راولپنڈی رنگ روڈ منصوبہ کیوں متنازع ہوا؟ پراجیکٹ متنازع کرنے والے کردار کون ہیں؟ منصوبہ پس پشت جانے سے کسے فائدہ ہوگا؟ وزیر اعظم آفس کے اندر دو بڑے گروپس کی چپقلش وزیر اعظم کی اپنی ساکھ پر کیسے اثر انداز ہوسکتی ہے اور اس جیسے اَن گنت چبھتے سوالات کا جواب جاننے کے لیے ہمیں رواں برس کے آغاز میں رونما ہونے والے کچھ واقعات پر مخلصانہ اور کسی حد تک ہمدردانہ انداز میں غور کرنا ہوگا۔ یہ کہانی شروع ہوتی ہے رواں برس کے آغاز سے جب وزیر اعظم کو اہم سرکاری اداروں کی جانب سے مکمل چھان بین کر لینے کے بعد ایک رپورٹ پیش کی گئی۔ رپورٹ میں وزیر اعظم کے قریب اہم عہدوں پر فائز دو ''ذمہ داران‘‘ کا تفصیلی ''ذکر خیر‘‘ تھا۔ ان میں ایک اہم مشیر تھے جبکہ دوسرے صاحب سرکاری افسر لیکن وزرا سے کہیں زیادہ بااثر شخصیت۔ ذمہ دار ذرائع کے مطابق وزیرا عظم اُن دنوں پہلے ہی سے اپنے قریبی حلقوں کے ذریعے بااثر افراد کے اس گروہ بارے شکایات وصول کر چکے تھے۔ رپورٹ دیکھی تو وزیر اعظم کو لاحق خدشات یقین میں بدلنے لگے، رپورٹ زلفی بخاری تک پہنچی اور انہیں متعلقہ کرداروں کی نشاندہی کا کہا گیا۔ زلفی بخاری نے رپورٹ کی تائید کی۔ یہی وہ وقت ہے جب اچانک فروری کے پہلے ہفتے اور وسط فروری میں عارف رحیم اور کنول بتول کا تبادلہ کیا جاتا ہے۔ عارف رحیم صو بائی سروسز کے گریڈ اٹھارہ کے افسر ہیں، 2017ء میں ڈائریکٹر اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ راولپنڈی تعینات ہوئے، ایک سال بعد انہیں ایس اینڈ جے ای ڈی میں بھیجا گیا لیکن تبادلہ روک دیا گیا تھا، پھر انہیں 2020ء میں ایسٹ ریکوری یونٹ میں ٹرانسفر مل گئی، یہاں یہ ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے پر تعینات ہوئے حسنِ اتفاق یا کچھ اور کہ یہ ماضی قریب میں ٹیکسلا اور راولپنڈی میں بھی خدمات انجام دے چکے تھے یعنی ان کی خدمات کا دائرہ اینٹی کرپشن اور اے آر یو (Asset Recovery Unit)کے آس پاس ہی منڈلاتا ہے۔ وزیر اعظم کو دی گئی رپورٹ میں دو اہم حکومتی شخصیات کے علاوہ جن سرکاری افسران کا ذکر تھا ان میں عارف رحیم کے علاوہ دوسری شخصیت مس کنول بتو ل تھیں۔ کنول بتول ایڈیشنل کمشنر ریونیو، ڈی سی گوجرانوالہ رہنے کے بعد فروری 2020ء میں ڈائریکٹر اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ راولپنڈی تعینات ہوئیں۔ اس کے علاوہ رپورٹ میں نائب تحصیلدار جاوید کے نام پر بھی سوالیہ نشان اٹھایا گیا تھا، یہ نائب تحصیلدار راولپنڈی ہوتے ہوئے تحصیلدار راولپنڈی کا بھی اضافی چارج رکھتے تھے۔ ایک اور کردار آر ڈی اے میں ڈائریکٹر پلاننگ شہزاد ہیں، جن کے خلاف اینٹی کرپشن میں انکوائری تا دم تحریر بھی چل رہی ہے۔ اہم ذرائع کے مطابق یہ چھ افراد کا گروپ تھا جن کا آپسی ربط اور دو اہم حکومتی شخصیات کے ساتھ قریبی تعلق رپورٹ میں ثابت کیا گیا ہے اور ان سے منسوب معاملات اور مشکوک وارداتوں کا احوال تفصیلاً بیان کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس گروپ کی سموتھ ورکنگ کیلئے ڈی جی راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی راولپنڈی عمارہ خان کا تبادلہ کیا گیا تاکہ ان کی راہ میں رکاوٹیں پیدا نہ ہوں۔
ان تفصیلات کی روشنی میں پہلا سوال یہ ہے کہ عارف رحیم اور کنول بتول کو کس اہم مشیر اور طاقتور سرکاری افسر کی اشیر باد حاصل تھی اور یہ کن کاموں کیلئے تھی؟ یہ افراد گروپ کی صورت میں راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے سے جڑے معاملات میں کیوں ملوث پائے گئے؟ ان کے تبادلے اور تقرریاں کن حالات میں اور کہاں کہاں کی گئیں؟ اور پھر وزیراعظم کو اہم رپورٹ موصول ہونے کے بعد ان دونوں اہم کرداروں کا اچانک تبادلہ کیوں کیا گیا؟ کہانی سے جڑے پہلے حصے کی تشنگی ان سوالوں کے جوابات ملنے کی صورت میں ختم ہو سکتی ہے اور یہ جواب پی ایم آفس، زلفی بخاری اور احتساب کے محکمے ہی دے سکتے ہیں۔
ذمہ دار ذرائع کے مطابق جنوری کے آخری ہفتے میں کمشنر راولپنڈی کیپٹن (ر) محمد محمود کو رات دس بجے بنی گالا یاد کیا جاتا ہے جہاں وزیراعظم نے مختصر ملاقات میں ان کرداروں کا ذکر کیا جن کی نشاندہی رپورٹ میں کی گئی تھی۔ کمشنر کی تصدیق کے بعد وزیراعظم مزید ایکٹو ہو گئے، اگلے ہی روز انہوں نے دوبارہ کمشنر کو طلب کر لیا۔ اس روز وزیراعظم اور زلفی بخاری کے علاوہ یہاں وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان بھی پہلے ہی سے موجود تھے، وزیر اعظم سے ملاقات سے پہلے کمشنر سے اسی معاملے سے جڑے کچھ سوالات پوچھے گئے جس کے جواب میں کمشنر نے قدرے محتاط رہتے ہوئے بتایا کہ وزیر اعظم کو دو چار لوگ مِس گائیڈ کر رہے ہیں۔ یہی وہ وقت ہے جب عارف رحیم اور کنول بتول کے عہدوں سے ہٹائے جانے کی کاروائی کا آغاز ہوتا ہے۔ رپورٹ میں جن دو اہم اور بااثر شخصیات کا ذکر سوالیہ نشانوں کے ساتھ کیا گیا ہے انہوں نے کمشنر کی وزیر اعظم سے ہوئی پہلی ملاقات والے دن سے ہی کمشنر کو مارک کر رکھا تھا لہٰذا اس بیچ وزیر اعظم کو رنگ روڈ منصوبے میں مختلف زمینوں کی خرید و فروخت اور ملکیت بارے تواتر کے ساتھ بریف کیا گیا کہ اصل کھاتے تو یہاں ہیں، کوشش کی گئی کہ وزیر اعظم مذکورہ سرکاری رپورٹ پر توجہ دینے کے بجائے ان کھاتوں میں زیادہ دلچسپی لیں۔
وزیر اعظم کے قریب ایک شخصیت‘ جو نسبتاً کم گو اور لائم لائٹ سے دور رہنا پسند کرتی ہے‘ کے مطابق وزیر اعظم سرکاری رپورٹ، زلفی بخاری کے جواب، کمشنر کی روداد اور دیگر دستیاب معلومات کے باوجود بھی مطمئن نہیں ہو پا رہے تھے لہٰذا انہوں نے مذکورہ رپورٹ اپنے معتمد خاص سرکاری افسر کو بھی تھما دی کہ اسے ویریفائی کر کے کرداروں کی درست نشاندہی کی جائے۔ معتمد خاص وزیر اعظم کے ہی ایک اور مشیر کی مدد سے رپورٹ ویریفائی کرنے کے عمل کے دوران ایک اور سرکاری ادارے کی رپورٹ منظر عام پر لاتے ہیں جو پہلے سے دستیاب سرکاری رپورٹ کی نفی کرتی ہے۔ اس نئی رپورٹ میں مبینہ گھپلوں، زمینوں کی خرید و فروخت، فرنٹ مینوں کی کہانیاں اورسیاسی شخصیات کا بھر پور ذکر کیا گیا تھا۔ وسط اپریل میں کمشنر پنڈی سے ایک ملاقات کے دوران وزیر اعظم نے کمشنر سے استفسار کیا کہ آپ نے راولپنڈی رنگ روڈ کی الائنمنٹ کس پارلیمنٹرین کے کہنے تبدیل کی ؟ اس ملاقات میں وزیر اعظم اور اعظم خان‘ دونوں کی خواہش تھی کہ کمشنر کسی ملوث شخصیت کا نام لیں؛ تاہم کمشنر نے کہا کہ وہ اس سلسلے میں کسی دبائو کا شکار نہیں ہوئے اور انہوں نے وہی الائنمنٹ کی جو بہترین ہوسکتی تھی، اس پر انہیں جانے کا کہا گیا، جاتے ہوئے وزیر اعظم یہی کہہ پائے: آئی ایم ریلیوڈ۔ انہی دنوں کا واقعہ ہے کہ جب وزیراعظم نے زلفی بخاری کو بلایا اور ان سے پہلی بار پوچھا کہ کہ تم نے کمشنر کو کہہ کر الائنمنٹ تبدیل کروائی؟ زلفی بخاری نے ناں میں جواب دیا تو وزیراعظم نے انہیں کہا کہ وہ اب کمشنر کو تبدیل کرنے بارے فیصلہ کرچکے ہیں۔ چند گھنٹوں بعد کمشنر عہدے سے ہٹا دیے گئے۔
پھر راولپنڈی میں گلزار شاہ کمشنر تعینات ہوئے جنہیں آتے ہی فیکٹ فائنڈنگ کا ٹارگٹ دیا گیا۔ اس بیچ کم از کم دس افسران عہدوں سے ہٹا کر او ایس ڈی بنا دئیے گئے، کیوں؟ تاحال کوئی ذمہ دار اس کا جواب دینے کو تیار نہیں۔ گلزار شاہ وہی ہیں جن پر ڈسکہ الیکشن چرانے کا الزام لگا۔ یہ ملتان اور خوشاب میں بھی خدمات سر انجام دے چکے ہیں جہاں ان کے کافی چرچے رہے۔ انہوں نے آتے ہی عید کی چھٹیوں کے دوران دس بارہ روز کے اندر اندر فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ تیار کر ڈالی۔
چیف سیکرٹری کی بنائی کمیٹی میں ان کے علاوہ ایڈیشنل کمشنر راولپنڈی، ڈپٹی کمشنر راولپنڈی بھی شامل تھے۔ گلزار شاہ اور ان دو افسران کے درمیان رپورٹ کی تشکیل کے دوران کتنی ملاقاتیں ہوئیں؟ کن معاملات پر بات ہوئی؟ اس بارے گلزار شاہ صاحب خود ہی کسی روز روشنی ڈالیں تو مناسب رہے گا۔ رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد جب گلزار شاہ صاحب سے رابطہ کرتے ہوئے دنیا نیوز کے صحافی حسن رضا نے کچھ سوالات کا جواب جاننے کی کوشش کی تو شاہ صاحب سوال گول مول کرتے ہوئے ان کی 'ڈسپلے پکچر ‘کی تعریف کرنے پر زیادہ توجہ دیتے رہے۔ (جاری)