1980ء کی دہائی میں پانچ برس امریکا میں ملازمت کرنے کے بعد جب واپس پاکستان آیا تو ہر ایک کی زبان پر یہی سوال تھا کہ وہاں جا کر کون واپس آتا ہے؟ تمہیں ڈی پورٹ کر دیا گیا ہے یا کوئی اور چکر ہے؟ انتہا یہ تھی کہ میں جب لاہور سے کراچی اپنے سامان کا کسٹم ادا کرنے گیا تو وہاں کسٹم آفیسر باقاعدہ برہم ہوا۔ اس کا کہنا تھا کہ سفارتکاروں کے سامان اکثر آتے ہیں لیکن عام شہری گیا‘ تو گیا، آپ کو کیا ضرورت تھی واپس آنے کی ؟ سچی بات ہے کہ میری واپسی پر‘ سوائے میری والدہ کے‘ کوئی بھی دل سے خوش نہیں تھا۔ ان لوگوں کی بات میں نہیں کر رہا جو میرے جانے پر ہی‘ ہماری سماجی روایات کے مطابق‘ انگاروں پر لوٹ رہے تھے۔ میرا انتخاب وائس آف امریکا کی اردو سروس میں ایک کمپٹیشن کے بعد ہوا تھا۔ کئی لوگوں نے ٹیسٹ دیا تھا‘ میری قسمت میں جانا لکھا تھا‘ سو میرا انتخاب ہو گیا۔ آگے آپ خود سمجھ سکتے ہیں۔ میرا سامان بھی وائس آف امریکا کے خرچے پر واپس آیا تھا کیونکہ جس کنٹریکٹ پر میں گیا تھا‘ اس میں یہ شق شامل تھی کہ سامان کا لانا‘ لے جانا بھی ان کے ذمے ہو گا۔ اب جس وقت یہ طنز زنی ختم ہوئی اور کچھ ماہ گزر گئے ‘جو بہت تلخ گزرے کیونکہ میرے دفتر والوں نے بھی امریکا میں پانچ برس‘ ان کے بقول‘ عیاشی کرنے کی سزا دینی تھی۔ میں لاہور سے منتخب ہوا تھا اور جب واپس آیا تو بڑی آسانی سے لاہور میں تعینات کیا جا سکتا تھا لیکن مجھے کہا گیا کہ آپ پسند کر لیں‘ آپ کو خیر پور جانا ہو گا یا مظفر آباد۔ یعنی امریکا سے جو کچھ میں سیکھ کر آیا تھا اس کو یا تو میں خیر پور کے ریڈیو سٹیشن یا پھر مظفر آباد کے سٹیشن پر کام میں لائوں۔ مجبوری میں میں نے مظفر آباد جانا پسند کیا کیونکہ وہاں کے سٹیشن ڈائریکٹر میرے دوست تھے۔
ادھر امریکا میں جب میں واپسی کا رخت سفر باندھ رہاتھا تو یہی صورتحال درپیش تھی۔ ہر کوئی پوچھ رہا تھا کہ کیوں جا رہے ہو؟ اس زمانے میں گرین کارڈ لینا کافی آسان تھا، پھر فارم ورکرز کی سکیم بھی چل رہی تھی۔ پھر کسی پاکستانی نژاد کے بچے کو اردو سکھانے کا بہانہ بنا کر بیوی تک کو سپانسر کرایا جا سکتا تھا۔ وائس آف امریکا میں کنٹریکٹ ختم ہو چکا تھا لیکن میں وہاں فیئر فیکس (Fair Fax) کائونٹی میں اپنے دفتر کی اجازت سے فارغ اوقات میں Bilingual سپیشلسٹ کا کام بھی کرتا تھا۔ یہ اتنی مشکل ترکیب وہاں مترجم کیلئے استعمال ہوتی ہے ۔ پاکستانی‘ بھارتی اور بنگلہ دیشی خاندانوں کے بچوں کا جب سکولوں میں کوئی مسئلہ ہو جاتا تھا تو والدین کو ٹیسٹنگ کے لیے بلایا جاتا تھا۔ اکثر والدین انگریزی سے نابلد ہوتے تھے یا اتنی کم انگریزی جانتے تھے کہ ان کو سٹاف کی بات پوری طرح سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ مجھے اردو‘انگریزی اور پنجابی تو آتی ہی تھی‘ تھوڑی بہت بنگالی زبان سے بھی آشنائی تھی کیونکہ میں ساٹھ کی دہائی میں ریڈیو لاہور کے پروگرام اردو بنگلہ بول چال میں بطور طالبعلم شریک ہوتا تھا۔ اس لحاظ سے کائونٹی کے عہدیدار مجھے بہت کار آمد شخص سمجھتے تھے۔ انہوں نے ہی میرے دفتر سے ا جازت لی تھی کہ میں بطور مترجم اپنے فارغ اوقات میں کام کر سکوں جس کیلئے الگ سے مجھے ادائیگی ہوتی تھی۔
کائونٹی میں اس کام کیلئے منتخب ہونے کی کہانی یہ ہے کہ میں جب اپنے بچوں کو سکول داخل کرانے کیلئے کائونٹی کے متعلقہ دفتر میں گیا تو وہاں ضروری کارروائی کے بعد جب میں جانے لگا تو کائونٹی کی ایک عہدیدار‘ جو وہاں انچارج تھی‘ میرے پاس آئی۔ اس کا نام Sylvia Samchez تھا ۔ سلویا نے مجھ سے درخواست کی کہ ایک پاکستانی فیملی بھی بچوں کو داخل کرانے آئی ہے‘ اگر آپ کے پاس وقت ہو تو مترجم کے فرائض انجام دے دیں۔ میرا گھر قریب تھا سو میں نے کہا کہ میں اپنے بچوں کو گھر چھوڑ کر آتا ہوں‘ آدھ گھنٹہ لگے گا۔ اس نے کہا اتنا تو ہم ان کو انتظار کروا سکتے ہیں‘ خیر میں پہنچا تو وہ فیملی‘ جو پنجابی تھی‘ مجھے سے بات کر کے خوش ہوئی۔ میں نے ان کے فارم وغیرہ بھروا دیے ۔ سلویا بھی خوش ہو گئی اور بولی کہ مترجم کے فرائض ادا کرنے کا شکریہ! میں نے کہا: میں نے پنجابی مترجم کا کام کیا ہے۔ اب اس کو دلچسپی پیدا ہوئی تو میں نے جنوبی ایشیا میں جو زیادہ تر بولی جانے والی زبانیں ہیں‘ ان کے بارے میں اس کو بتایا۔ اس پر اس نے سوال کیا کہ آپ کتنی زبانوں کو ہینڈل کر سکتے ہیں میں نے کہا اردو، ہندی، پنجابی اور کسی حد تک بنگالی بھی۔ اس کے بعد وہ مجھے اپنے دفتر میں لے گئی اور میرے بارے میں معلومات لے لیں، ساتھ ہی یہ بھی پوچھا کہ اگر ہم آپ کو ضرورت پڑنے پر بلوالیا کریں‘ صر ف ان اوقات میں جب آپ فارغ ہوں تو آپ آ سکیں گے؟ میں نے ہامی تو بھر لی مگر ساتھ ہی بتا دیا کہ میں اپنے دفتر سے پوچھوں گا‘ اگر ان کو کوئی اعتراض ہوا تو پھر مجھے معذرت کرنا ہو گی۔ سلویا نے ہنس کر کہا کہ ان سے پوچھنے کا کام میں خود کر لوں گی‘ آپ کوکبھی کبھی یہ نیک کام کرنا ہو گا۔
یہ 'نیک کام‘ کرتے مجھے کوئی چھ ماہ ہوئے تھے۔ ہفتے میں ایک یا دو دن دو سے تین گھنٹوں کیلئے جانا پڑتا تھا۔ پھر ایک روز سلویا نے مجھے اپنے کمرے میں بلوایا اور بتایا کہ تمہارے لیے خوش خبری ہے۔ میں نے تمہیں اس کام کی ادائیگی کرنے کا کیس بنایا تھا‘ جو منظور ہو گیا ہے۔ آپ اب تک جتنا کام کر چکے ہیں اس کی بھی اور آئندہ جو کام کریں گے‘ اس کی بھی ادائیگی کی جائے گی۔ اس کے بعد موصوفہ نے جتنا ان کے پاس والدین کی سہولت کے لیے انگریزی میں مواد تھا‘ وہ مجھے سے ترجمہ کروایا۔ اردو کا تو میں نے خود کیا‘ ہندی اور بنگالی کا میں نے وائس آف امریکا کی ہندی سروس اور بنگلہ سروس کے سٹاف ممبران سے کروا کر دیا۔ پنجابی کا میں نے بتا دیا کہ جو پاکستانی پنجابی ہیں‘ ان کے لیے اردو والا کافی ہو گا اور جو بھارتی پنجاب کے پنجابی ہیں؛ ان کو ہندی ترجمہ کافی رہے گا کیونکہ گورمکھی میں ترجمہ کرانے سے میں قاصر ہوں۔ اس کام پر بھی کائونٹی میں مَیں پانچ برس مامور رہا‘ پھر واپسی کا وقت ہو گیا۔ جب میں نے سلویا کو بتایا کہ میں واپس اپنے ملک جا رہا ہوں تو وہ کافی پریشان ہوئی۔ اس نے کہا کہ اگر تم چاہو تو میں کائونٹی میں اسی کام کیلئے تمہاری جاب کا انتظام کرا سکتی ہوں لیکن مجھے انکار کرنا پڑا؛ تاہم میں نے اپنے ایک دوست کو سلویا سے ملوایا جو میری جگہ مترجم کے فرائض انجام دے سکتا تھا۔ یہ داستان میں نے اس لیے بیان کی کہ مجھے وہاں رکنے اور گرین کارڈ لینے میں کوئی دشواری نہیں تھی۔ وہاں میرے سب دوست یہ سمجھتے تھے کہ شاید میں حب الوطنی کی جذبے سے سرشار ہو کر وطن واپس جا رہا ہوں اور کئی اب تک وہاں بھی اور یہاں بھی‘ یہی سمجھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ وجہ دینی اور سماجی تھی۔
میں جب امریکا پہنچا تھا تو بڑی بیٹی کی عمر چھ سال تھی اور پانچ برس بعد جب میرا کنٹریکٹ ختم ہوا تو اس کی عمر گیارہ برس ہو چکی تھی۔ امریکا کی شناخت اتنی طاقتور ہے کہ آپ بچوں کو اس کے اثر سے بچا ہی نہیں سکتے۔ بعض لوگ پاکستان آ کر اپنی بیٹی کی شادی کر کے بیٹی اور داماد کو امریکا لے جاتے تھے۔ بعض کی وہیں آپس میں شادیاں ہو جاتی تھیں لیکن اکثر صورتوں میں بچے اپنی مرضی ہی کرتے تھے۔ کسی مسلمان لڑکے نے کبھی غیر مسلم لڑکی سے شادی کی ہوتی تھی تو کسی مسلمان بچی نے غیر مسلم لڑکے سے سول میرج کی ہوتی تھی۔ اور بھی کئی قسم کی صورتحال درپیش آ جاتی تھی جس سے پیچیدگیاں پیدا ہوتی تھیں۔ البتہ ایک بات سب صورتوں میں تقریباً مشترک تھی کہ والدین بھلے دین سے قریب ہوں‘ بیشتر بچے دین سے دور ہو جاتے تھے۔ یہ ایک ایسا پہلو تھا جو میرے وہاں رکنے کی راہ میں حائل تھا۔ میں نے بہت سوچا مگر اس کا کوئی حل مجھے سجھائی نہیں دیا۔ پھر واپس آنے میں مجھے یہ سہولت تھی کہ میری نوکری یہاں موجود تھی کیونکہ میں ''سیکنڈمنٹ‘‘ پر گیا تھا۔مجھے پاکستان سے محبت سے انکار نہیں لیکن جو سچی بات ہے وہ یہی ہے کہ میں اپنے بچوں کو اپنے دین سے اور اپنے سماج سے دور رکھنا گوارا نہ کر سکا۔ میرا واشنگٹن میں اپنے دوستوں سے رابطہ رہتا ہے۔ جب سے نائن الیون کا واقعہ ہوا ہے‘ کسی نے بھی مجھے نہیں کہا کہ تم نے واپس جا کر غلطی کی‘ وگرنہ پہلے مجھے اکثر یہی سننا پڑتا تھا : یار تمہیں کیا پڑی تھی کہ امریکا چھوڑ کر پاکستان چلے گئے۔