"ARC" (space) message & send to 7575

بھلے وقتوں میں کراچی کا ایک سفر

سکول کے زمانے کے میرے ایک دوست مظہرالحق تھے جن سے اب ملنا جلنا نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے لیکن جب ہم سکول میں پڑھتے تھے تو ایک طرح سے دن رات کا ساتھ تھا۔ ہر جگہ اکٹھے گھومنا پھرنا‘ ایک ہی طرح کی کتابیں پڑھنا‘ مطلب جو کام کرنا اکٹھے کرنا۔ پھر کالج بھی ساتھ ہی گئے۔ اُس دور میں ایک روز ہم نے پلان بنایا کہ کراچی دیکھنا چاہیے۔ سمندر دیکھنے کی خواہش شدید تھی۔ ہم دونوں اس وقت سیکنڈ ایئر میں پڑھتے تھے۔ منصوبہ یہ تھا کہ سب خرچے بند‘ پیسے جوڑو اور جب امتحانات کے بعد چھٹیاں ہوں تو اُن میں کراچی جایا جائے۔ سب سے پہلے ہم یہاں لاہور میں قائم یوتھ ہاسٹلز ایسوسی ایشن کے ممبر بنے۔ ہمارے تصویر والے کارڈ کا فائدہ یہ ہونا تھا کہ ہمیں کراچی میں ایک روپیہ روزانہ پر امین ہاؤس میں ایک بستر مل جانا تھا۔ چونکہ کراچی میں ہمارا کوئی عزیز‘ رشتے دار یا جاننے والا نہیں رہتا تھااس لیے رہائش کا بندوبست سب سے پہلے کرنا تھا۔ اس دور میں امین ہاؤس کا یوتھ ہاسٹلز ایسوسی ایشن کے ساتھ ایک دوسرے کے ممبران کو سستی رہائش فراہم کرنے کا معاہدہ تھا۔ اگرچہ ہم دونوں کے گھر والے اس دورے کے مخالف تھے لیکن ہم دونوں کا کہنا تھا کہ ہم نے خود پیسے جمع کیے ہیں۔ کئی مہینے منہ باندھ کر رکھا‘ کوئی فلم تک نہیں دیکھی لہٰذا ہم لوگوں کو گھر والے روکنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اس کے بعد ہم نے اپنا طالب علمی کا شناختی کارڈ لے کر پاکستان ریلوے سے پی ٹی او بنوایا۔ پتا نہیں اب یہ سلسلہ ہے کہ نہیں مگر اُس زمانے میں طالب علموں کو آدھی قیمت پر ریلوے کے ٹکٹ کی سہولت میسر ہوتی تھی اگر وہ پہلے درخواست دے کر ''پی ٹی او‘‘ حاصل کر لیں۔ مجھے تو اب یہ بھی نہیں یاد کہ پی ٹی او کن الفاظ کا مخفف تھا۔
خیر ‘ہم نے پی ٹی او کی مدد سے عوامی ایکسپریس کا ٹکٹ لیا اور امتحانات کے بعد چھٹیاں شروع ہوتے ہی تھوڑا بہت سامان لے کر ٹرین میں سوار ہو گئے۔ گھر والوں نے روانگی کے وقت کچھ رقم آخر کار ہم دونوں کو دے ہی دی۔ ہم دونوں لگ بھگ اٹھارہ برس کے تھے‘ تھکن وغیرہ ہمیں کم ہی ہوتی تھی۔ ٹرین کے سفر میں سونے کے لیے جومخصوص برتھ تھی‘ ہمارے پی ٹی او میںاُس کی سہولت نہیں تھی۔ جب ٹرین نے لاہور سے سفر شروع کیا تو ڈبے میں ہمارے بیٹھنے کی جگہ بھی نہیں تھی۔ ہم کھڑے ہو گئے اس امید پر کہ آگے کے سٹیشن پر کوئی اترے گا تو شاید ہمیں سیٹ مل جائے۔ گاڑی جب ساہیوال جا کر رکی تو دو‘ تین سیٹیں خالی ہو گئیں۔ کافی لوگ کھڑے ہوئے تھے مگر مظہرالحق کاایک نشست پر قبضہ ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد ڈبے کے باتھ روم سے ایک شخص برآمد ہوا۔ اُس نے میرے دوست کو بازو سے پکڑ کر کھینچا اور خود سیٹ پر بیٹھ گیا۔ وہ باڈی بلڈر قسم کا شخص تھا۔ ہمیں اس کو کچھ کہنے کی جرأت ہی نہ ہو سکی‘ نہ ہی ٹرین میں کسی دوسری سواری نے احتجاج کیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ شخص بولا: خانیوال سٹیشن پر کافی لوگ اتر جائیں گے‘ پھر بیٹھ جانا۔ میرے دوست کو اورمجھے غصہ تو بہت آیا مگر وہ کیا کہتے ہیں ''قہرِ درویش برجانِ درویش‘‘ والا معاملہ تھا۔ اُس زمانے میں ہم لکھنے کے لیے فائونٹین پین استعمال کرتے تھے جس میں سیاہی بھری ہوتی تھی۔ میرے دوست نے اپنا پین نکالا اس کا ڈھکن کھولا اور سیٹ چھیننے والے شخص کی قمیص کا جو حصہ باہر کو لٹکا ہوا تھا‘ اس پر پین کی سیاہی پھینک کر اپنا غصہ ٹھنڈا کیا۔
اُس شخص کا تجربہ تھا یا اُس کا کوئی اندازہ‘ خانیوال پر واقعی لگ بھگ آدھی ٹرین خالی ہو گئی۔ ہم نے سکھ کا سانس لیا کہ نشستیں مل گئی ہیں۔ تھکے ہم پھر بھی نہیں تھے۔ یہ عجیب عمر ہوتی ہے۔ کوئی چیز ذہن پر سوار ہو جائے تو باقی کسی بات کا ہوش نہیں رہتا۔ خیر روہڑی کے سٹیشن پر ہم لوگوں نے سستا ترین کا کھانا کھایا۔ وہیں پر‘ایک مولوی صاحب گاڑی میں آئے اور کچھ کتابیں بانٹنے لگے۔ ایک ہی کتاب کی کاپیاں تھیں جو گندے سے کاغذ پر چھپی ہوئی تھی۔ اب ہمیں سخت نیند آئی ہوئی تھی مگر ابھی تک ہم سیٹ پر اونگھ ہی رہے تھے۔ روہڑی سٹیشن پر سونے والی کافی برتھیں بھی خالی ہو گئیں سو ہم اُن پر دراز ہو کر سو گئے اور پھر کراچی سٹیشن پر جا کر جاگے۔ جاگے کیا‘ مسافروں نے ہمیں جگایا۔ ہم نے اپنا سامان اٹھایا۔ ہم دونوں کے پاس مختصر سے بیگز تھے۔ ایک ہاتھ میں اپنا بیگ اور دوسرے میں وہ مفت میں ملی ہوئی کتاب پکڑے ہم سٹیشن سے باہر آئے۔ وہاں سے رکشہ لے کر امین ہاؤس تک جانا ہمارے نزدیک فضول خرچی تھی کیونکہ ہمارا پندرہ دن رہنے کا پروگرام تھا۔ گھومنا پھرنا تھا‘ کھانا پینا تھا۔ پھر امین ہاؤس کو بھی فی کس پندرہ روپے دینے تھے۔ امین ہاؤس ریلوے سٹیشن سے کس طرح پہنچا جا سکتا تھا‘ اُس کی ریسرچ ہم یوتھ ہاسٹلز کے دفتر سے کر کے نکلے تھے۔ ہم پیدل ہی روانہ ہو گئے۔ امین ہاؤس غالباً نیو کوئینز روڈ پر واقع تھا۔ پہلے ہمیں پاکستان انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کارپوریشن کی بہت اونچی عمارت تک پہنچنا تھا۔ وہاں ایک پل سے گزر کر امین ہاؤس والی سڑک پکڑنی تھی۔ کوئی ڈیڑھ گھنٹہ چلنے کے بعد آخرِ کار ہم امین ہاؤس پہنچ گئے۔ بہت خوبصورت ایک کھلا سا ہال تھا جس میں بارہ کے قریب بستر لگے ہوئے تھے۔ لاہور کی جون کی گرمی کے مقابلے میں وہاں سمندری ہوا بہت لطف دے رہی تھی۔ ہم بغیر کچھ کھائے پیے ہی سو گئے کیونکہ جب ہم پہنچے تھے تو شام ہو چکی تھی‘ پھر وہاں ضروری کارروائی‘ جس میں رجسٹر میں اندراج اور پندرہ روپے ایڈوانس جمع کرانا بھی شامل تھا‘ میں گھنٹہ بھر لگ گیا۔ جب ہم بستروں تک پہنچے تو رات شروع ہو چکی تھی۔ تھکاوٹ کے باعث ہم لیٹتے ہی سو گئے۔ اگلی صبح ہم جلدہی اُٹھ گئے حالانکہ لاہورمیں دیر تک سونے کے عادی تھے۔ وہاں ہم نے جو ناشتہ کیا‘ جب اس کا بل آیا تو وہ ہمارے بجٹ کے حساب سے زیادہ تھا‘ اس لیے فیصلہ کیا کہ کل سے ناشتہ بھی باہر کہیں کیا کریں گے۔ ہمارے علاوہ وہاں ایک فرانسیسی سیاح بھی ٹھہرا ہوا تھا۔ اُس کا نام تھا Jean pierre (ژاں پی ایخ) تھا۔ اس کو بھی ہماری طرح کم ہی انگریزی آتی تھی‘ اس لیے جلد دوستی ہو گئی اور ہم ساتھ میں گھومنے پھرنے لگے۔
وہ فرانسیسی پوری دنیا کے دورے پر نکلا ہوا تھا اور کافی عرصے بعد پاکستان پہنچ پایا تھا۔ سب سے پہلے ہم نے سمندر کا رخ کیا۔ پیدل چلے‘ پھر ٹرام میں بیٹھے اور جہاں سے کلفٹن کی بس ملتی تھی‘ وہاںاترے۔ پھر بس میں بیٹھے اور سمندر تک پہنچ گئے۔ پہلا نظارہ جو سمندر کا کیا وہ مجھے آج تک نہیں بھولا۔ اتنا پانی ہم نے صرف تصویروں میں دیکھ رکھا تھا مگر اصل میں دیکھنا بات ہی اور تھی۔ وہاں سیپیوں سے بنے زیورات بک رہے تھے۔ کچھ سستے والے ہم نے بھی خریدے۔ وہ فرانسیسی کچھ نہیں خریدتا تھا۔ اس کے پاس ایک کیمرہ تھا۔ وہ بس تصویریں لیتا رہتا تھا اور ہم سے سوال کرتا رہتا تھا کہ یہ لوگ کون ہیں‘ وغیرہ وغیرہ، ہم ان لوگوں سے پوچھ کر اسے بتا دیتے تھے۔
اگلے روز فرانسیسی ہمارے ساتھ نہیں آیا کیونکہ ہم دوبارہ سمندر پر جا رہے تھے۔ چار دن مسلسل ہم سمندر پر گئے‘ پھر جا کر ہمارا جی بھرا۔ اس کے بعد کراچی میں صدر کے علاقے میں گئے۔ دھواں چھوڑتیں بسیں‘ چھوٹے سموسے! (لاہور میں اُس وقت تک بڑے سموسے ہی بکتے تھے) پھر ہم قائداعظم کے مزار پر گئے۔ اُس وقت تک یہ عمارت‘ جو آج کل تصویروں میں نظر آتی ہے‘ نہیں بنی تھی۔ کراچی کی صاف شفاف سڑکیں‘ کہیں گرد نہیں۔ عمارتیں بھی سیمنٹ ٹائپ موٹی اینٹوں کی بنی ہوئی تھیں۔
ہم بند روڈ پر بہت پھرے کیونکہ وہاں نہاری بہت سستی ملتی تھی۔ ویسے تو کراچی میں برنس روڈ (Burns Rood) کی نہاری مشہور ہے لیکن ہمیں پتا نہیں تھا‘ نہ ہی راستہ معلوم تھا۔ بندر روڈ پر‘ جو آج کل ایم اے جناح روڈ ہے‘ ٹرام چلتی تھی اور ٹاور تک جاتی تھی۔ راستے میں ریڈیو پاکستان کی عمارت بھی دکھائی دی۔ اس وقت کیا معلوم تھا کہ پانچ برس بعد میں اسی ریڈیو سٹیشن میں پروگرام پروڈیوسر بن کر آؤں گا۔
ایک دن ہم صدر کے علاقے میں سستا کھانا تلاش کر رہے تھے کہ ایک بس کنڈیکٹر لالو کھیت‘ لالو کھیت کی آوازیں لگا رہا تھا۔ ہم یہ الفاظ کئی مرتبہ سن چکے تھے۔ اُس سے پوچھا: یہ کتنی دور ہے۔ وہ بولا: بیس پیسے کا ٹکٹ ہے۔ ہم چھلانگ مار کر بس پہ چڑھ گئے۔ جب لالو کھیت پہنچے تو وہاں اور بھی زیادہ رونق تھی۔ اتنے ٹھیلے ایک علاقے میں مَیں نے آج تک نہیں دیکھے۔ کوئی نان حلیم بیچ رہا تھا کوئی دہی بڑے اور کوئی دال چاول! غرض اتنی ورائٹی تھی کہ اس پر ڈاکیومنٹری بن سکتی تھی۔ اپنی پسند کی چیزیں ہم نے جی بھر کر کھائیں اور کہیں بھی محسوس نہیں ہوا کہ مہنگی ہیں۔ تب ہمیں کراچی میں دس دن ہو چکے تھے۔ باقی دن ہم نے ناشتہ تک‘ زیادہ تر لالو کھیت جا کر ہی کیا۔ کراچی کو ہم نے بسوں میں بیٹھ کر دیکھا۔ سستی ٹکٹ‘ رش سے بھری بسیں‘ ڈبل ایس کی آوازیں۔ ہم صدر جاتے تھے اور جب بس خالی ہوتی تھی تو ایک ایک کھڑکی والی سیٹ پر قبضہ کر لیتے تھے اور آخری سٹاپ تک بیٹھے رہتے تھے۔
جب روانگی کا دن آیا تو ہم پھر ایک مرتبہ سمندر دیکھنے گئے۔ تب تک ہماری جیب میں کچھ پیسے موجود تھے‘ سو اس دن ہم واپس رکشے میں آئے۔ امین ہاؤس سے اپنا بیگ لیا اور ٹرین میں ملی کتاب وہیں چھوڑی دی۔ اُس کی وجہ یہ تھی کہ اُس کتاب میں ایک مخصوص فکر کے لوگوں کی برائیاں کی گئی تھیں۔ مظہر الحق کو اس جھگڑے کا کچھ کچھ پتا تھا کیونکہ اُس کے گھر میں ایسی باتیں ہوتی تھیں۔ اُس نے مجھے کہا کہ یہ کتاب پڑھنے والی نہیں۔ اس طرح ہمارا کراچی کا دورہ ختم ہوا جو صحیح معنوں میں ایک کامیاب دورہ تھا۔ جب ہم ٹرین میں واپس آ رہے تھے تو ہم بھی اُس فرانسیسی کی طرح پوری دنیا کا دورہ کرنے کی پلاننگ کر رہے تھے۔ مگر پھر آ کر ہم اپنے معمول میں ایسے غرق ہو گئے کہ پوری دنیا کی سیاحت کا پروگرام بس ایک خواہش ہی رہا۔ آج ہم اُس دور کے مقابلے میں بہت ترقی کر گئے ہیں لیکن مجھے اب بھی وہ زمانہ آج کے مقابلے میں بدرجہ بہتر معلوم ہوتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں