بھارت کی سترہویں لوک سبھا کے انتخابات کل سے شروع ہو گئے ہیں۔دنیا کا سب سے بڑا چناؤگیارہ اپریل سے انیس مئی تک سات مراحل میں مکمل ہوگا۔ووٹوں کی گنتی 23مئی کو ہوگی۔ نوے کروڑ رجسٹرڈ ووٹرز کیلئے بھارت بھر میں دس لاکھ پولنگ سٹیشنز بنائے گئے ہیں۔ نوے کروڑ رجسٹرڈ بھارتی ووٹرز تعداد میں یورپی یونین اور امریکہ کی مجموعی آبادی سے بھی زیادہ ہیں۔ یہاں 543 کے ایوان میں جیت کے لئے 272 سیٹیں درکار ہوتی ہیں۔ بھارتی انتخابات زیادہ ٹرن آوٹ کی وجہ سے بھی دنیا بھر کی توجہ حاصل کرتے ہیں۔ 2014 ء یعنی گذشتہ انتخابات میں یہاں مجموعی ٹرن آوٹ 66 فیصد سے زائد رہا۔1951ء میں بھارتی لوک سبھا کے پہلے چناؤ میں ٹرن آوٹ45فیصد رہا تھا۔ پچھلے چناو ٔمیں 464 سیاسی جماعتوں کے8250 امیدوار میدان میں اترے جو 1951 ء کے پہلے انتخابات کی نسبت سات گنا زیادہ ہیں۔ اب کی بار دو ہزار پارٹیوں کے آٹھ ہزار سے زائد امیدوار اپنی قسمت آزمائیں گے۔
بھارت کا پہلا چناؤ تین ماہ میں مکمل ہوا ‘1962 سے لے کر 89تک ہوئے انتخابات دس دنوں میں مکمل ہوتے رہے۔ 80 کا معرکہ البتہ صرف چار دنوں میں پورا ہوا۔ لوک سبھا کے چناؤ میں مقامی پولیس پر جانبداری کا تاثر ہونے کی وجہ سے وفاقی اداروں کے اہلکار تعینات کئے جاتے ہیں۔ ان انتخابات کی سب سے خاص بات بھارتی الیکشن کمیشن ہے۔ چناؤ کیلئے ایک کروڑ دس لاکھ سکیورٹی اور الیکشن کمیشن اہلکار دس لاکھ پولنگ سٹیشنوں پر ڈیوٹی دیں گے۔ بااختیار‘ مؤثر اور وسائل سے مالا مال بھارتی الیکشن کمیشن دنیا کے سب سے بڑے چناؤ کے انعقاد کو ہمیشہ سے ہی کامیابی سے ممکن بناتا چلا آرہا ہے۔ سابق بھارتی الیکشن کمشنر شہاب الدین یعقوب قریشی سے چند برس پہلے ملاقات ہوئی تو انہوں نے انتخابی عمل میں الیکشن کمیشن کے کردار اور عملداری پر تفصیل سے روشنی ڈالی‘ ایسا الیکشن کمیشن پاکستان کیلئے تاحال ایک خواب ہی ہے۔ بہرحال قریشی صاحب نے بتایا کہ 2009 ء کے عام انتخابات کے دوران مغربی گجرات کے گیر جنگل میں صرف ایک ووٹر کیلئے پولنگ سٹیشن بنایا گیا۔ ووٹر جو کہ مقامی گارڈ تھا ‘نے ووٹ کاسٹ کیا لیکن پولنگ سٹیشن مقررہ مدت یعنی شام تک کھلا رہا۔ ادھر ہم ابھی تک الیکٹرانک مشین کے ٹرائل کر رہے ہیں تو اْدھر بھارت میں23 لاکھ الیکٹرانک مشینیں حالیہ انتخاب میں استعمال ہونے جارہی ہیں۔ ان مشینوں کے ذریعے ووٹوں کی گنتی محض تین گھنٹوں میں مکمل ہوجاتی ہے۔
بھارتی سینٹر فار میڈیا سٹڈیز کے مطابق 2014 ء کے انتخاب میں مجموعی طور پر پانچ ارب ڈالر خرچ ہوئے ‘ اب کی بار اخراجات دس ارب ڈالر تک ہو جائیں گے۔ یاد رہے کہ امریکہ میں ہوئے 2016 ء کے انتخابات میں ریکارڈ چھ اعشاریہ پانچ ارب ڈالر لگے تھے۔ اس لحاظ سے بھارتی انتخابات تعداد اور اخراجات کے اعتبار سے دنیا کے سب سے بڑے اور مہنگے انتخابات ثابت ہوں گے۔ حالیہ انتخابی معرکے کی ایک اور خاص بات خواتین ووٹرز کی مردوں کی نسبت بڑھتی ہوئی تعداد ہے‘ جس کی وجہ سے تمام سیاسی جماعتیں خواتین ووٹرز پر خصوصی توجہ دینے پر مجبور ہوئیں۔ گذشتہ انتخابات میں مردوں کا ٹرن آوٹ67 اور خواتین کا ریکارڈ65 اعشاریہ تین فیصد رہا۔ 2012 ء سے2018ء تک ہوئے بھارتی مقامی انتخابات میں خواتین بازی لے گئیں اور ان کا ٹرن آوٹ مجموعی طور پر مردوں سے زیادہ رہا۔ 2014ء میں بی جے پی نے 428 سیٹوں پر مقابلہ لڑتے ہوئے ریکارڈ 282 سیٹیں حاصل کیں ‘ کانگرس بدترین نتائج کے ساتھ صرف 44 سیٹیں ہی حاصل کر سکی۔
حالیہ انتخابات کو نریندر مودی کے لئے ایک ریفرنڈم قرار دیا جا رہا ہے جبکہ 133 سالہ پرانی جماعت کانگرس کو اپنی ساکھ بچانے کے ساتھ ساتھ دوبارہ اقتدار میں آنے کا چیلنج درپیش ہوگا۔ دسمبر2018ء میں کانگرس نے تین اہم شمالی ریاستوں میں بی جے پی کی لنکا ڈھاتے ہوئے لوک سبھا کے چناؤ کے لئے مودی جی کو چتاؤنی دی تھی۔ یہی نہیں بلکہ راہول گاندھی کے ساتھ کرشماتی شخصیت کی حامل ان کی بہن پریانکا گاندھی بھی اب کی بار میدان میں ہیں اور انہیں عوام کی جانب سے خاطر خواہ پذیرائی بھی مل رہی ہے۔
پاکستان مخالف مودی کا پراپیگنڈابی جے پی کی انتخابی مہم کا اہم جزو رہا ہے لیکن بھارتی انتخابات میں ملکی اکانومی بھی قابل غور سبجیکٹ رہے گا کیونکہ ایشیا کی تیسری بڑی اقتصادی قوت حالیہ برسوں میں تنزلی کا شکار ہے۔ کسان شدید دباؤ کا شکار ہیں‘ اور ان کے ہاں حکومتی پالیسیوں پرواضح غم و غصہ پایا جاتاہے۔ بھارت کی غیر رسمی اکانومی کے سمال اور میڈیم بزنس مین سیلز ٹیکس اور بے روزگاری سے ڈپریشن کا شکار ہیں۔ بے روزگاری کے ساتھ ساتھ ملکی برآمدات میں بھی کمی دیکھنے میںآ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مودی جی اکانومی ریفارمز کا نعرہ بھی لگا رہے ہیں۔ رافیل طیاروں کی ڈیل اور اس میں مبینہ گھپلا بھی مودی سرکار کے لئے ایک درد سر رہا ہے۔ دوسری جانب راہول گاندھی غریبوں کیلئے کم از کم انکم کی فراہمی کا وعدہ کر رہے ہیں۔
غیر ملکی مبصرین کے مطابق یہ مسائل اپنی جگہ لیکن نیشنلزم کا نعرہ مودی جی کے لئے تمام تر دروازے کھول سکتا ہے۔ مودی کا یہ بیانیہ بھارت کو فکری طور پر دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے ووٹرز کی توجہ تمام بنیادی مسائل سے وقتی طور پر ہٹا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیس کروڑ کے لگ بھگ بھارتی مسلمان ایک پسی ہوئی اقلیت بن کر رہ گئے ہیں اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ اس وقت بھارتی لوئر ہاؤس میں بی جے پی کا ایک بھی ایم پی مسلمان نہیں۔ مستقبل میں مودی سرکار کے عزائم کا اندازہ امیت شاہ کے حالیہ بیان سے بھی لگایا جاسکتا ہے جس میں انہوں نے برملا کہا کہ الیکشن جیت کر ہم ''نیشنل رجسٹر کاوئنٹ‘‘کو سکھوں‘ بدھ مت اور ہندومت کے پیروکاروں کے علاوہ باقی تمام تر اقلیتوں کیلئے لاگو کریں گے۔ ظاہر ہے اس رجسٹریشن کا سب سے بڑا ٹارگٹ مسلمان ہوں گے۔ سوشل میڈیا پر ترقی پسندبھارتی تجزیہ کاروں نے ان کے اس بیان کو ہٹلر کی پالیسیوںکا غماز قرار دیا ۔ ہمارے ہاں واجپائی کی بی جے پی اور مودی کی بی جے پی میں واضح فرق کو بروقت نہیں سمجھا گیا‘ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان مودی کی جیت سے اچھے کی امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیںحالانکہ مقبوضہ وادی کیلئے بھارتی آئین کی شق 370(خصوصی سٹیٹس) کا خاتمہ بھی مودی کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ لہٰذا مودی کی جیت ہندوتوا کے توسیع پسندانہ عزائم‘ مقبوضہ وادی میں جبر کا نظام او ربھارت بھر میں مسلمانوں کے لئے زمین تنگ کرنے کیلئے کھلی چھوٹ ثابت ہوسکتی ہے۔
بہر حال بھارتی چناؤ کے دلچسپ ڈائنامکس کی بات مزید آگے بڑھائیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں شمالی ریاست اتر پردیش کا کردار ہمیشہ سے ہی انتہائی اہم رہا ہے۔ یو پی سے 80 ارکان لوک سبھا کا انتخاب ہوتا ہے۔ یوپی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایاجا سکتا ہے کہ راہول اور مودی دونوں یو پی سے ہی الیکشن لڑیں گے۔ مودی جی اور راہول گاندھی کے علاوہ مغربی بنگال سے تریمنامول، کانگرس کی ممتا بینر جی‘ یوپی کے سابق وزیر اعلیٰ سماج وادی پارٹی کے اکھلیش یادو‘ بہوجن سماج پارٹی کی مایا وتی‘ کانگرس کے ششی تھرور‘ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے اسد الدین اویسی اور بہار کے سابق وزیر اعلیٰ نتیش کمار بھارتی انتخابات میں مرکز نگاہ ہوں گے۔ حالیہ ریاستی انتخابات میں کانگرس کی اٹھان سے ایک بات تو طے ہے کہ کانگرس گزشتہ انتخابات کی طرح بد تر شکست سے دوچار تو ہرگز نہ ہوگی اور نہ ہی مودی سرکار ریکارڈ کامیابی سمیٹ سکے گی۔ معاملہ دلچسپ ہوتا دکھائی دے رہا ہے اور ایسے میں مقامی سیاست کے نیتا حکومت سازی میں ترپ کے پتے ثابت ہوں گے۔