مسئلہ صرف دہشت گردوں کا نہیں ‘سہولت کاروں کا بھی ہے۔ دہشت گردوں کاسرحد پار براہ راست تعاقب ممکن نہ سہی، لیکن اس پالتو مخلوق کو پالنے والے اور ان کے سہولت کاروں تک پہنچنا تو شاید مشکل نہیں۔ کیا ہمیں نہیں معلوم کس خاص رجحان کے حامل افراد ان خودکش بمباروں کے خاموش حامی ہیں، دس برس بیت گئے ۔ ستر ہزار سے زائد جانیں گئیں، اور کچھ نہیں اس مسلسل اذیت کے بعد بحیثیت مجموعی عوام الناس ذہنی طور پر متعدد مغالطوں اور سازشی مفروضوں سے جان چھڑانے میں کامیاب ضرور ہوئے ہیں ۔ لیکن ان کا کیا کیجئے جو اکثریت میں نہ ہونے کے باوجود ہر گلی محلے میں موجود ہیں۔ یہ وہی ہیں جن کے ہاں یہ دہشت گرد پناہ لیتے ہیں۔ یہ وہی ہیں جو ان کے اصل سہولت کار ہیں۔ کیا ہمیں آس پاس موجود افراد کی فکر اور رجحانات کا علم نہیں؟ ہمارے لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ فلا ں فلاں علاقے حساس ہیں، انہیں یہ بھی علم ہے کہ فلاں فلاں شخصیت کے گرد خطرہ منڈلا رہا ہے ۔ لیکن کیا انہیں یہ علم نہیں کہ ان دہشت گردوں کے خاموش حامی کہاں ہیں؟ کیا انہیں معلوم نہیں کہ ان حمایتیوں کو کہاں کہاں سے چھایا چھتر میسر ہے ؟ حالیہ دہشتگردی کی لہر شروع ہونے سے پہلے تین وارننگ الرٹ جاری کئے گئے ۔ واضح بتایا گیا کہ ہمسایہ ملک سے بارودنواز مخلوق وارد ہونے کو ہے ۔ لاہور، راولپنڈی اسلام آباد، پشاور اور حتیٰ کے کراچی تک کا ذکر کیا گیا۔ متعلقہ گروہ کا اتاپتہ تک بیان کیا گیا تھا۔ یہ سب معلوم تھا لیکن یہ کیسے مان لیا جائے کہ یہاں مقامی سہولت کاروں بارے ہم لاعلم تھے ؟ یہ وہ سوال ہے جو حالیہ واقعات کے بعد مسلسل ذہن سے ٹکرا رہا ہے اور بدلے میں پیدا ہونے والا ارتعاش سوچنے سمجھنے کی حس مفلوج کر رہا ہے ۔
ہماری سیاست کے کئی سرکردہ چہرے ہیں جنہوں نے کبھی کھل کر ایسے بہیمانہ دہشت گردی کے واقعات کی مذمت تک نہ کی، مخالفت تو دور کی بات ہے ۔ لیکن ٹھہریئے ! یہ بہر حال ہمارے رہنما ہیں! مسئلہ یہ بھی نہیں، دل پر پتھر رکھ کر شاید یہ حضرات ٹی وی سکرین کے لئے ہی سہی، مذمتی بیانات جاری کر دیں گے ۔ لیکن مسئلہ اس سے بھی حل نہیں ہوگا۔ مسئلہ یہ ہے کہ سیہون سرکار کے مزار پر خود کش حملہ ان کی مذمت سے 'اَن ڈو'نہیں ہوسکتا۔کیونکہ مسئلہ کچھ اور ہے ۔ مسئلہ دھمال کا ہے ۔ بعض لوگ اس کی مذمت تو کر گزریں گے لیکن دھمال کو تنقید کا نشانہ بنائیں گے ۔
مسئلہ اس سے بھی شاید حل نہ ہو۔ مسئلہ کچھ اور ہے ۔مسئلے کے حل کے لئے حب الوطنی کی تصدیق کرنے والوں کی اپنی ڈگریاں جعلی قرار دینا ہوں گی۔ یہ وہ ہیں جو کہتے ہیں مزار گمراہی پھیلا رہے ہیں۔ انسانیت کی تعمیر ہو، اخلاقیات کا پیمان ہو، معاشرے کی تشکیل ہو یا بحیثیت فرد مثبت کردار،ایک خاص طبقہ نے اس سلسلے میں عرصہ نصف دہائی سے کیا کردار ادا کیا؟ کون سے فلسفی، سکالر، سائنسدان، آئی ٹی ایکسپرٹس پیدا کئے ؟
مسئلہ یہ بھی شاید اتنا گمبھیر نہیں۔ مسئلہ اس عزم کا ہے جو شاید فیصلہ سازوں کے ہاں متزلزل ہے ۔ کراچی میں آپریشن ہو تو یکسوئی دکھائی دیتی ہے ، کہیں اور نام لیا جائے تو گھبرا جاتے ہیں۔ آخر کیوں؟ مسئلہ اس پالیسی میں بھی ہے جو بظاہر تو 'زیر و ٹالرنس' کی ہے ، لیکن حقیقت میں 'زیر و کلیرٹی' سے تعبیر ہے ۔ مسئلہ اس پالیسی میں بھی ہے جس کے تحت خطے کے نئے منظرنامے کو پڑھنے میں دقت ہو رہی ہے ، طاقت کے بدلتے توازن اور اپنے قد کاٹھ کا ادراک دوبارہ غلط اندا زے سے کیا گیا تو نتائج مزید بھیانک ہوں گے ۔ افغانستان اور بھارت ہمارے کہنے سے تو بات نہیں مانیں گے ، کچھ دھماکے افغانستان میں ہو ں گے کچھ پاکستان میں، مسئلہ وہیں رہے گا۔ ہمیں علم ہے ہمارا دشمن کابل کی آشیر باد میں ہے ۔ وہ کہتے ہیں ان کا دشمن ہماری نیک تمنائوں میں ہے ۔ ایسے میں مسائل کا انبار ہے اور حل معلوم نہیں۔ کیوں نہ چین اورحتیٰ کہ روس کو بھی شامل حال کیا جائے ؟ کہ شاید کوئی راہ نکل پائے ۔
مسئلے کے حل کے لیے شاید یہ سب باتیں آپ کو پرانی معلوم ہوں، کیوں کہ مسئلہ کچھ اور بھی ہے ، سوشل سائنس کی رو سے 'آڈینٹیٹی ریکگنیشن' اور پھر ہمارے تناظر میں تمام تر ممکنہ میڈیا کوریج مدعے کو مزید واضح کر دیتی ہے ۔اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کے علاوہ دہشت گردوں اور ان کے آقائوں کا اصل مقصد معاشرے میں تقسیم، افراتفری، ہیجانی کیفیت اور غیر یقینی صورتحال پیدا کرنا ہے۔ ان اہداف کو حاصل کرنے کے لئے بدقسمتی سے میڈیا غیر دانستہ طور پر کارگر آلہ ثابت ہو رہا ہے ۔ بریکنگ نیوز کے چکر میں اور بازی لے جانے کی دوڑ میں ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم دراصل استعمال ہو رہے ہیں۔ دہشت گردی کے واقعات کی براہ راست کوریج، زخمیوں کی تصاویر، ہسپتالوں کی حالت زار، جائے وقوعہ پر برپا قیامت کی منظر کشی، یہ سب رپورٹ کرنا درست ہے ، لیکن کیا ہم ایک عرصے سے حالت جنگ میں نہیں؟ اور کیا حالت جنگ میں روایتیں بدل نہیں جاتیں؟ میڈیا کوریج دراصل دہشت گردوں کو شناخت فراہم کرتی ہے ، کئی گھنٹوں کے نشرئیے عوام الناس میں خوف و ہراس پھیلا رہے ہیں۔ جنگ کی صورتحال جنگی اقدامات کی متقاضی ہے ۔ نائن الیون کے بعد امریکہ میں تمام تر ہسپتالوں میں نئے کورسز متعارف کرائے گئے کہ دہشت گردی کے واقعات سے متاثرہ افراد کو طبی سہولیات کیسے مہیا کی جاتی ہیں، فورسز کو واقعات سے نمٹنے کے لئے کریش کورسز سے گزارا گیا۔ سکیورٹی بڑھانے کے لیے نئی ٹیکنالوجی متعارف کرائی گئی۔ فرانس میں دہشت گردی ہوئی تو سرحدیں تک بند کر دی گئیں، شانزے لیزے پر فوجی ٹینک دکھائی دئیے ۔ لند ن کے سیون سیون دھماکوں کے بعد ٹونی بلیئر کی تقریر کا ایک جملہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، اس نے کہا تھا "نائو دی رولز آف گیم ہیو بین چینجڈ"۔ لیکن ہمارے ہاں کیا ہوا؟ صرف مذمتی بیانات، سکیورٹی بیف اپ، مشتبہ افراد کی گرفتاریاں، نئے تھریٹ الرٹس، دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کا عزم اور بس؟
کیا ہمیں اس جنگ میں مبتلا ہوئے ایک دہائی سے زائد کا عرصہ نہیں بیت گیا؟ نہ ہمارے ہسپتالوں میں کوئی کریش کورسز متعارف ہوئے ، نہ سکولوں میں تربیت، نہ ہی جیو ٹیگنگ مکمل ہوئی، نہ غیر ملکی فنڈنگ کا سراغ لگایا گیا، نہ سلیپرز سیل ختم ہوئے نہ ان کے بڑوں کا ناطقہ بند ہوا۔ حرام حلال، کافر مسلمان اور غدار وفادار قرار دینے کا سلسلہ اسی 'رفتار 'سے جاری ہے ۔ حتی کہ ہم دہشت گردی کے واقعات کی کوریج کے لیے متفقہ ضابطہ اخلاق بھی نہیں بنا سکے ۔
لیکن ٹھہرئیے ! سیہون کے لعل کے چاہنے والوں نے دہشت گردوں کو ایک واضح پیغام ضرور دیا ہے ؛ تم ہم سے ہمارا واحد اثاثہ یعنی ہمارے مرشد سے ہماری عقیدت چھیننے آئے تھے تو لو ہم اپنے لعل، اپنے شہباز کے لیے اسی جوش و خروش سے دھمال ڈالیں گے جیسے ڈالتے آئے ہیں، کہ جہاں قدم پڑیں گے وہاں سے زم زم پھوٹیں ، اور جہاں نقارہ گونجے گا وہیں پروانے منڈلائیں گے۔ لاشیں گری ہیں، خون بہا ہے ، بارود پھٹا ہے مگر ہم پھر اپنے پیروں پر کھڑے ہیں، صرف کھڑے ہی نہیں بلکہ تھرک رہے ہیں، صرف تھرک ہی نہیں رہے بلکہ دھمالیں ڈال رہے ہیں۔ دہشت گرد ہمارا رابطہ ہماری دھرتی سے کاٹنا چاہتے تھے ، اس دھرتی سے جس پر بلھا نچ کے یار مناتا ہے ، کبیرا بازار میں کھڑا تماشا دیکھتا ہے اور جس کے دریاؤں پر خواجہ خضر کی حکمرانی ہے ، مگر ہمارا اس دھرتی سے واسطہ افغان جنگ سے پہلے کا ہے ، فرنگیوں کے قبضے سے بھی پہلے کا ہے ، عربوں کے آنے سے بھی پہلے کا ہے ہم دھمال ڈالیں گے ، اور ہمارے پاؤں ہماری دھرتی پر ناچتے رہیں گے ۔