ہمارے ہاں آج کل میڈیا آزاد ہے۔بعض لوگ اس کو ضرورت سے زیادہ آزاد سمجھتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو اظہار کی اس آزادی کے طالب ہیں جو امریکی عوام کو ان کے آئین کی ترمیم نمبر ایک کے تحت حاصل ہے اور جس کا مظاہرہ آج کل وہاں بسوں پر مسلمانوں کے خلاف اشتہار بازی کر کے ہو رہا ہے۔ہمارے لیے کیا اچھا ہے اور کیا اچھا نہیں ہے‘ اس کا فیصلہ تو آہستہ آہستہ ہی ہو گا مگر میڈیا کی آزادی کی موجودہ صورتحال کا موازنہ جب میں ماضی میں میڈیا کی صورتحال سے کرتا ہوں تو بڑا ہی عجیب لگتا ہے۔ میں 1969ء میں کراچی ریڈیو سٹیشن پر ڈرامہ پروڈیوسر تھا۔ملک کے معروف ادیب سلیم احمد ہمارے سٹاف آرٹسٹ ہوتے تھے۔ان کا تحریر کردہ ایک ریڈیو ڈرامہ میں نے پیش کیا تو اس میں ہجوم کے ایک منظر میں جو مختلف آوازیں تھیں ان میں ایک آواز دو تین مرتبہ یہ کہتی سنائی دیتی تھی۔''ابے او نائی کے‘‘۔ منظر کا تقاضا یہی تھا کہ ہجوم میں لوگ ایک دوسرے پر آوازے کس رہے تھے۔ڈرامہ نشر ہو گیا ۔اس کے کوئی تین ہفتے بعد مجھے اسسٹنٹ ریجنل ڈائریکٹر ظفر اللہ کرمانی صاحب نے بلوایا۔کافی پریشان دکھائی دیتے تھے۔ ان کے ہاتھ میں دو تین کاغذ تھے جو انہوں نے میری طرف بڑھا دیے۔
ان کاغذات میں دوصفحوں پر کسی صاحب کا خط تھا جنہوں اپنے آپ کو آل پاکستان زلف تراش یا ہیر ڈریسرز ایسوسی ایشن کا صدر تحریر کر کے ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل کے نام شکایت لکھی تھی کہ ریڈیو پاکستان کراچی سے سلیم احمد کے تحریر کردہ اور افضل رحمن کے پیش کردہ ڈرامے میں ''ابے او نائی کے‘‘کا مکالمہ شامل کرکے زلف تراشوں کے معزز پیشے کی توہین کی گئی ہے۔اس شکایت کے اوپر ہمارے ڈائریکٹر جنرل کے دفتر کا خط تھا‘ جس میں ریجنل ڈائریکٹر کراچی سے وضاحت طلب کی گئی تھی۔ریجنل ڈائریکٹر نے وہ خط اسسٹنٹ ریجنل ڈائریکٹر کو بھیجا تھا اور اب وہ میرے سامنے تھا۔اب میں اس کا کیا جواب دیتا۔میں نے سلیم بھائی سے بات کی۔ (سلیم احمد کو سب سلیم بھائی کہتے تھے۔) وہ بولے: عام بول چال کا مکالمہ ہے۔منظر کے تقاضے کے مطابق لکھا گیا ہے۔اس میں کہاں توہین کا پہلو نکلتا ہے۔میں نے یہی جواب لکھ کر اسسٹنٹ ریجنل ڈائریکٹر کو دے دیا۔وہ مطمئن نہیں ہوئے۔موصوف انگریزی بہت اچھی لکھتے تھے۔انگریزی میں ایسی گول مول عبارت جو اب میں لکھی کہ آج تک وہ شکایت اور کرمانی صاحب کا جواب ڈائریکٹر جنرل کے دفتر کی فائلوں میں بند ہے۔
یہ اس دور کی بات ہے جب نجی شعبے میں نہ ٹی وی چینل تھے اور نہ ہی ایف ایم ریڈیو سٹیشن۔ اخباروں کی حالت یہ تھی کہ ہر وقت ایوب خان کے دور کے نافذ کردہ کالے قانون کا ذکر رہتا تھا۔
سرکاری شعبے میں یہ تو ریڈیو کی آزادی کی حالت تھی کہ ڈرامے میں ایک مکالمہ نشر ہونے سے مصیبت آ جاتی تھی۔سرکاری ٹی وی کی صورتحال بھی ایسی ہی تھی۔یہ میڈیم بالکل نیا تھا اور زیادہ تر ریڈیو کے سابق ملازمین ہی شروع میں اس کو چلا رہے تھے لہٰذا احتیاط اسی طرح برتی جاتی تھی جیسے ریڈیو میں برتی جاتی تھی۔اس کے باوجود ٹی وی والوں کو بھی شکایت کا سامنا رہتا۔ اس دو ر میں ریڈیو اور ٹی وی میں براہ راست نشریات محض کرکٹ یا ہاکی کی کمنٹری تک محدود تھیں یا کبھی کبھار غیر ملکی صدور یا وزرائے اعظم کی آمد‘یوم جمہوریہ پریڈ اور ہارس اینڈ کیٹل شو وغیرہ پر براہ راست رواں تبصرہ ہوتا تھا۔ان کے سواریڈیو کے اور ٹی وی کے بھی سب پروگرام پہلے مسودے کی شکل میں ہوتے تھے جن کو مجاز اتھارٹی VETکر کے اپنے دستخط ثبت کرتی تھی اور پھر پروگرام نشر ہوتا تھا۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ریڈیو اور ٹی وی میں کام کرنے والوں کو گھٹن محسوس نہیں ہوتی تھی! یقینا ہوتی تھی لیکن ساتھ ہی فوائد بھی بہت تھے۔ مثال کے طور پر جب پروڈیوسر اپنے پروگرام کے مسودے کو اپنے افسر سے منظور کروا کے اس پر دستخط حاصل کر لیتا تھا تو پھر اس کی ذمہ داری واجبی سی رہ جاتی تھی۔اگر کوئی گڑ بڑ ہو جائے تو زیادہ تر جوابدہی اس افسر کی ہوتی تھی جس نے مسودہ منظور کیا ہوتا تھا۔لیکن بہرحال ماحول میں گھٹن ہر کوئی محسوس کرتا تھا۔
اس گھٹن پر ریڈیو کی حد تک پہلی ضرب اس وقت لگی جب پاکستان کی سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں ایف ایم کے تین سٹیشنوں کو پروگرام کی اجازت دی گئی۔حسین حقانی‘ جو میمو گیٹ سکینڈل کے سبب بہت ہی معروف ہوئے‘ اس دور میں انفارمیشن سیکرٹری تھے۔صورتحال یہ تھی کہ پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے 1973ء کے منظور کردہ قانون کے مطابق پاکستان میںریڈیو سٹیشن کھولنے کا اختیار ریڈیو پاکستان کے سوا کسی اور کو نہ تھا۔بے نظیر بھٹو کی حکومت پارلیمنٹ میں اتنی مضبوط نہ تھی کہ آسانی سے پی بی سی ایکٹ میں ترمیم کر سکتی لہٰذا موصوفہ نے بغیر قانون میں ترمیم کئے وزیر اعظم کی حیثیت سے قواعد و ضوابط میں نرمی پیدا کرتے ہوئے ایف ایم ریڈیو سٹیشن کی اجازت دے دی۔یاد رہے کہ بعدازاں نواز شریف کی حکومت کے دو ر میں بے نظیر حکومت کے خلاف سیف الرحمن نے جو ریفرنسز دائر کیے تھے ان میں ایک ریفرنس ایف ایم کے اجرا کا بھی تھا ۔تو بہرحال جب ایف ایم ریڈیو کی نشریات شروع ہوئیں تو یہ پہلا موقع تھا کہ سامعین کی فون کالز براہ راست ریڈیو سے نشر ہونے لگیں۔ایف ایم نشریات میں گفتگو کا یہ بے ساختہ پن بہت مقبول ہوا اور یہ ریڈیو پاکستان کے لیے چیلنج بن گیا۔ ریڈیو میں تو کوئی پروگرام Vettingکے بغیر نشر ہی نہ ہوتا تھا۔مسودہ اگر ہے تو اس پر مجاز افسر
کے دستخط ہوں اور اگر بغیر مسودے کے ریکارڈ شدہ پروگرام ہے تو اس کو بھی مجاز اتھارٹی نے پہلے سنا ہو۔سامعین کی فون کالز کا پروگرام جو ریڈیو پر ایف ایم ریڈیو کے آنے سے پہلے نشر ہوتا تھا وہ بھی ریکارڈ کیا جاتا تھا اور پھر ایڈیٹ کر کے نشر ہوتا تھا۔اب جناب ایک پرائیویٹ ایف ایم اسٹیشن پر میزبان اورسامعین کھل کر بے ساختہ انداز میں بات چیت کرتے تھے جس کو سب پسند کرتے تھے۔جب ایف ایم ریڈیو کی نشریات کی دھوم مچی اور ہمارے نوجوانوں نے اس چینل کے پروگراموں میں بہت دلچسپی لینا شروع کی تو ریڈیو پاکستان نے بھی آہستہ آہستہ اس طرف قدم بڑھانا شروع کیا اور پھر اپنی نشریات میں براہ راست فون کالز شامل کرنا شروع کر دیں۔ ٹی وی کے ضمن میں بے نظیر بھٹو اپنے پہلے دور حکومت میں پیپلز ٹیلی وژن نیٹ ورک کے ذریعے سی این این کی نشریات کی پاکستان میں اجازت دے چکی تھیں۔ اسی نیٹ ورک کا نام بعدازاں نواز شریف حکومت نے شالیمار ٹیلی ویژن نیٹ ورک رکھا۔ڈش کا دور شروع ہو چکا تھا۔بھارتی چینل آنے شروع ہوئے۔ پھر مشرف دور میں ہمارے نجی ٹی وی شروع ہوئے اور آج ہم وہ کچھ دیکھ رہے ہیں جس کا بیس برس پہلے تصور بھی نہ تھا۔
اب آپ دیکھیں ایک طرف پرانے ادوار کی وہ گھٹن تھی جس کی ایک جھلک میں نے پیش کی ہے اور دوسری طرف آج کل کی وہ آزادی ہے جس کو بعض لوگ ضرورت سے کچھ زیادہ باور کرتے ہیں۔ اعتدال کی راہ ان دونوں کے درمیان میں ہے۔اور وہی بہترین راہ ہے۔