ہماری معاشرتی حالت کیسی ہے‘ یہ ہم سب کو معلوم ہو۔ اتنی خراب ہے کہ ہم اس کا خیال آتے ہی کوشش کرتے ہیں کہ دھیان کسی اور طرف لگ جائے اور اس ناگفتہ بہ معاشرتی حالت کا سوچ کر جو بدمزگی پیدا ہوتی ہے‘ اس سے گریز ہی کر لیا جائے۔حقیقت سے آنکھیں چرانے کے اس عمل میں ہماری قوم بہت ترقی کرچکی ہے اور اب بڑی بڑی معاشرتی برائیوں کو بھی اس طرح ہضم کر لیاجاتا ہے کہ ہر جگہ ''اس سے تو نہیں بچا جا سکتا ‘‘کی ایک آواز سنائی دیتی ہے اور بس۔ معاشرت کو درست کرنے میں حکومت کا کردار بہت کم ہوتا ہے اور اس کی زیادہ ذمہ داری والدین کی ہوتی ہے کیونکہ بچوں کا پہلا مدرسہ تووالدین ہی ہوتے ہیں۔
والدین کو اُن کی اس ذمہ داری کا کیسے احساس دلایا جائے‘ یہ بنیادی نکتہ ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ والدین تو بچوں کو دنیا میں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں اور اس نصب العین کے حصول کے لیے وہ کسی بھی اخلاقی اصول کو روندنے اور معاشرت کے بنیادی تقاضوں سے پہلوتہی کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔
آج کل گلی محلوں میں جا بجا انگریزی میڈیم سکول کھلے ہوئے ہیں جبکہ ان بیشتر سکولوں میں ٹیچرز کی عملی قابلیت سب جانتے ہیں۔ والدین کو اس سے کوئی غرض نہیں‘ وہ صرف ان سکولوں کے باہر جو بورڈز آویزاں ہوتے ہیں‘ وہ دیکھتے ہیں۔ سٹوڈنٹ کا نام‘ 1100میں سے 1098 نمبر لیے۔ انعام میں موٹر سائیکل دی جائے گی۔ سٹوڈنٹ کا نام‘ 1100 میں سے 1096 نمبر لیے‘ تین ماہ بعدموٹر سائیکل دی جائے گی ۔ اسی طرح کوئی دس بارہ طالب علموں کے نام اور جتنے نمبر انہوں نے بورڈ کے امتحانات میں لیے ہوتے ہیں‘ وہ تحریر ہوتے ہیں۔ اس پبلسٹی کے زور پر وہ غریب لوگوں سے اچھی خاصی فیس وصول کرتے ہیں جبکہ سکول میں سہولتوں کا یہ عالم ہوتا ہے کہ پینے کا صاف پانی تک نہیں ہوتا۔ باتھ روم تعفن زدہ ہوتے ہیں۔ ٹرانسپورٹ کا کوئی انتظام نہیں ہوتا۔ لوگ خود موٹر سائیکلوں پر بچوں کو لاتے لیجاتے ہیں۔ کمپیوٹر اور سائنس لیب کی جو حالت ہوتی ہے‘ وہ نہ ہونے کے برابر ہی کہلائیں گی۔ یہاں سے فارغ التحصیل بچوں کی کُل علمی قابلیت سوالوں کے اُن جوابوں تک محدود ہوتی ہے جن کا اُن کو رٹا لگوایا جاتا ہے۔
میرے گھرمیں سودا سلف لانے کے لیے شام کو دو گھنٹے کے لیے ایک شخص آتا ہے۔ وہ سارا دن ایک باغ میں مالی کی ڈیوٹی کرتا ہے۔ گھر کا خرچ چلانے کے لیے وہ شام کو ہمارے گھر کام کرتا ہے۔ اس کا کام صرف اتنا ہے کہ صحن میں جھاڑو وغیرہ دے دیا۔ سائیکل پکڑی اور دہی‘ دودھ لا دیا۔ مغرب کے وقت وہ اپنے گھر روانہ ہو جاتا ہے۔ اس کو مالی کے طور پر کام کرنے کے لگ بھگ اٹھارہ ہزار روپے ماہوار ملتے ہیں۔ وہ ''کچا‘‘ ملازم ہے اور گزشتہ پندرہ برسوں سے اب تک ''پکا‘‘ نہیں ہو سکا۔ سات ہزار ماہانہ ہم دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ اتوار کے روز ایک گھر میں جا کر اُن کی گاڑیاں دھوتا ہے۔ وہاں سے بھی دو‘ تین ہزار روپے اسے مل جاتے ہوں گے۔ یعنی کل ملا کر اس کی کُل ماہانہ آمدن پچیس‘ تیس ہزار روپے ہو گی۔ اُس کے پانچ بچے ہیں۔ گھر اس کا اس باغ سے‘ جہاں وہ نوکری کرتا ہے‘ خاصا دور ہے۔ اس کے گھر کے نزدیک ایک سرکاری سکول موجود ہے مگر اپنے مالی حالات کے باوجود اس نے اپنے بچوں کو محلے کے ایک نام نہاد انگلش میڈیم سکول میں داخل کرا رکھا ہے اور اکثر اسی وجہ سے مقروض بھی رہتا ہے۔ آئے دن کوئی نہ کوئی مسئلہ لے کر آ جاتا ہے اور ہمیں مجبوراً کچھ اضافی رقم دینا پڑتی ہے۔ میں نے اُس کو کئی مرتبہ سمجھایا ہے کہ تم بچوں کو ایسی تعلیم نہیں دلوا سکتے جس سے اُن کو کوئی اچھی نوکری مل سکے۔ نوکری تو ویسے ہی آج کل ملنا محال ہے۔ بے روزگاری عروج پر ہے۔ اس لیے اپنے بچوں کو کوئی ہنر سکھانے کااہتمام کرو۔ میری باتیں تو وہ سن لیتاہے مگر کرتا وہی کچھ ہے جو اس کے اپنے من میں ہو یا شاید وہ جو اس کی بیوی کہتی ہے، یا شاید کوئی اور وجہ ہو۔
اس کے بڑے بیٹے نے جب میٹرک کیا تو میں نے کہا کہ میں اُس کو کہیں سیلز مین لگوا دیتا ہوں‘ یہ کام بھی سیکھ جائے گا اور تنخواہ بھی گھر میں لائے گا۔یہ سن کر وہ خاموش رہا۔ پھر ایک ہفتے بعد پتا چلا کہ اس نے بچے کو ایک کالج میں داخل کرا دیا ہے۔ میٹرک میں نمبر بھی اس بچے کے زیادہ نہیں تھے۔ شاید سیکنڈ ڈویژن آئی تھی مگر اس غربت کے عالم میں بھی اس نے بچوں کو کوئی ہنر سکھانے کے بجائے روایتی تعلیمی اداروں میں بھیجنا ضروری سمجھا۔ خیر‘ میں اس کو مجبور تو نہیں کر سکتا تھا بلکہ جہاں میں نے اُس کے بیٹے کو سیلز مین رکھوانے کی بات کی تھی‘ وہاں بھی معذرت کرنا پڑی کیونکہ انہوں نے میری وجہ سے تین ہفتے تک نیا سیلز مین نہیں رکھا تھا۔
دو برس جو اس لڑکے کے کالج میں گزرے‘ اس میں فیسوں اور کتابوں کے علاوہ اس کو وہ فون بھی لے کر دینا پڑا جس کے ذریعے آن لائن تعلیم دی جاتی ہے کیونکہ کورونا کے باعث تعلیم کا سلسلہ آن لائن شروع ہو گیا تھا۔ اس کے علاوہ گھرمیں وائی فائی انٹرنیٹ بھی لگوانا پڑا۔ سوچیں یہ سب خرچ اور اس کی آمدن۔ ہر وقت کا اس کا رونا دھونا دیکھ کر میری بڑی بیٹی اور کچھ دوسرے لوگ ‘ جو مالی طور پر قدرے مستحکم تھے‘ اس کی کچھ مالی مدد کرنا شروع ہو گئے۔ اسی طرح اس لڑکے نے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرلیا مگر نمبر وہی میٹرک والے ہی آئے تھے یعنی سیکنڈ ڈویژن۔
آج کل ایک ہوا چلی ہوئی ہے یو ٹیوب کے ذریعے دولت کمانے کی۔ لاکھوں کے حساب سے لوگ کوشش کرتے ہیں لیکن کامیابی چند افراد ہی کو نصیب ہوتی ہے۔ یہی شوق مالی کے اس بیٹے میں بھی پیدا ہو گیا۔ میں نے مالی کو لاکھ سمجھایا کہ اب آگے تو تم اپنے بچے کو پڑھا نہیں سکتا‘ بہتر ہو گا کہ اس کو ڈرائیونگ سکھا دو۔ دو‘ تین برسوں میں پیسے جمع کر کے کوئی پرانی گاڑی خرید لے گا اور پھر آمدن بڑھ جائے گی۔ مگر یہ بات بھی اس انٹرمیڈیٹ پاس کی شان کے مطابق نہ نکلی۔ چند روز ہوئے مالی صاحب مجھ سے کہنے لگے کہ آپ سے ایک بات کرنی ہے۔ میں نے کہا: بولو۔ کہنے لگے: میرے بیٹے نے کہاہے کہ اسے ایک لیپ ٹاپ اور ایک اینڈرائڈ فون مل جائے تو وہ لاکھوں روپے کما سکتا ہے۔ اس مالی کو نہ تو یہ معلوم ہے کہ لیپ ٹاپ کتنے کا آتا ہے اور نہ ہی فون کا پتا تھا کہ کون سا چاہیے اور وہ کتنے کا آتا ہے، لیکن وہ بات میرے ساتھ ایسے کر رہا تھا کہ جیسے ان چیزوں سے اس کے بیٹے کو شاید الہ دین کا چراغ مل جائے گا۔ میں نے بڑی تفصیل سے اس کو سمجھایا کہ اس طرح لاکھوں روپے نہیں کمائے جا سکتے۔ وہ میری بات سن کر حسبِ معمول خاموش ہو گیا۔ اگلے دن وہ آیا تو میرے سے پوچھنے لگا کہ بینک سے قرضہ کیسا ملتا ہے۔میں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم‘ میرا تو بینک اکاؤنٹ بھی انٹرسٹ والا نہیں ہے۔ نہ میں نے کبھی قرضہ لیا ہے۔ میں نے اسے سمجھانے کی کوشش تو کی مگر معلوم ہے کہ کرے گا وہ اپنی مرضی کی۔ دیکھیں کہ اب آگے کیا ہو۔
اس پوری کہانی میں مَیں نے آج کل کی اپنی معاشرت کے ایک فیصد حصے کی ایک جھلک پیش کی ہے۔ یہ کہانی آپ کو تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ ہر جگہ ملے گی۔ لوگوں کی زندگی کا اس وقت ایک ہی مقصد رہ گیا ہے کہ پیسہ کیسے بنایا جائے۔ نہ تقدیر پر ایمان‘ نہ محنت کی برکت کا معلوم۔ نہ یہ پتا کہ ترقی کی سیڑھیاں ہوتی ہیں‘ جنہیں بتدریج چڑھنا پڑتا ہے‘ کوئی بھی دسویں سیڑھی پر براہِ راست قدم نہیں رکھ سکتا۔ مرحلہ وار بندہ اوپر جاتا ہے۔ بس سن لیا کہ فلاں آدمی کے بیٹے نے یو ٹیوب سے پانچ‘ چھ لاکھ کمائے ہیں تو سب لگ گئے اسی طرف۔
سیاست میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ تو آپ روز دیکھتے ہیں لیکن زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی مالی جیسی کہانیاں ہی چل رہی ہیں۔ ہمارا نظام کیا ہے؟ اسلامی ہے یا سرمایہ دارانہ ہے؟ یا پھر کوئی نظام سرے سے ہے ہی نہیں؟ بس ایک کنفیوژن میں سب مبتلا ہیں۔ کتنے لوگ ہوں گے ہمارے ملک میں جو بچے کی سکول کی فیس ایک لاکھ روپے دے سکتے ہیں۔ یقینا انتہائی کم تعداد ہے۔ بس یہی بچے ہیں جن کو‘ اگر وہ ملک سے باہر نہ بھی جائیں تو‘ یہاں کوئی ڈھنگ کا کام مل سکتاہے کیونکہ وہ انگریزی فرفربول سکتے ہیں۔ قابلیت اگرچہ ان کی بھی محدود ہوتی ہے۔ گوگل سرچ کے سہارے چلتے ہیں۔ سی ایس ایس کے امتحانات میں چونکہ یہ سہولت نہیں ہوتی‘ اس لیے نتائج دیکھ لیں۔ ہزاروں‘ لاکھوں کے حساب سے بچے امتحان میں بیٹھتے ہیں۔ بمشکل چند سو پاس ہو پاتے ہیں۔ جو یہ امتحان پاس کر کے عہدوں پر تعینات ہوتے ہیں وہ بھی زیادہ تر سرکاری خط و کتابت کے لیے اپنے ماتحتوں یا ریکارڈ پر موجود خط و کتابت کے سہارے چلتے ہیں۔ اس صورتحال کو سوشل میڈیا کے بے لگام ہونے نے مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ اس سمت میں ہماری معاشرت بغیر کسی منزل کے آگے بڑھتی رہی ہے اور عالم اب یہ ہے کہ مستقبل کے بارے میں سوچنے سے بھی خوف آتاہے۔