14 شاہکار ناول لکھنے والا رکشہ ڈرائیور فیاض ماہی…!

لگ بھگ 13 برس پہلے میں جب پنجاب یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا‘تو رہائش نیو کیمپس کے ہوسٹل نمبر 13 میں تھی۔ بی ایس آنرز اور پھر ایم فل کرتے کرتے6 سے 7 سال بیت گئے ۔ سینئر ہونے کی وجہ سے 2 سال بعد ہی ہوسٹل میں ڈارمیٹری سے کیوبیکل روم الاٹ ہو گیا۔ کیوبیکل کا سائز بس اتنا ہوتا ہے کہ اس میں ایک چارپائی یا میٹرس‘ ٹیبل کرسی اور الماری ہی بمشکل فٹ آتی ہے۔میرے کیوبیکل کو ہمیشہ ایک ڈیرے کی سی حیثیت حاصل رہی‘ ایک روز ریڈیو سٹیشن سے رات کے پچھلے پہرہاسٹل واپسی ہوئی‘ تو کمرے میں سات آٹھ دوستوں کو محو نیند پایا۔ دروازہ ہمیشہ کی طرح کھلا تھا‘ ہلکی روشنی میں کمپیوٹر سسٹم پر عابدہ پروین کا عارفہ کلام 'رپیٹ‘پر تھا۔ کہیں جگہ نہ ملی‘ تو دروازے کیساتھ ٹیک لگا کر سو گیا‘‘ فجر سے پہلے ہاسٹل کے وارڈن پروفیسر ڈاکٹر مغیث الدین شیخ‘ عملے کے ہمراہ چھاپے پر آن نکلے۔ مقصدہاسٹل میں غیر قانونی طریقے سے مقیم طالبعلموں کی چھٹی کرانا تھا۔ ہمارے کمرے تک پہنچے ‘تو وہ دم بخود رہ گئے‘ عملے نے لائٹ آن کی‘ ہم سب اچھے بچوں کی طرح ہاتھ پیچھے باندھ کر مؤدبانہ انداز میں کھڑے ہو گئے‘ خدشہ تھا کہ ڈاکٹر صاحب ‘خوب عزت افزائی فرمائیں گے‘ لیکن خلاف ِتوقع وہ مسکرا دئیے‘ کہنے لگے ایک سٹوڈنٹ کے لئے مختص کیوبیکل میں آخر اتنے افراد کیسے سو سکتے ہیں؟ اگر تم لوگ دوبارہ اس چھوٹی سی جگہ میں فِکس ہوکر دکھا دو تو عام معافی۔ ہم نے فوری یہ کارنامہ کر دکھایا۔ ڈاکٹر صاحب حیران ہوئے اور مسکراتے ہو ئے چل دئیے۔ یہ واقعہ جب بھی یاد آتا ہے‘ ناسٹیلجیک ہو کر بے اختیار ہنستا ہوں‘ لیکن دو ماہ قبل اس واقعہ کی ایک اور منظر کشی دیکھی ‘تو ہنسنے کی بجائے رو دیا۔ واقعہ فیصل آباد کا ہے‘ ناظم آباد کے علاقے میں سابق وفاقی وزیر عابد شیرعلی کی رہائش گاہ سے چار پانچ گلیاں چھوڑ کر ایک گلی میں پونے دو مرلے کا ایک چھوٹا سا گھر ہے۔ ایک کمرے پر مشتمل اس گھر میں لوڈر رکشہ ڈرائیور فیاض ماہی اور ان کا خاندان کرائے پر مقیم ہے۔ فیاض ماہی کی پانچ بیٹیاں ہیں۔ سات افراد اسی ایک کمرے میں گزر بسر کرتے ہیں۔ کیسے کرتے ہیں؟ یہ راز صرف رب کی ذات ہی جانتی ہے۔ فیاض ماہی کوئی عام رکشہ ڈرائیور نہیں‘ یہ 14 شاہکار ناولوں کے علاوہ سو سے زائد ڈارمے بھی لکھ چکے ہیں۔ مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ ان کے گیارہ ناول تین تین بار چھپ چکے ہیں۔ کسمپرسی کے باوجود ان کے ہاں اہل فیصل آباد کی حس ِظرافت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ فیاض ماہی کو کیوبیکل کمرے میں اپنے ساتھ پیش آیا واقع سنایا‘ تو وہ بے اختیار ہنس دیا۔ 
کہنے لگا: مجھ سے نہیں پوچھیں گے کہ سات افراد ایک کمرے میں یہاں کیسے رات گزارتے ہیں؟ میری آنکھیں نم ہوگئیں اوردونوں اطراف سے طویل خامشی میں سوال کا جواب کسی پھوڑے کی طرح دماغ میں دکھنے لگا۔ فیاض کہنے لگا کہ اب عمر اڑتالیس برس ہوچکی ‘ بینائی بھی ساتھ چھوڑ رہی ہے‘ لکھنا پڑھنا اور مزدوری کرنا محال ہوتا جا رہا ہے۔ بھیک مانگ نہیں سکتا۔ لوڈر رکشہ چلاتا ہوں‘ سیٹھ کا مال گودام سے دکان تک پہنچاتا ہوں‘ چار پیسے بن جاتے ہیں‘ مالی ابتری کے باعث نوبت فاقوں تک آن پہنچے‘ تو دوست احباب شفقت فرماتے ہیں اور یوں کسی حد تک گزر بسر ہو ہی جاتی ہے۔ بڑی بیٹی جوان ہو رہی ہے‘ شام کو قریب ہی ماموں کے ہاں چلی جاتی ہے‘ تاکہ نیند پوری کر سکے۔ باقی چھ افراد اسی کمرے میں سوتے ہیں۔ فیاض کہنے لگا کہ تمام بچیوں کو پڑھا رہا ہوں اور انہیں تعلیم دلوا کر ہی دم لوں گا۔ کئی گھنٹوں پر طویل نشست میں معلوم ہوا کہ موصوف کئی برسوں تک ماہی لائبریری چلاتے رہے ہیں‘ لائبریری میں ہزاروں کتب تھیں‘ یہ وہاں بیٹھے بیٹھے تمام کتابیں پڑھ چکے ‘ پھر خیال آیا کہ یہ سب تو میں بھی لکھ سکتا ہوں‘ بس اسی خیال نے فیاض ماہی کو ناول نگار بنا دیا۔ پوچھا بھیا! ان ناولوں میں کیا بیچتے ہو؟ کہا :ہڈ بیتی۔پہلا ناول 'گھنگر و اور کشکول‘ 2005 ء میں شائع ہوا‘ ناول اس بازار کی
داستان ہے‘ جہاں بیٹا پیدا ہونے پر صف ماتم بچھ جاتی ہے۔ فیاض کے ہاں موضوعات میں یکسانیت کی بجائے تنوع ہے‘ مثلا : 'گیلے پتھر‘ غار حرا سے تمثیل عشق حقیقی پر مبنی ایک سچے واقعہ کی کہانی ہے۔'کاغذ کی کشتی‘ پاکستان کے موجودہ سیاسی منظر نامے کی عکاسی کرتی داستان ہے۔'تاوان عشق‘عشق مجازی سے عشق حقیقی تک کا سفر۔'عین شین قاف‘ تاجدار مدینہ کی محبت میں مجذوب ایک عارف کی نگاہ۔ 'موم کا کھلونا‘ دہشت گردی کے ناسور پر چبھتی تحریر‘۔'ٹھہرے پانی‘ ایک ہیجڑے کی آپ بیتی۔ 'میرا عشق فرشتوں جیسا‘محبت میں توحید کے قائل دو کرداروں کی آپ بیتی ہے۔ 
فیاض کی باقاعدہ تعلیم تومڈل تک ہے‘کیونکہ جب میٹرک میں تھا ‘تو چالیس روپے اکٹھے نہ ہوسکے ‘ فیس جمع نہ ہوئی اور یوں فیاض کا باقاعدہ تعلیم کا سلسلہ رک کر رہ گیا۔ اس نے یہ کمی لائبریری میں بیٹھ کر خوب پوری کی۔ گھر والوں کا پیٹ پالنے کے لئے ریڑھی پر چھلیاں بیچیں‘ کتابیں رسالے پڑھنے کا شوق بچپن سے تھا‘ جو کمائی میں بچایا اس سے کتابیں خریدیں اور یوں ایک دن لائبریری کا مالک بن گیا ‘لیکن حالات سے تنگ آکر لائبریری چھوڑ کر رکشہ چلانے پر مجبور ہوا۔
عابد شیر علی‘ بچپن کے دوست ہیں‘ اکٹھے کرکٹ کھیلی ‘لیکن جب سے وزیر بنے ‘موصوف نے پلٹ کر خبر تک نہ لی؛ حتیٰ کہ دو ماہ پہلے جب ٹی وی پروگرام ' نقطہ نظر‘‘ میں فیاض ماہی کا انٹرویو نشر ہوا تو ہم نے بارہا وزیر صاحب سے رابطہ کیا‘ لیکن وہ دستیاب نہ ہوئے۔ سوشل میڈیا پر بھی انہیں ٹیگ کر کے فیاض ماہی کی جانب ان کی توجہ مبذول کروائی‘ لیکن جم میں ایکسرسائز کرتے ہوئے سیلفیاں پوسٹ کرنے کے علاوہ شاید انہیں سوشل میڈیا کا کوئی دوسرا مصرف دکھائی نہیں دیتا۔ اب ہم نے اسی حلقے سے کامیاب ہونے والے اپنے یونیورسٹی فیلو فرخ حبیب سے گزارش کر رکھی ہے کہ وہ فیاض کی مدد کریں۔ 
دو ماہ پہلے پنجابی زبان کے منفرد شاعر مدثر نارو کے ہمراہ فیصل آباد میں ایک کانفرنس میں شرکت کے لئے جانا ہوا ‘ تو رات گئے ہم لائلپور ٹی ہاؤس میں معروف ادیب اور نامور شاعر انجم سلیمی کے مہمان بنے۔ فیاض ماہی کا غائبانہ تعارف اسی نشست میں ہوا۔ انجم سلیمی ایسا نقاد بھی فیاض ماہی کی تخلیقی صلاحیتوں کا معترف نکلا۔ بس پھر کیا تھا‘ صبح سویرے ہی دنیا نیوز کے بیورو چیف شہروز عباد کے ہمراہ فیاض ماہی کی تلاش میں چل نکلے۔ دن کے پچھلے پہرے ان سے ملاقات ہوئی اور پھر '' نقطہ نظر ‘‘کے لئے ان کا تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ انٹرویو نشر ہوا تو شامی صاحب نے فیاض ماہی کی حالت زار اور حکومتی بے حسی کا خوب نوحہ پڑھا۔ پروگرام کے دوران ہی ملک ریاض صاحب کافون آگیا ۔ انہوں نے فیاض کے لئے ایک گھر خرید دینے کا وعدہ کیا۔ پروگرام ختم ہوا‘ تو آئی ایس پی آر سے کرنل شفیق کا فون آیا۔ انہوں نے فیاض کا نمبر مانگا اور ہمارا شکریہ ادا کیا کہ ہم نے ایک ضرورتمند ادیب کی نشاندہی کی۔ کرنل صاحب نے کہا کہ وہ جلد اس سلسلے میں ڈی جی آئی ایس پی آر سے رابطہ کریں گے اور ان کی کوشش ہو گی کہ پاک فوج اس ادیب کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور کرے۔ گزرے جمعے کو ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے فیاض ماہی سے اپنے آفس میں ملاقات کی اور انہوں نے پاک فوج کے میگزین'' ہلال‘‘ میں فیاض کو مستقل نوکری دینے کا اعلان کیا۔ فیاض‘ جنرل صاحب سے مل کر واپس فیصل آباد روانہ ہوا‘ تو وہ خاکسار سے فون پر مخاطب تھا‘ اس کی آواز میں برپا لرزش بتا رہی تھی کہ اس کی آنکھوں میں نمی تیر رہی ہے۔ 
میں البتہ آج کل لائلپور کے نواح میں ایک اور ادیب سے دوستی کر نے کی سعی میں مصروف ہوں‘ جو پیشے کے اعتبار سے جوتے بنانے اور گانٹھنے کا کام کرتا ہے‘ لیکن پنجابی زبان میں 4 شاہکار تصنیف کر چکا ہے۔ یہ کہانی پھر سہی!

 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں