فوج کے ڈسپلن میں کس قدر خوشی‘ احساس تفاخر اور رنگینی پنہاں ہے اس کا اندازہ کرنا ہو تو ان کو اس وقت دیکھو جب یہ کسی مشن پر ہوتے ہیں‘ کوئی آپریشن کر رہے ہوتے ہیں یا پھر دشمن سے جنگ کر رہے ہوتے ہیں۔ مجھے یہ موقع 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران اس وقت ملا جب ریڈیو پاکستان کی طرف سے مجھے میڈیا ٹیم کے ہمراہ کوریج کے لیے مختلف جنگی محاذوں پر بھیجا گیا۔ دسمبر 1971ء کے پہلے ہفتے میں جب میں سلیمانکی فاضل کا سیکٹر میں پہنچا تو میرا تصور یہ تھا کہ محاذ جنگ ہے لہٰذا یہاں فوجیوں کے چہرے انتہائی سنجیدہ ہوں گے اور دشمن کے حملوں سے فکر مند ہوں گے۔ لیکن میں نے دیکھا یہ لوگ تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کسی ایسی سرگرمی میں مصروف ہیں جو ان کو مسلسل خوشی فراہم کر رہی ہے اور چہروں کو اطمینان بخش رہی ہے۔
رات کو ہم جس جگہ سوئے، سوئے تو نہیں بلکہ جاگتے ہی رہے تھے، اس کے اوپر سے وقفے وقفے کے بعد توپ کا گولہ گزرتا تھا۔ وہاں جس فوجی کی ہمارے ساتھ ڈیوٹی تھی جب گولہ فائر ہوتا تو فخر سے ہم سب کی طرف دیکھتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ توپ دور مار ہے اور دشمن کی فوج کو Hit کرنے کے لیے ہمارے OP جو نشانہ ہمیں فراہم کر رہے ہیں اس کے حساب سے توپیں پیچھے رکھی ہوئی ہیں اور گولہ ہم لوگوں کے سر کے اوپر سے گزر رہا ہے۔ ہم میں سے اکثر اس امکان کی وجہ سے خوفزدہ تھے کہ اگر کوئی گولہ کسی وجہ سے نیچے آ گرا تو ہماری خیر نہیں۔ اس فوجی نے غالباً یہ بات ہماری شکلیں دیکھ کر محسوس کر لی۔ بولا یہ گولے بسم اللہ پڑھ کر فائر کیے جاتے ہیں گریں گے تو دشمن کے علاقے میں ہی گریں گے۔ اس کے بعد اس فوجی نے ہمیں بہت سے قصے سنائے کہ کس طرح وہ دشمن کے OP کو پکڑتے ہیں۔ OPکا مطلب دشمن کا وہ فوجی ہوتا ہے جو جاسوس کی شکل میں محاذ جنگ کے دوسری طرف پہنچتا ہے اور اپنے فوجیوں کو دشمن کی پوزیشن کے بارے میں معلومات بھی فراہم کرتا ہے اور یہ بھی بتاتا ہے کہ نشانہ کہاں لگانا ہے۔ ان قصوں میں دشمن کے جاسوس کے ہاتھوں اپنے فوجیوں کے شہید ہونے کا بھی ذکر ہوتا مگر وہ ان فوجیوں کی شہادت کو ایسی محبت سے بیان کرتا کہ اس مصرع کا مطلب ذہن میں پوری طرح واضح ہو جاتا کہ ع
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
ہمارا جو صحافیوں اور ریڈیو‘ ٹی وی کے نمائندوں کا گروپ تھا، اس کو جگہ جگہ لانے لیجانے کی ذمہ داری ایک نوجوان کیپٹن کی تھی۔ اس کا نام الطاف تھا اور وہ راولپنڈی کا رہنے والا تھا۔ اس نے ہمیں بتایا کہ کس طرح ہماری فوج نے سلیمانکی سیکٹر میں بھارتی فوج کو پیچھے دھکیل کر بھارتی علاقے پر قبضہ کیا۔
اس کے انداز بیان میں ایک سادگی اور خوشی کا اظہار تھا۔ حیرت ہوتی تھی کہ انسان جنگ کے ماحول میں بھی ایسی آسودگی حاصل کر سکتا ہے۔ جب وہ دشمن کا علاقہ فتح کرنے کی تفصیل بیان کر چکا تو بولا چلیں آپ کو پکا گائوں لے کر چلتے ہیں۔ پکا گائوں ان علاقوں میں شامل تھا جو ہماری فوج نے فتح کیے تھے۔ ہم کیپٹن الطاف کی جیپ میں جب جا رہے تھے تو عین دریائے ستلج کے پل کے اوپر بھارتی جنگی جہاز گولیاں برساتے ہوئے گزرے۔ ہمارے توپچیوں نے بھی ان جہازوں پر فائرنگ کی ۔ ہم سب جس وقت اپنے ارد گرد ایک دو جگہ پر لگی گولیوں کے نشانات دیکھ کر سہمے ہوئے تھے تو کیپٹن الطاف بلند آواز میں بھارتی جنگی جہازوں کو جاتے دیکھ کر کہہ رہا تھا ''بچ گئے سالے اس مرتبہ‘‘۔
اس کے بعد وہ ہمیں پکا گائوں لے گیا۔ ہم نے دیکھا چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہنے والوں کا سامان اسی طرح پڑا تھا۔ بعض جگہ چولہے پر سالن پکا ہوا پڑا تھا۔ کیپٹن الطاف بتا رہا تھا کہ دشمن کے فوجیوں کو پکا یقین تھا کہ وہ پیچھے نہیں ہٹیں گے اور انہوں نے گائوں بھی خالی نہیں کروایا تھا مگر جب ہمارے فوجیوں نے تین طرف سے حملہ کیا تو پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوگئے اور گائوں کے رہنے والے بھی سب کچھ چھوڑ کر بھاگ گئے۔ وہاں جو دیگر فوجی اِدھر اُدھر اپنی ڈیوٹی دے رہے تھے ان میں سے کسی ایک
کے چہرے پر بھی میں نے کوئی ایسا تاثر نہیں دیکھا جس میں بیزاری یا خوف کا شائبہ تک ہو۔ احساس تفاخر کے ساتھ مصروف عمل دکھائی دیے۔ جب ہم واپسی کے لیے کیپٹن الطاف کی جیپ میں بیٹھ رہے تھے تو انہوںنے ہم سے کہا کہ آیئے اب آپ کو ایسی جگہ لے چلتا ہوں جہاں آپ کی روح بھی خوش ہو جائے گی۔ یہ کہتے ہوئے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ ہمیں اپنی زندگی کی کوئی بہترین چیز دکھانے لے کر جا رہا ہے۔ یہ کہتے ہوئے اس کا چہرہ خوشی اور احساس فخر سے چمک رہا تھا۔ اس کی جیپ ایک جگہ رُکی اور وہ بولا آیئے آپ کو شہید کی زیارت کرواتے ہیں۔ جس شہید کی زیارت کروانے وہ ہمیں لے کر گئے تھے وہ میجر شبیر شریف شہید تھے‘ جن کی شہادت پچھلی رات ہوئی تھی۔ جب ہم شبیر شریف کا جسد خاکی دیکھنے گئے وہ لمحات مجھے آج تک نہیں بھولتے۔ روح پرور سماں اور احساس ایسا تھا جس کو محض محسوس کیا جا سکتا ہے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ کیپٹن الطاف نے ہمیں اسی وقت بتا دیا تھا کہ سیکٹر کمانڈر بریگیڈیئر امیر حمزہ نے میجر شبیر شریف شہید کے لیے نشان حیدر کی سفارش کی ہے۔
عجیب تجربہ تھا جو مجھے تین روز محاذ جنگ پر ان فوجیوں کے ساتھ گزارنے کے دوران ہوا۔ جس محبت‘ خلوص اور احساس فخر کے ساتھ محاذ جنگ پر ہمارے فوجی برسرپیکار تھے‘ اس کا صحیح اندازہ اسی کو ہو سکتا ہے جو ایسے وقت میں ان لوگوں کے ساتھ کچھ دیر رہے اور ان کے جذبوں نے جو ماحول کو گرمایا ہوتا ہے اس کو اپنے اندر جذب کر لے۔ فوجی ڈسپلن کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اس میں اپنے شہیدوں کے لواحقین کا ایک نظام کے تحت خیال رکھا جاتا ہے اور فوج کا ادارہ اس پہلو سے بہت حساس ہے کہ شہیدوں کے لواحقین کو کوئی شکایت پیدا نہ ہو؛ تاہم ملک کی منتخب قیادت کا کیا یہی کام رہ گیا ہے کہ وہ جب ایسی کوئی تقریب ہو وہ شہیدوں کو محض زبانی خراج عقیدت پیش کردیں۔ اس سے آگے بھی تو بڑھا جا سکتا ہے۔ کیا ایسا ممکن نہیں تھا کہ وزیراعظم نوازشریف گزشتہ برسوں کے دوران جن کو ہم دہشتگردی کے خلاف جنگ کہتے ہیں‘ اس میں شہید ہونے والے فوجیوں کے لواحقین کو یوم آزادی کے تحفے کے طور پر وفاقی حکومت کی طرف سے دس دس لاکھ کی رقم دینے کا اعلان کرتے۔ کل پانچ سات ارب روپے درکار ہوتے مگر اس عمل سے پوری قوم اپنے آپ کو اپنے شہیدوں کے زیادہ قریب محسوس کرتی۔ جس طرح ہم اخباروں میں مختلف طبقوں کے ضرورت مند لوگوں کی طرف سے حکومت کے نام مدد کی اپیلیں دیکھتے ہیں‘ شہیدوں کے لواحقین تو ایسی اپیلیں مر جائیں پھر بھی نہیں کر سکتے مگر کیا ہماری قیادت کو یہ دکھائی نہیں دیتا کہ شہید ہونے والے زیادہ تر فوجی ایسے گھرانوں کے افراد ہوتے ہیں جن کے لیے دس لاکھ کی رقم بہت معنی رکھتی ہے۔ ظاہر ہے ہمارے قائدین کو یہ دکھائی نہیں دیتا۔ ان کو جو کچھ دکھائی دیتا ہے اس سے بھلا ہم واقف نہیں؟