غماز اقدام تھا جس میں زچ ہوکر انتہائی قدم اٹھالیا جاتا ہے۔ پاکستانیوں کی اسی ذہنیت سے بھارت خوفزدہ رہتا ہے۔ماضی کے تجربات سے بھارت جانتا ہے کہ پاکستان میں زمرد خاں قسم کے بہت لوگ ہیں وہ جب دیکھتے ہیں کسی صورت حال سے فرار ممکن نہیں ہورہا تو پھر انجام سے بے خبر اقدام کردیتے ہیں۔بھارت کی حد تک تو ہمیں اپنی ذہنیت کے اس تاثر کا فائدہ ہے کیونکہ ہمارا جوہری پروگرام غالباً اسی وجہ سے بھارت کی راتوں کی نیند حرام کیے رہتا ہے وگرنہ چین بھی بھارت کا دوست ملک نہیں ہے اور چین کی ایٹمی طاقت پاکستان سے کہیں زیادہ ہے۔ بھارت اگرچہ پاکستان کو کئی بار یہ کہہ کر ماضی میں دھمکیاں بھی دے چکا ہے کہ اگر ایٹمی لڑائی ہوئی تو پاکستان خدانخواستہ سارا تباہ ہوجائے گا جبکہ بھارت کا کافی حصہ پھر بھی بچ جائے گا لیکن بھارت کی اس دھمکی کا کسی پاکستانی نے کبھی اثر نہیں لیا۔ اس کی وجہ بھی یہی زمرد خاں Mentality ہے یعنی اللہ مالک ہے دیکھ لیں گے جو ہوگا۔بھارت کے اس ردعمل سے قطع نظر بین الاقوامی طور پر یہ کوئی اچھا تاثر نہیں ہے۔ جناح ایونیو پر ہونے والے ڈرامے کے حوالے سے ایک ٹی وی سروے کے نتائج کے مطابق پچاس فیصد سے کچھ زیادہ لوگوں کا کہنا تھا کہ زمرد خاں کا اقدام درست تھا جبکہ نصف سے کچھ کم نے کہا کہ زمرد خاں نے جو کچھ کیا وہ ٹھیک نہیں تھا۔چودھری نثار صاحب دیکھ لیں اگر وہ چاہتے ہیں کہ زمرد خاں کے اقدام کی مخالفت کرنے والوں میں اضافہ ہوتو پھر ان کو صوبوں کے ساتھ مل کر موثر ہوم لینڈ سکیورٹی کا نظام وضع کرنا ہوگا اور اگر وہ ایسا نہ کرسکے تو پھر ہمارے ہاں زمرد خاں نے جو کچھ کیا اس کی حمایت اور بڑھے گی جس سے بین الاقوامی برادری میں ہمارے دشمن فائدہ اٹھائیں گے۔ سب سے زیادہ کوشش ہمیں اپنا اندرونی نظام درست کرنے کے ضمن میں کرنا ہوگی یہ ٹھیک ہوگیا تو ہمارے خلاف پراپیگنڈہ خود ہی بے اثر ہوجائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں