پی پی کے ایک دبنگ اور طویل قامت رہنما شہرِ اقتدار کی ایک مہمان نواز شخصیت‘ کہ جن کے آستانے کو یہ کمال حاصل ہے کہ وہاں آگ اور پانی‘ دونوں آن ملتے ہیں‘ پر بیٹھے محض سلاد کے پتے کھاتے ہوئے بولے: ہاں! ایلفی پگھل گئی ہے۔ ان کا تبصرہ ابھی ادھورا ہی تھا کہ حکمران جماعت کے ایک کھلے ڈھلے اور بھرپور سیاسی رہنما پلیٹ میں دال ماش فرائی ڈالتے ہوئے گویا ہوئے: نہیں صاحب! ابھی پگھلنے کا وقت نہیں ہوا، تُنکے کا یہ مطلب کیسے نکال لیا گیا کہ ایلفی پگھل گئی۔ دال ماش فرائی ان کی پسندیدہ ڈش ہے، اہتمام کے ساتھ پلیٹ سجاتے ہیں، چپاتی کے بجائے چمچ کے ساتھ سلاد اور دال ماش تناول کرنا انہیں بے حد مرغوب ہے۔ مدعا چونکہ اہم تھا تو وہ پلیٹ تھامے ڈائننگ ٹیبل کے عقب میں پڑی بڑی کرسی پر جا بیٹھے، لقمہ لیا ہی تھا کہ ہماری جانب متوجہ ہوکر کہنے لگے: کٹی ہوئی ادرک تو دیکھئے اگر مل جائے...، پوچھا کیوں صاحب؟ کہنے لگے دال ماش بادی ہوتی ہے‘ بادی پن کا توڑ ادرک ہے۔ لمبی اور باریک کٹی ہوئی ادرک انہیں تھماتے ہوئے ان کی حکمت کی داد دی اور پوچھا کہ سرکار کو جو بادی پن لاحق ہوا ہے، اس کا توڑ کیا ہے؟ ادرک چباتے ہوئے یہ صاحب‘ جو اکثر رات گئے ادب پارے اور اپنے پسندیدہ اشعار وٹس ایپ کرتے رہتے ہیں‘ تھوڑی دیر کیلئے رکے، گہری سوچ میں مبتلا ہوئے اور پھر عباس تابش کی ایک غزل کے ذریعے کچھ کہنے کی سعی کرتے رہے، بولے: ؎
ترے گمنام اگر نام کمانے لگ جائیں
شرف و شیوہ و تسلیم ٹھکانے لگ جائیں
پوچھا صاحب! یہ کیا بات ہوئی؟ بادی پن واضح ہے، اب تک کی علامتیں بتاتی ہیں کہ علاج نہ ہوا تو اس کے کارن معدے کو کئی اہم عوارض لاحق ہو سکتے ہیں۔ وہ پھر بولے: ہاں یہ سچ ہے، اب تو یہ فکر ہے کہ ؎
جن کے ہونے سے ہے مشروط ہمارا ہونا
اپنے ہونے کا نہ احساس دلانے لگ جائیں
صاحبِ محفل نے اس شعر پر بھرپور داد دی۔ محفل چونکہ انتہائی مختصر تھی، چاند ڈھل رہا تھا اور شہر اقتدار کی خنک رات خامشی کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھی، لہٰذا ایک دوجے کی بات سنی جا رہی تھی، بات کہی جا رہی تھی، نکتے ملائے جا رہے تھے اور ہم ٹھہرے نکتہ چین، محض نکتے اٹھا کر لطف لے رہے تھے۔ ایسے میں نسبتاً خاموش طبع ایک سینئر صحافی دوست نے گھنٹوں پر محیط نشست کا خلاصہ بیان کرنے کی کوشش کی۔ کہنے لگے کہ دیکھئے صاحب! سامنے کی بات ہے، پنجاب اگر چودھریوں کے حوالے کر دیا جائے تو یہ نواز شریف اور کپتان دونوں کو وارے نہیں کھاتا، چودھری آئے تو ان کی جماعت تگڑی ہو گی، وہ ڈِلیور کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں، اپنا قد کاٹھ بڑھائیں گے اور مستقبل کیلئے اچھی خاصی انویسٹمنٹ کر گزریں گے، اس کا نقصان ن لیگ اور پی ٹی آئی دونوں کو ہوگا، یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم اس نسخے کی طرف کبھی متوجہ نہیں ہوئے۔ ن لیگ کی حالیہ ہوئی مشاورتی بیٹھکوں میں بھی بڑوں نے اس پر اعتراض کیا ہے۔ اپوزیشن کی یہ بڑی جماعت دراصل اگلے انتخاب پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے، فی الحال کسی تبدیلی یا ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کو تیار نہیں، ان کا مدعا بہت سادہ ہے، یہ چاہتے ہیں کہ اگلے الیکشن جب بھی ہوں، نیوٹرل ہوں، میدان سب کے لئے عام ہو اور تب تلک یہی بہتر ہے کہ حکمران جماعت اپنی کارکردگی کے ملبے تلے دبتی رہے۔ رہ گئی بات پی پی کی‘ تو وہ متبادل کے طور پر کئی ایک تدابیر سوچے ہوئے ہے، گیلانی صاحب کی جیت انہی تدابیر میں سے ایک ہے، معاملہ فہمی کو تقویت دینے کیلئے پی پی کے در کھلے ہیں اور کھلے رہیں گے۔ مولانا صاحب کا درجہ حرارت بھی پی پی کی حالیہ چال سے قدرے نیچے آیا ہے۔ Go slow and go meaningful to engage پی پی کا منتر ہے۔ ن لیگ کے استعفوں کی تجویز مولانا کو تو بے حد پسند آئی لیکن پی پی نے اپنی حالیہ حکمت عملی سے دونوں کو قائل کیا کہ یہ نسخہ ابھی درکار نہیں، ابھی سرکار بادی پن کا شکار ہے، بادی پن سے دیگر عارضے لاحق ہونے دیجیے، شاید طبیب بے بس ہو جائے اور معاملہ سرجری تک جا پہنچے۔ یہی وجہ ہے کہ چودھری برادران نے ہاں یا ناں کے بجائے بلاول کو گلے لگایا، روایتی مہمان نوازی کی، اصولی موقف سامنے رکھا اور زرداری صاحب کی تجاویز کے جواب میں فقط اتنا ہی کہا ''موقع محل آ لین دو فیر ویکھاں گے‘‘۔
دال ماش پر ہاتھ صاف کرتے ہوئے حکمران جماعت کے رہنما گویا ہوئے، قہوہ ملے گا؟ میزبان نے اثبات میں سر ہلایا تو موصوف نے قہوے کے اجزا بھی گنوا دیے کہ قہوہ ہو تو ایسا ہو، یعنی دارچینی، لونگ، ادرک اور پودینے کو پانی میں ایک سے زائد بار ابال دیجیے، قہوہ تیار ہو تو اس پر چند قطرے لیموں نچوڑ لیں تو بات بنے گی۔ پوچھا: صاحب! عجب بات ہے، اپنے نظام انہضام بارے تو آپ بہت فکر مند ہیں، نسخے بھی ہمراہ رکھتے ہیں، معمولات میں ذرہ برابر بھی گڑبڑ نہیں ہونے دیتے تو پھر یہ کیا؟ کبھی عبدالقادر تو کبھی سنجرانی صاحب کیلئے ہر حد تک جانے کی باتیں، یہ سب کیا ہے؟ وہ بولے: دیکھئے! وقت کی یہ مجبوری ہے، سنجرانی ضروری ہیں، ان کی نامزدگی آناً فاناً نہیں ہوئی، حالانکہ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کیلئے ہمیں وقت لگا۔ شیخ صاحب نے درست فرمایا کہ سنجرانی صاحب کے موکل تگڑے ہیں۔ ایک باری گیلانی صاحب کی تھی تو دوسری سنجرانی صاحب کی ہے، دو چار ووٹ کوئی مسئلہ نہیں ہیں، بہ آسانی یہ منزل طے ہو سکتی ہے۔ بڑی سیٹ ہماری چھوٹی ان کی، قصہ تمام! پی پی رہنما طویل خامشی کے بعد استفسار کرنے لگے کہ ہم ایسا انتظام کریں تو غلط‘ آپ دو چار ووٹ آگے پیچھے کریں تو درست، یہ کیا عجب تاویل ہے بھائی؟ وہ بولے:؎
دیکھ اے حسنِ فراواں یہ بہت ممکن ہے
مرا دل تک نہ لگے ترے خزانے لگ جائیں
اور یہ کہ؎
تو محبّت کی غرض لمحۂ موجود سے رکھ
ترے ذمّے نہ مرے درد پرانے لگ جائیں
پی پی کے سائیں نے ترنت جواب دیا کہ نہیں صاحب! محبت دو طرفہ تھی، رہی نہیں، اب مجبوری ہے اور شک ہے کہ:؎
یہ محبّت نہ کہیں ردِعمل بن جائے
ہم ترے بعد کوئی ظلم نہ ڈھانے لگ جائیں
بات آگے بڑھی‘ رات آگے بڑھی، پچھلے پہر سرکار کی نمائندگی کرنے والے ہمارے دوست اعتراضات پر مبنی گفتگو سن سن کر تنگ سے ہو گئے تو دل کی باتیں زبان تک لانے لگے، کہا: چند روز قبل ایک ٹی وی پروگرام میں طارق بشیر چیمہ نے کہہ دیا کہ ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ پنجاب سرکار ڈیلیور نہیں کر پا رہی، پھر متحدہ کے عامر خان کو سن لیں، ان کا سیزن ہے، کہہ رہے تھے کہ سرکار کے ساتھ دو معاہدے ہوئے، دونوں پر عمل درآمد سست روی کا شکار ہے، شیخ صاحب کو دیکھ لیں، برملا کہہ رہے ہیں کہ تحریک انصاف کا نام عمران خان ہے وگرنہ بڑے بڑے رہنما کونسلر تک منتخب نہ ہوں۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ادراک کرنے والوں کی کمی ہے، ہلہ شیری دینے والے بہتات میں پائے جاتے ہیں، ادراک کا معاملہ اگر ہے بھی تو یہ بہت محدود پیمانے پر، سکیل بھی وہ جس کا عمل محض اپوزیشن سے جڑا ہوا ہے۔ ایک خیال ہے کہ آخری سال تک پنجاب بھر میں ہیلتھ کارڈ کی تقسیم سے ہمدردری کا ووٹ حاصل کر لیں لیکن تب تلک باقی اشاریے شاید سپورٹ میں نہ رہیں۔ کہا: سیانے لوگوں سے مل بیٹھیں، شاید کوئی حکمت کی بات پلے پڑ جائے، بولے: سیانوں سے ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں، سیانوں کی تھپکی شامل حال ہے لیکن حالیہ ملاقات میں تو ہم محض سامع تھے‘ جواب تک دینے کی اجازت نہ ملی، اس سے اندازہ کر لیجیے کہ کیا گفتگو ہوئی ہو گی۔ میزبان نے بات سمیٹتے ہوئے لقمہ دیا کہ پھر کیا طے ہوا؟ ایلفی پگھل گئی کیا؟ بادی پن دور ہوا؟ ادرک مل گیا؟ کالی شلوار قمیص میں ملبوس حکمران جماعت کے رہنما نے بات گھمانے کے بجائے تابش کا مقطع پیش کیا اور چل دینے میں ہی عافیت جانی؛؎
پاس ہی ڈوب رہی ہے کوئی کشتی تابشؔ
خود نہیں بچتے اگر اس کو بچانے لگ جائیں