"ARC" (space) message & send to 7575

اقتدار کے کھیل ریڈیو کے آئینے میں

امریکا میں رہائش پذیر میرے ایک دوست کا کہنا ہے کہ وہاں اسلامو فوبیا کا زور ٹوٹتا دکھائی دے رہاہے۔ میں نے پوچھا کہ بھئی ذرا تفصیل سے بیان کرو کیونکہ نیو یارک میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر گرنے کے واقعے کے بعد سے تو ہم وہاں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے کافی مظاہر دیکھ چکے ہیں۔ میرے دوست نے کہا کہ وہ کوئی سوشل سائنٹسٹ تو نہیں مگر بطور امریکی شہری‘ اُس کا اندازہ ہے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں جو کورونا کی لہر آئی تھی اور کثرت سے امریکیوں کی اموات ہوئی تھیں تو عام امریکی کی نفرت صدر ٹرمپ کے کورونا کو چینی وائرس کہنے پر عوامی جمہوریہ چین کی طرف منتقل ہو گئی اور اب یوکرین پر روس کی فوجی کارروائی کے بعد امریکی روس کی طرف بھی نفرت کی نگاہ سے دیکھنے لگے ہیں۔ ان دو وجوہ کی بنیاد پر میرے دوست کی رائے تھی کہ اب اسلاموفوبیا کافی کم ہوگیا ہے۔ ختم بہرحال نہیں ہوا! یہ اگرچہ ایک عام پاکستانی نژاد امریکی کا اندازہ ہے لیکن موصوف کی بات دل کو لگتی ہے۔ ہم اپنے ہاں بھی دیکھ چکے ہیں کہ ماضی قریب میں بھارت کے ساتھ ثقافتی روابط بڑھ گئے تھے۔ لوگ آ جا رہے تھے۔ ہمارے فنکار بھارت میں کام کر رہے تھے۔ وہاں سے بھی لوگ یہاں آ رہے تھے۔ اس کے بعد پھر تلخی والا ماحول بن گیا اور جب سے مودی کی حکومت آئی ہے‘ اس نے تو پہلے پاکستان کے خلاف نفرت میں از حد اضافہ کیا اور جب مزید گنجائش نہ رہی تو بھارت کے مسلمان شہریوں کے خلاف نفرت کی ایسی مہم چلائی ہے کہ مسلمان آہستہ آہستہ دوسرے درجے کے شہری بن گئے ہیں۔ بڑے واقعات بہرحال صورتحال کو تبدیل کر دیتے ہیں‘ یہ ایک حقیقت ہے۔
یہ پس منظر میں نے اس غرض سے بیان کیا ہے کہ قاری کو اندازہ ہو جائے کہ حالات کے بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔ بس ایک واقعہ ہوتا ہے اور سیاہ سفید نظر آنا شروع ہو جاتا ہے اور سفید پر سیاہی پھیل جاتی ہے۔ اپنے ملک کی سیاست کا میں اس حوالے سے ذکر نہیں کروں گا کیونکہ خدشہ ہے کہ جب تک یہ کالم چھپے گا کوئی نہ کوئی تبدیلی ہو چکی ہوگی‘ اس لیے میں ماضی کی گاڑی پر اس محکمے کے حوالے سے مثالیں پیش کروں گا جس میں مَیں نے برسوں ملازمت کی؛ یعنی ریڈیو پاکستان۔
میں نے جب ملازمت شروع کی تو صدر ایوب خان کا آخری دور چل رہا تھا لیکن اُس وقت ہم یہ نہیں سوچ سکتے تھے کہ یہ آخری دور ہے۔ ترقیاتی کاموں کا عشرہ منایا جا رہا تھا۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں خصوصی دس فیصد اضافہ کیا گیا تھا جو ایک غیر معمولی بات تھی۔ آج کل تو ہر بجٹ میں تنخواہیں بڑھتی ہیں‘ اُس دور میں جو جس گریڈ میں بھرتی ہوتا تھا‘ اسی گریڈ کی تنخواہ پاتا رہتا تھا جب تک کہ پروموشن نہ ہو جائے۔ یہ ایک خاص اقدام تھا ایوب حکومت کا۔ ریڈیو پاکستان اس حوالے سے مختلف اضلاع میں اور زندگی کے مختلف شعبوں میں ہونے والی ترقی پر دستاویزی پروگرام پیش کر رہا تھا۔ پھر ایوب خان کے خلاف تحریک شروع ہو گئی۔ ریڈیو سرکاری ادارہ ہے‘ اس پر تحریک کی خبر آنے کا سوال ہی نہ تھا مگر حالات جس طرح تبدیل ہو رہے تھے‘ وہ صاف نظر آ رہے تھے۔ آخر ایک دن ایوب خان کی وہ تقریر نشر ہوئی جس میں وہ اقتدار سے الگ ہونے کی بات کر رہے تھے۔ یحییٰ خان کا مارشل لاء آیا تو صورتحال ایک رات میں تبدیل ہو گئی۔ موصوف نے قوم سے خطاب انگریزی میں کیا اور وہ راولپنڈی میں ریکارڈ ہوا تھا۔ نیشنل پک اپ کراچی ریڈیو سے ہوتا تھا لہٰذا ریڈیو کے جوائنٹ ڈی جی چودھری اقبال یحییٰ خان کی تقریر کی ٹیپ لے کر ایک چھوٹے جہاز میں کراچی پہنچے۔ وہاں ایک کمرے میں تقریر کا اردواور دوسرے کمرے میں بنگالی زبان میں ترجمہ ہوا۔ یہ دونوں تراجم بھی ریکارڈ کیے گئے۔ پھر پہلے انگریزی زبان اس کے بعد مغربی پاکستان کے ریڈیو سٹیشنوں نے اردو ترجمہ اور مشرقی پاکستان کے ریڈیو سٹیشنوں نے بنگلہ ترجمہ نشر کیا۔ ایوب دور ختم ہو چکا تھا اور جو کچھ ان کے دور سے منسوب تھا‘ پس منظر میں جا رہا تھا۔ ایوب خان ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو ریڈیو پر قوم سے خطاب کرتے تھے‘ وہ سلسلہ ختم ہوگیا عشرہ ٔ ترقی کے حوالے سے پروگرام یکدم ختم کر دیے گئے۔ اور پھر وہ پرآشوب دور شروع ہو گیا جو ملک کے دولخت ہونے پر ختم ہوا۔ یہ ضرور معلوم تھا کہ حالات وہاں بہت خراب ہیں۔ مغربی پاکستان کی سرحدوں پر بھی جنگ جاری تھی مگر امید یہ تھی کہ 65ء کی جنگ طرح فائر بندی ہو جائے گی اور پھر بات چیت ہوتی رہے گی مگر ...
دسمبر 71ء ہی کی ایک رات ذوالفقار علی بھٹو نے بطور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر راولپنڈی سے قوم سے طویل خطاب کیا تو عوامی دور کی گونج ہر طرف پھیل گئی۔دنوں میں سب کچھ تبدیل ہو گیا۔ یحییٰ خان تو ملک کو نیا آئین دے رہا تھا اور موصوف کے طے کردہ نئے آئین کا مسودہ ریڈیو پر قومی پروگرام میں پڑھ کر سنایا جا رہا تھا۔ اُس آئین کا بعد میں کسی نے ذکر تک نہ سنا۔ ریڈیو میں ہم لوگ ایوب خان کے دور سے یحییٰ خان کے دور میں منتقلی کے ابھی عادی بھی نہیں ہوئے تھے کہ بھٹو صاحب کا طوطی بولنے لگا۔ اب سب لوگ ''عوامی دور‘‘ میں جُت گئے۔ ریڈیو کے سینئر افسر سلیم گیلانی صاحب‘ جو بعد میں ڈائریکٹر جنرل بھی بنے‘ نے روشنی کے گیت کے عنوان سے اس دور کی پالیسیوں کے مطابق نغمات لکھوائے اور ریکارڈ کروائے۔ ''یہ فیصلہ ہے وطن کو سجا کے دم لیں گے‘‘ اس قسم کے گیت نشر ہوئے۔ پیپلز پارٹی کا ترانہ ''یہ اپنی پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ بھی ریکارڈ و نشر ہوا۔ نئے سٹیشن کھلے۔ بہاولپور کے عوام صوبہ مانگ رہے تھے‘ اُن کو ایک ریڈیو سٹیشن دے دیا۔ ہر طرف اصلاحات کا شور تھا کہ سات جنوری 1977ء کو بھٹو صاحب لاہور آئے اور علامہ اقبال کے مزار پر پھولوں کی چادر چڑھا کر اقبال کے یومِ ولادت کی سو سالہ تقریبات کا افتتاح کیا۔ جب وہ واپس جا رہے تھے تو لاہور کے ہوائی اڈے پر میڈیا کے ساتھ گفتگو میں اچانک سات مارچ کو قومی اسمبلی اور دس مارچ کو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کروانے کا اعلان کر کے سب کو حیران کر دیا۔ بس اس دن کے بعد عوامی حکومت کے دن گنے گئے۔ ظاہر ہے یہ اندازہ اُس وقت کسی کو بھی نہ ہو سکا تھا کہ انتخابات کا یہ اعلان بھٹو صاحب کے اقتدار کے خاتمے کا اعلان ہے۔ خود بھٹو صاحب تو کچھ زیادہ ہی پراعتماد تھے مگر جب تبدیلی آتی ہے تو سب کچھ لپیٹ کر لے جاتی ہے۔ پانچ جولائی 1977ء کو کہانی ختم ہو گئی۔
کالم طویل ہو رہا ہے‘ بات ضیاء الحق کے اقتدار کے حوالے سے ختم کرتا ہوں۔وہ گیارہ سالہ دور جب ختم ہونے کے قریب تھا تو کسی کو شبہ تک نہ تھا کہ یہ سب کچھ ماضی کا قصہ بننے والا ہے۔ ضیاء الحق کے‘ اپنی پسند کے وزیراعظم جونیجو نے جب جنیوا معاہدوں پر دستخط کیے تو ضیاء الحق سمیت کسی کو معلوم نہ تھا کہ موصوف کے اقتدار کی الٹی گنتی بڑی تیزی سے شروع ہو چکی ہے۔ اس کے بعد جب حالات بدلنے شروع ہوئے تو ضیاء الحق کا کوئلوں کی دلالی والا بیان بھی سامنے آیا۔ محمد خان جونیجو کی حکومت برطرف ہوئی‘ اس سے پہلے اوجڑی کیمپ والا واقعہ پیش آ چکا تھا۔ جیسا میں نے کہا کہ پھر بھی کسی کو پتا نہیں تھا کہ مردِ مومن‘ مردِ حق اب ہمارا ساتھ چھوڑنے والے ہیں۔ 17 اگست 1988ء کو جب یہ حادثہ پیش آتا ہے تو پھر اس کے ایسے دور رس نتائج نکلتے ہیں کہ پاکستان ایک سیاسی اکھاڑہ بن جاتا ہے۔ ایک حکومت بنتی ہے اور برطرف ہوتی ہے۔ پھر دوسری بنتی ہے اور برطرف ہوتی ہے۔ پہلے والی دوبارہ آ جاتی ہے۔ امریکہ کی کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد معیشت کو سنبھالنا مشکل ہو گیا تھا۔ کارگل کی مہم جوئی ہو چکی تھی جس سے پاک بھارت تعلقات میں بہتری کی امید بھی ختم ہو چکی تھی کہ اچانکہ جنرل پرویز مشرف نمودار ہوئے۔ موصوف کا اقتدار پر پکا ہاتھ نہیں پڑ رہا تھا کہ نائن الیون کا واقعہ ہو گیا۔ اُس واقعے نے سب کچھ بدل دیا۔ ریڈیو میں میری اس دور میں کچھ افسروں سے بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ اب تبدیلیوں کے ساتھ چل چل کر تھک چکے ہیں لیکن نوکری تو بہرحال کرنی پڑتی ہے۔ اب جب کوئی کہتا ہے کہ سرکاری ریڈیو اور ٹی وی کے پروگراموں میں وہ بات نہیں رہی تو میں لامحالہ سوچتا ہوں کہ آخر انسان کب تک ایک کام کو درست اور اسی کام کو اگلی حکومت میں غلط ثابت کرتا رہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں