آج ہم اگر دنیا کے مختلف ملکوں اور علاقوں کی ادب و ثقافت سے واقف ہیں تو اس میں بہت بڑا کردار مترجمین کا ہے ۔ انگریزی زبان میں تو مترجمین نے لازوال خدمات انجام دے رکھی ہیں مگر ہماری اردو زبان میں بھی ترجمہ کرنے والوں نے کارنامے کر رکھے ہیں ۔میں نے اسی کی دہائی میں ایک بین الاقوامی نشریاتی ادارے میں کام کیا اور پانچ برس تک خبروں‘تبصروں اور تجزیوں کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا لہٰذا مجھے بخوبی اندازہ ہے کہ یہ کیسا Thanklessکام ہے۔ میں جوان تھا مگر گھنٹہ بھر ترجمہ کرنے کے بعد کندھوں میں درد محسوس کرنے لگتا تھا۔ تنخواہ چونکہ ڈالرں میں ملتی تھی اس لیے گوارا تھا۔اس پس منظر میں جب میں دیکھتا ہوں کہ معمولی مشاہرے پر لوگ پوری پوری کتاب کا ترجمہ کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں تو مجھے ان لوگوں کے حوصلے پر رشک آتاہے۔
ترجمہ ایک ایسی شے ہے کہ اس میں آپ ڈنگ ٹپائو کام کر ہی نہیں کر سکتے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ آپ ترجمہ جس کے لیے بھی کرتے ہیں وہ اس کے لیے قابل قبول ہو تو بات آگے بڑھتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو آپ کی محنت ضائع ہو جائے گی اور پھر دو ایک مرتبہ ایسا واقعہ پیش آئے تو آپ یہ کام ہی چھوڑ جائیں گے۔لہٰذا ترجمہ کم از کم ایسا ہوتا ہے جو ترجمہ کرانے والے کو قابل قبول ہو۔ اس کے بعد ایسا ترجمہ ہوتا ہے جو اس قدر معیاری ہوتا ہے کہ اصل مسودے کا حق ادا کر دیتا ہے اور بعض تراجم ایسے ہوتے ہیں کہ واقعتاً وہ اصل سے بھی بہتر ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں تینوں قسم کے مترجمین پائے جاتے ہیں مگر سب کی برابر کی بے قدری ہوتی ہے۔
پوری دنیا کے ادب و ثقافت سے روشناس کرانے کے ضمن میں مترجمین کے کردار کی داد دے چکا ہوں مگر ان کا کردار شاعری کے تراجم کے ضمن میں بہت محدود ہے ۔کہتے ہیں کہ شاعری کا ترجمہ نہیں ہو سکتا۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شاعری کا ترجمہ کرنے کے نتیجے میں جو چیز ترجمے سے غائب ہو جاتی ہے وہ شاعری ہوتی ہے۔
جس طرح ایک زبان کی نثر دوسری زبان کی نثر میں ترجمہ ہو جاتی ہے شاعری کے سلسلے میں یہ ممکن نہیں۔ لوگ مثال دیتے ہیں کہ Fitzgeraldنے ایک دور میں رباعیات عمر خیام کا انگریزی میں بہت خوبصورت منظوم ترجمہ کیا تھا مگر میرے ایک انگریزی کے استاد کہا کرتے تھے کہ اس کو ترجمہ کہنا درست نہیں۔ اصل میں Fitzgeraldنے عمر خیام کی رباعیات کے مفاہیم کو جذب کر کے انگریزی زبان کے مزاج کے مطابق طبع زاد شاعری کی ہوئی ہے۔شاعری تو ایسی شے ہے کہ یہ جس زبان میں ہو اس میں ہی قید رہتی ہے۔ اس کو مترجمین آزاد نہیں کراسکتے۔ جو ایسی کوشش کرتے ہیں وہ اکثر منہ کی کھاتے ہیں۔
ریڈیو میں ہمارے ایک افسر ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے سلطان باہو ؒکے پنجابی کلام کا اردو ترجمہ کر رکھا تھا۔اپنے ماتحتوں کو سنا سنا کر داد وصول کیا کرتے تھے۔ ''دل دریا سمندروں ڈونگھے تے کون دلادیاں جانے ہو‘‘اس کا ترجمہ تھا: دل دریا بحر سے گہرے کون دلوں کی جانے ہو۔
اسی طرح سلطان باہو ؒکے باقی اشعار کو سیدھا کر کے اردو میں گھسیڑا ہوا تھا۔ ایک روز اپنے ماتحتوں کو اپنا کلام سنا کے اپنے کمرے میں تشریف لے گئے تو ان ماتحتوں میں ایک میراثی بھی تھا۔ میراثیوں کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کو جگت ذہن میں آ جائے تو پھر رکتی نہیں۔بولا: صاحب نے آج یہ ترجمہ کر لیا ہے ۔اگر ایک دن رک جاتے تو کل میرے بیٹے جو پانچویں جماعت میں پڑھتا ہے‘ نے اسی طرح کا ترجمہ کر لینا تھا۔زور کا قہقہہ بلند ہوا۔
اردو کے ایک پروفیسر نے‘ جو ریڈیو کے کسی پروگرام کے لیے تشریف لائے ہوئے تھے‘ گزرتے ہوئے اتنی زور سے لوگوں کو ہنستے دیکھا تو ایسے ہی پوچھا کہ کیوں بھئی کیا لطیفوں کی محفل جمی ہے۔ان کو جب ترجمہ اور اس کے بعد میراثی کی جگت سنائی گئی تو بہت محظوظ ہوئے۔ بولے: شاعری زبان کے مزاج کے حساب سے ہوتی ہے ۔ اب دیکھیں‘ ترجمے میں جو ڈونگھے کو گہرا کیا گیا ہے وہ ہے تو درست مگر وہ نثر کی حد تک ہے ۔اردو میں لفظ گہرے کے استعمال کا مزہ لینا ہو تو اس شعر کو دیکھیے ؎
کیا بھلا مجھ کو پرکھنے کا نتیجہ نکلا
زخم دل آپ کی نظروں سے بھی گہرا نکلا
ان کا کہنا تھا کہ اس کو اگر آپ پنجابی میں ''زخم دل آپ دی نظراں توں وی ڈونگھا نکلا‘‘ کر لیں تو پھر بات تو نہیں بنے گی ناں۔
بات ترجمے کی چل رہی ہے تو نثر میں ترجمہ کرنیوالوں کی بھی کچھ غیبت ہونی چاہیے۔چند برس پہلے میں نے علی ہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ کی تصنیف کشف المحجوب کا اردو ترجمہ خریدا۔ وہ غالباً کسی ایسے شخص کا کیا ہوا تھا جو کچھ عقائد پر داتا صاحب سے متفق نہیں تھا۔نتیجہ اس کا یہ تھا کہ کئی صفحات پر حاشیہ لگا کر نیچے مترجم نے باقاعدہ داتا صاحب ؒکے بیان کے متضاد نکتہ نظر بیان کیا ہوا تھا مگر بڑے ادب کے ساتھ۔میرا خیال ہے یہ بات درست نہیں ہے اور نہ ہی ایسا کرنا کسی بھی مترجم کے لیے جائز ہے۔
آج کل پوری دنیا ایک اکائی سی بنتی جا رہی ہے ،لہٰذا ہمارے ہاں اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ جس طرح ہمیں انگریزی زبان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں سہولتیں مل رہی ہیں‘ ان کو مرحلہ وار اردو میں منتقل کیا جائے۔ اس ضمن میں جتنا کام ہو چکا ہے وہ قابل قدر تو ہے مگر ناکافی۔ بہت ہی کم ہے۔ بہت کچھ ترجمہ ہونا باقی ہے۔
حکومت کو اس ضمن میں توجہ دینی چاہیے اور ایک پروجیکٹ کے ذریعے باقاعدہ مالی وسائل فراہم کر کے اس کام کو وسعت دینی چاہیے۔ تھوڑا سا موازنہ کرنا چاہیں تو حکومت کسی کو ایک مطالعاتی دورے پر بھارت بھیج کے دیکھ لے۔اگرچہ وہ لوگ بھی ابھی مغربی دنیا سے بہت پیچھے ہیں مگر آپ کو وہ آگے بڑھتے نظر آئیں گے۔وہاں ہندی زبان میں کام کی رفتار خاصی تیز ہے۔
مستقبل کی طرف دیکھیں تو اب ہمیں چینی اور روسی زبان سے اردو میں ترجمہ کرنے والوں کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ ان ملکوں سے ہمارے رابطے بڑھنے کا امکان ہے‘ لیکن دکھائی نہیں دے رہا کہ کہیں یہ احساس موجود ہے‘ مگر ہونا چاہیے ۔
یہ سوچ کر جب میں اپنے ملک کی حالت کو دیکھتا ہوں تو یہ سب خواہش معلوم ہوتی ہے۔ جس طرح ہم نے براہ راست جاپانی زبان سے اردو میں ترجمہ کرنے کے بجائے درمیان میں انگریزی کا وسیلہ استعمال کیا ہے غالباً یہی کام ہم چینی اور روسی زبانوں کے ضمن میں بھی کریں گے۔ میں نے چینی طالب علموں کو اتنی اچھی اردو بولتے دیکھا ہے کہ مجھے حیرت ہوتی تھی اور پھر یہ اب کی بات نہیں ہے ،کافی پرانی بات ہے۔
ساٹھ کے عشرے میں چین سے طالب علموں کا ایک وفد یہاں آیا تھا۔ وہ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر حمید احمد خاں سے ملا تو وہ بہت متاثر ہوئے۔یہی چینی وفد کراچی یونیورسٹی بھی جا چکا تھا جہاں وائس چانسلر اشتیاق احمد قریشی ہوتے تھے ۔بعدازاں یہ دونوں وائس چانسلر کسی اجلاس میں اکٹھے ہوئے تو چینی طالب علموں کی اردو پر مہارت کی بہت تعریف کی۔ اشتیاق حسین قریشی کہنے لگے: بالکل ہماری طرح اردو بول رہے تھے۔ مجھے محض اس وقت احساس ہوا کہ انہوں نے اردو سیکھی ہوئی ہے، جب میں نے ایک چینی طالب علم سے پوچھا کہ کیا آپ کی شادی ہو گئی ہے تو اس کا جواب تھا ''جی نہیں میں ابھی ناکتحذا ہوں‘‘۔
آپ کو جاپان کے ریڈیو این ایچ کے کی اردو سروس میں اور بیجنگ ریڈیو کی اردو سروس میں بھی زیادہ تر مقامی لوگ ہی اردو میں نشریات کرتے دکھائی دیں گے جبکہ ہمارے ریڈیو پاکستان کی بیرونی نشریات جس زبان میں ہوتی ہیں ان کے لیے ان ملکوں کے لوگ کام کرتے دکھائی دیں گے جن ملکوں میں وہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔