محرم الحرام کے پہلے دس دنوں کے دوران ریڈیو پروگراموں میں موسیقی بند رکھنے کا فیصلہ ریڈیو پاکستان کے پہلے ڈائریکٹر جنرل ذوالفقار علی (زیڈ اے) بخاری نے کیا تھا۔ بخاری صاحب کو پروگراموں کے دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ موسیقی کے شعبے سے بھی خاص لگاؤ تھا۔ ان کو جب معلوم ہوا کہ سازندے محرم الحرام کے اولین دس دنوں میں سازوں کو ہاتھ نہیں لگاتے تو انہوں نے محسوس کیا کہ تمام مسلمان عشرۂ محرم کے دوران سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کو یاد کرتے ہیں اور ان دنوں کا خاص احترام کرتے ہیں‘ سو انہوں نے سوچا کہ ریڈیو پاکستان تاریخِ اسلام کے اس عظیم واقعے کی یاد میں اتنا تو کر ہی سکتا ہے کہ موسیقی نشر نہ کرے۔ ان کے اس فیصلے کی نہ صرف یہ کہ کوئی مخالفت نہیں ہوئی بلکہ اسے بہت سراہا گیا اور اسی فیصلے کے نتیجے میں ہمیں تحت اللفظ مرثیے بخاری صاحب کی آواز میں، ضیاء محی الدین کی آواز میں اور دیگر کئی مقبول فنکاروں اور صداکاروں کی آوازوں میں سننے کو ملے۔ چونکہ اس عشرے میں نغمے وغیرہ پیش ہو نہیں سکتے تھے لہٰذا تقریریں‘ لیکچرز اور سیمینار سننے کو ملتے جن میں واقعۂ کربلا کی یاد تازہ ہوتی تھی اور ان دنوں کے عمومی مزاج سے مناسبت بھی پیدا ہوتی تھی۔ شعراء کرام نوتصنیف مرثیے پیش کرتے تھے۔ نہج البلاغہ سے اقتباسات روزانہ نشر ہوتے تھے۔ محرم الحرام کی مجالس نشر ہوتی تھیں۔ سب سے اہم مجلس بڑا امام باڑا کھارا در کراچی سے براہِ راست دس محرم کو ''مجلسِ شامِ غریباں‘‘ کے عنوان سے پیش کی جاتی تھی جس سے علامہ رشید ترابی خطاب کرتے تھے اور وہ کمال کے مقرر تھے۔ یہ مجلس براہِ راست نشر ہوتی تھی۔ علامہ صاحب کو پہلے سے بتا دیا جاتا تھا کہ ریڈیو کے پاس اتنا وقت ہے‘ اس کے بعد خبریں نشر ہونا ہیں۔ علامہ رشید ترابی صاحب ہمیشہ متعین وقت سے تین چار منٹ پہلے ہی مجلس کو نقطۂ عروج پر لے جاتے پھر وہ آخری چند جملے بولتے کہ ادھر وقت ختم اور اُدھر مجلس ختم۔
ریڈیو پاکستان پر اب بھی ابتدائی دس دن میں کسی قسم کی موسیقی نشر نہیں ہوتی؛ تاہم پاکستان ٹیلی وژن پر بھی پروگراموں کی نوعیت تو یہی ہوتی تھی مگر موسیقی مکمل طور پر بند نہیں ہوتی تھی۔ البتہ عاشورہ پر یعنی نو اور دس محرم الحرام کو کسی قسم کی موسیقی نشر نہیں ہوتی تھی۔ آج کل نجی ٹی وی چینلز بھی اسی روایت پر کاربند ہیں۔
محرم الحرام میں جو نوحے پڑھے جاتے ہیں‘ ان میں سے بعض تو اس قدر مقبول ہو جاتے ہیں کہ بعد میں ان کی طرز کو گیتوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ کئی نعت خوانوں کو تو ہم دیکھتے ہیں کہ کئی مرتبہ فلمی گانوں کی دھن پر حمد و نعت پڑھتے ہیں مگر نوحہ خوانی کی ایک اپنی طرز ہوتی ہے۔ یہ روایت بہت قدیم ہے۔ بعض گھرانے ہوتے ہیں جو نوحہ خوانی ہی کے لیے معروف ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کی دھنیں زیادہ تر اوریجنل ہوتی ہیں، بلکہ ان کی دھنوں پر بنے مرثیے‘ نغمے بنائے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ بھارت کے معروف موسیقار نوشاد نے فلم ''بیجو باورا‘‘ کا یہ گانا ''بچپن کی محبت کو دل سے نہ جدا کرنا‘‘ ایک نوحے کی طرز پر ہی کمپوز کیا تھا۔ ریڈیو پر نوحہ اور سلام پڑھنے میں ریڈیو پاکستان کے ایک افسر ناصر جہاں نے بہت شہرت پائی۔ ان کی آواز میں نوحے''گھبرائے گی زینب‘‘ اور پھر ''سلام خاک نشینوں پہ سوگواروں کا‘‘ آج بھی مجلسِ شام غریباں کے بعد پیش ہوتے ہیں۔ جب تک وہ حیات رہے خود ٹیلی وژن اور ریڈیو پر ہر برس نئی ریکارڈنگ کراتے تھے۔ ان کے بعد ان کے ایک برخودار یہ ذمہ داری نبھاتے رہے۔
میرا بچپن لاہور میں گزرا ہے اور مجھے محرم الحرام کے جلوسوں میں جانا یاد ہے۔ ہم دوست بچپن میں محرم شریف کا باقاعدہ انتظار کیا کرتے تھے۔ ہم اکثر جلوسوں کے ساتھ ساتھ چلتے، راستے میں شربت کی سبیلیں ہوا کرتی تھیں‘ وہاں سے شربت پینا‘ ایک آدھ جگہ دودھ کی سبیل بھی لگتی تھی۔ وہاں ہم جلدی پہنچ جاتے تھے اور دودھ ختم ہونے سے پہلے مٹی کے کٹورے میں دودھ حاصل کر لیتے تھے۔ پھر کہیں حلیم اور نان بانٹے جاتے تھے کہیں کلچے کے اندر حلوہ رکھ کرتقسیم ہوتا تھا۔ یہ سب اہتمام صرف اہلِ تشیع نہیں کرتے تھے بلکہ اہلِ سنت بھی اس میں شامل ہوتے تھے‘ بلکہ سچ پوچھیں تو اس وقت شیعہ سنی کی تفریق تھی ہی نہیں۔ بعض افراد نے محرم کی سبیلوں کی منت مانی ہوتی تھی۔ اکثر ہم دس محرم کے جلوس کو کربلا گامے شاہ کے اندر تک چھوڑ کر آتے تھے۔ پھر ایوب خان کے دور میں ایک عجیب واقعہ ہوا۔ محرم الحرام کا مرکزی جلوس لاہور میں بھاٹی دروازے کے اندر سے گزر رہا تھا کہ وہاں کسی نے جلوس پر اینٹیں پھینک دیں۔ میں تو دوستوں کے ساتھ جلوس میں بہت پیچھے تھا لیکن یہ بات ایسے پھیلی کہ وہاں بھگدڑ مچ گئی۔ ہم تو گلیوں کے اندر سے ہوتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے مگر بعد میں پتا چلا کہ وہاں خاصا فساد ہو گیا تھا‘ گولی تک چل گئی تھی۔ بس وہ دن اور آج کا دن‘ محرم الحرام کا وہ ثقافتی حسن دوبارہ نہ پیدا ہو سکا۔
جب قیامِ پاکستان کی تحریک چل رہی تھی تو کہیں کوئی تفریق نہیں تھی۔ ''مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ‘‘یہ نعرہ تھا۔ اس کے تحت سب مسلمان مسلم لیگ میں آئے تھے۔ یہ یکجہتی بعد میں بھی قائم رہی۔ پاکستان میں تو اب باہمی یکجہتی سیاست کی نذر ہو گئی ہے۔ اب جو صورتِ حال ہے‘ وہ سب کے سامنے ہے مگر جب میں وائس آف امریکا کی اردو سروس کی ملازمت کے سلسلے میں واشنگٹن میں تھا وہاں میں نے عیسائیوں اور مسلمانوں کو اسی طرح زندگی گزارتے دیکھا کہ ایک کو دوسرے کے عقیدے یا نظریات سے کوئی خاص غرض نہیں تھی۔ یہ میں 1980ء کے عشرے کی بات کر رہا ہوں۔ چونکہ اس وقت پاکستان امریکا کے ساتھ مل کر افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف مجاہدین کا ساتھ دے رہا تھا اس لیے پاکستانیوں سے عام امریکی کافی انس رکھتے تھے۔ ان کا کھانا پینا کافی مختلف تھا اور وہ کبھی اس کو مسئلہ نہیں بناتے تھے۔ ہمارا کھانا بڑے شوق سے کھاتے تھے۔ کچھ لبرل قسم کے افراد ان کے 'ہم مشرب‘ بھی ہو جاتے تھے مگر جو اپنے عقیدے کی حدود میں رہتے تھے‘ ان کے ساتھ کسی قسم کا امتیازی سلوک نہیں ہوتا تھا۔ لیکن پھر اس یکجہتی میں دراڑ آ گئی‘ نائن الیون کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر گرنے کے بعد ا مریکا میں عیسائیوں اور مسلمانوں کے مابین دوری پیدا ہو گئی۔
کالج کے زمانے میں میرے ایک استاد کہا کرتے تھے کہ عقیدوں کا مختلف ہونا اچھی بات اس وقت تک رہتی ہے جب تک یاست اس میں داخل نہ ہو۔ ان کا موقف تھا کہ اگر آپ اپنے عقیدے پر عملدرآمد سے کسی دوسرے کو متاثر کر لیں تو آپ کی عاقبت سنور سکتی ہے۔ ایک امریکی عورت نے اپنے اسلام قبول کرنے کا واقعہ اس طرح بیان کیا تھا کہ وہ کالج میں دیکھتی تھی کہ اس کا ایک ہم جماعت لڑکا کبھی بھی نظر بھر کر کسی لڑکی کی طرف نہیں دیکھتا تھا۔ اس لڑکی نے کئی مرتبہ شرارت کر کے اس کو روکا اور کوشش کی وہ اس کی طرف دیکھے مگر کامیاب نہ ہو سکی۔ آخر اس نے لڑکے سے پوچھ لیا کہ تم کیوں نظریں جھکا کر رکھتے ہو۔ اس لڑکے نے اسی حالت میں جواب دیا کہ میرے دین نے مجھے یہی سکھایا ہے۔ ہدایت تو اللہ تعالیٰ دیتا ہے مگر اس لڑکی کے دل میں آئی کہ اس سے تفصیل معلوم کروں اس کے دین کی۔ اس کے بعد دین کی باتیں اس کے دل میں گھر کرتی گئیں اور اس لڑکی نے اسلام قبول کر لیا اور اسی لڑکے سے شادی کر لی۔ وہ ایک عرب لڑکا تھا۔ اس لڑکی نے بتایا کہ اب وہ اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ سعودی عرب میں رہتی ہے۔ آپ سوچیں کہ اگر مختلف نظریات والے افراد ایک دوسرے کے ساتھ پُرامن طریقے سے نہ رہ سکتے ہوں تو کسی کو بھی یہ موقع نہیں مل سکتا کہ وہ اپنے عمل سے کسی دوسرے کو اپنے قریب لا سکے۔