"ARC" (space) message & send to 7575

ریڈیو کے میڈیم کی اہمیت

پوری دنیا میں الیکٹرانک میڈیا کے حوالے سے ریڈیو کے کردار کی اہمیت اس حد تک ہے کہ بعض ممالک میں ٹیلی وژن چینلز اشتہارات کے ذریعے جتنی کمائی کرتے ہیں‘ اس کے تیس‘ چالیس فیصد کے قریب اشتہارات ریڈیو کو بھی مل جاتے ہیں۔ ترقی پذیر ملکوں میں اکثر اس میڈیم کو کسی حد تک نظر انداز کیا جاتا ہے اور پاکستان میں تو ایسا لگتا ہے کہ اربابِ بست و کشاد ریڈیو کو ایک ''لائبلٹی‘‘ یعنی بوجھ سمجھتے ہیں۔ ریڈیو ملازمین کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے‘ اس بات سے سمجھ لیں کہ گزشتہ دنوں ملازمین کو بقرہ عید سے پہلے اپنی پنشن وزیراعظم شہباز شریف کے نوٹس لینے پر ہی مل پائی تھی۔
اس وقت پورے ملک میں سیلاب آیا ہوا ہے اور اس نے ملک بھر میں تباہی مچا دی ہے۔ بہت سے علاقوں سے زمینی رابطہ کٹ چکا ہے۔ کئی شاہراہیں اور رابطہ پُل سیلاب میں بہہ چکے ہیں۔ لوگ کھلے آسمان تلے حکومتی امداد کے منتظر ہیں۔ ایسے میں ریڈیو ہی وہ واحد میڈیم ہے جو تقریباً سبھی سیلاب متاثرین تک رسائی رکھتا ہے۔ اس میڈیم کے ذریعے سیلاب زدگان تک ضروری معلومات پہنچ بھی رہی ہیں۔ فلاحی ادارے ہوں، محکمہ موسمیات ہو یا پاک فوج‘ تقریباً سبھی قومی اداروں کی طرف سے ریڈیو کو بہتر انداز میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ قدرت کی طرف سے یہ بھی ایک طرح کی یاد دہانی ہے کہ جس میڈیم کو حکومت مسلسل نظر انداز کرتی چلی آ رہی ہے‘ وہی اس مصیبت میں سب سے زیادہ کام آ رہا ہے۔ بلوچستان جیسے صوبے میں‘ جہاں ایک گاؤں کا دوسرے گاؤں سے فاصلہ بعض اوقات سو میل بھی ہوتا ہے‘ ریڈیو پاکستان خضدار اور ریڈیو پاکستان تربت کی نشریات مسلسل پہنچ رہی ہیں۔ یہ مقامی ریڈیو سٹیشن ہیں اور ان کے سٹاف کو وہاں کے دیہات کے نام بھی معلوم ہیں اور جب کوئی وارننگ آتی ہے تو یہ بہتر طور پر جان سکتے ہیں کہ کون سا علاقہ خطرے کا زیادہ شکار ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ قومی نشریاتی رابطے پر عمومی ہدایات بھی نشر ہوتی ہیں۔
اس وقت ریڈیو جو کردار ادا کر رہا ہے‘وزیراعظم پاکستان شہباز شریف اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب صاحبہ کو وہ بھولنا نہیں چاہیے کیونکہ ریڈیو مشکل وقت میں کام آنے والا دوست ہے۔ اس ادارے کی فنڈنگ اس کی ضروریات سے بہت کم ہے۔ اس وقت اس ادارے کے لاتعداد ریٹائرڈ ملازمین ایسے ہیں جن کو پنشن اور کمیوٹیشن نہیں مل سکی کیونکہ وزارتِ خزانہ توقع رکھتی ہے کہ ریڈیو خود کما کر یہ اخراجات پورے کرے۔ یہ ایک انتہائی غیر منطقی دلیل ہے۔ ایسے محکمے سے جو ہماری ثقافت کو محفوظ رکھے ہوئے ہے‘ جو ہماری روایات کا امین ہے اور پاکستان کی صوتی تاریخ کو محفوظ رکھے ہوئے ہے‘ وہ بھلا آج کل کے کمرشل دور میں کیسے کما سکتا ہے جبکہ ریڈیو پر اس کام کی اجازت نہیں ہے۔ نجی میڈیا کو اس حوالے سے کھلی چھوٹ ہوتی ہے کہ وہ سیاسی مباحثے کرائے اور سامعین کو ان کا عادی بنا کر ریونیو کمائے۔ یہ کام نجی میڈیا ہی کے لیے موزوں ہے کیونکہ یہ اب ہمارے کلچر کا ایک حصہ بن چکا ہے۔ مگرریڈیو کی شناخت بطور ایک سیریس میڈیم کے‘ ہمارے کلچر کا بھی ایک حصہ بن چکی ہے۔ اس کا خیال رکھنا حکومت کا کام ہے‘ نجی شعبے کا نہیں۔ پینسٹھ کی جنگ میں ریڈیو نے جو کردار ادا کیا تھا‘ اس کے سبب سینئر عسکری افسران بھی یہ کہتے تھے کہ ریڈیو ہمارا ہی ایک حصہ ہے‘ یہ جنگ میں ہمارا بازو ہے۔
ریڈیو کے بارے میں بہت کم معلومات ہی منظرِ عام پر آ پاتی ہیں اور یہ باور کیا جاتا ہے کہ شاید جدید ٹیکنالوجی سے یہ میڈیم پورا فائدہ نہیں اٹھا رہا۔ ایسا بالکل نہیں ہے۔ آواز کا خاصا بڑا خزانہ اس محکمے کے پاس موجود ہے جس کو ڈیجی ٹائز (Digitize) کرنے کا عمل جاری ہے۔ فیس بک پر لوگ ریڈیو کے پیچز پر اپنی پسند کی موسیقی سن سکتے ہیں۔ اب جو نئے ڈی جی آئے ہیں انہوں نے ایک APP لانچ کی ہے جس کو مفت ڈاؤن لوڈ کیا جا سکتا ہے۔ اس ایپ کے ذریعے آپ صوت القرآن، کرنٹ افیئرز، ورلڈ سروس، ایکسٹرنل سروس سمیت بائیس کے قریب ایف ایم ریڈیو چینلز سن سکتے ہیں۔
ماضی میں سرکاری سطح پر بے اعتنائی سے فنڈز میں جو کمی ہوئی‘ اس کے نتیجے میں ریڈیو نے بہت کچھ کھو دیا ہے۔ ریڈیو پاکستان لاہور کے سنٹرل پروڈکشن یونٹ میں ایک نیشنل آرکسٹرا ہوتا تھا جس میں ملک کے بہترین سازندے باقاعدہ ملازم ہوا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ سرفراز آغا نامی ایک افسر آرکسٹرا منیجر ہوا کرتے تھے۔ قومی تقریبات کے موقع پر اس آرکسٹرا کی ڈیوٹی لگتی تھی اور یہ وہاں پہنچ کر اپنے فن سے سامعین کو از حد متاثر کرتا تھا۔ پھر سنٹرل پروڈکشن یونٹ کو فنڈز کی کمی کا شکار کر دیا گیا اس لیے جو سازندہ ریٹائر ہوتا‘ اس کی جگہ نہ کوئی نیا شخص بھرتی کیا جاتا اور نہ ہی اس کی مدتِ ملازمت میں توسیع کی جاتی۔ اس طرح چند برسوں میں یہ آرکسٹرا صرف چار‘ پانچ سازندوں پر مشتمل ہو کر رہ گیا جس کو ایک حکم کے ذریعے لاہور ریڈیو کے میوزک سیکشن میں ٹرانسفر کر دیا گیا اور یوں یہ آرکسٹرا‘ جو واقعتاً ایک قومی اثاثہ تھا‘ ختم ہو گیا۔ اس کے بعد سنٹرل پروڈکشن یونٹس ہی ختم کر دیے گئے۔
میں نے اپنے گزشتہ کالم میں ریڈیو کے میوزک ریسرچ سیل کا احوال لکھا تو ریڈیو کے نئے ڈی جی صاحب نے رابطہ کر کے یقین دلایا کہ وہ اس سیل کی شان‘ جس قدر ممکن ہو‘ بحال کریں گے۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ لاہور کے سنٹرل پروڈکشن یونٹ کو بھی وہ از سر نو ''ریوائیو‘‘ کر رہے ہیں۔ میرے لیے یہ باتیں خوشگوار حیرت کا باعث تھیں؛ تاہم جب دھیان اس طرف جاتا ہے کہ مالی لحاظ سے اس محکمے کی وزارتِ خزانہ میں شنوائی نہیں ہو پاتی تو خوف آتا ہے کہ یہ منصوبہ بندی‘ منصوبہ بندی ہی کے مرحلے تک محدود ہو کر نہ رہ جائے کیونکہ ریڈیو کا ماضی مالی وسائل کے لحاظ سے المناک رہا ہے۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس کا موازنہ ٹی وی سے کیا جاتا ہے۔ حالانکہ دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا۔ پبلسٹی کے لیے ہمارے جیسے ملکوں میں ٹی وی ہی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک زمانے میں ریڈیو کی لائسنس فیس ہوتی تھی‘ وہ بھی ختم کر دی گئی ہے جبکہ سرکاری ٹی وی کی اعانت کے لیے بجلی کے بلوں کے ذریعے رقم وصول کی جاتی ہے۔ ٹی وی بھی ایک قومی میڈیم ہے اور پاکستان ٹیلی وژن چونکہ قومی ثقافت کا اسی طرح امین ہے جس طرح ریڈیو پاکستان ہے تو اس کی سرپرستی بالکل جائز ہے مگر ریڈیو کی بھی اس سلسلے میں شنوائی ہونی چاہیے۔
اب سیلاب کی اس آفت کے دوران قدرت نے کئی باتوں کی یاد دہانی کرائی ہے جن میں ایک چھوٹی سی یاد دہانی یہ بھی ہے کہ ریڈیو وقت پر کام آنے والا میڈیم ہے‘ اس کو نظر انداز مت کریں۔ اگر اس ادارے کو مناسب مالی وسائل ملتے رہیں تو چند برسوں میں پاکستان کے لوگوں کو ریڈیو ایسے ایسے نادر پروگرام‘ دلچسپ ڈرامے اور وہ موسیقی سنوائے گا جو کسی اور میڈیم پر میسر نہیں۔ ریڈیو کی سنٹرل لائبریری میں ہزاروں کی تعداد میں ''تھیٹر نغمے‘‘ بھی موجود ہیں۔ یہ پچھلی صدی کے اوائل میں برصغیر کے تھیٹروں میں گائے جاتے تھے۔ بہت سے فلمی گانے انہی نغموں کی دھن پر بنے ہوئے ہیں۔ ریڈیو اگر ایک پروجیکٹ کے تحت ان نغموں کو نئے سازوں اور فنکاروں کے ساتھ ریکارڈ کر لے تو یہی نغمے سامعین کے لیے موسیقی کی ایک نادر ورائٹی ثابت ہوں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں