کاہے کی چِنتا؟ ایک ’تُنکا‘ ہی تو مارا ہے

Sealantکسی چیز کو مہر بند کرنے والے مسالے یا گلو کو کہتے ہیں، آپ اسے ایلفی کہہ لیں۔یہ سیلنٹ اگر کوئی سی دو سطحوں کے درمیان چپک جائے تو ان سطحوں کے ساتھ زور زبردستی مہنگی پڑتی ہے‘ سطح اگر مرتفع پوٹھوہار سی ہو تو فزکس کے قوانین کے مطابق‘ یہ ایلفی زیادہ دیر قائم نہیں رہتی۔ سائنس بتاتی ہے کہ دو ہموار سطحوں کے بیچ ایلفی البتہ دیر پا ثابت ہوتی ہے۔ زرداری صاحب کا ماننا رہا ہے کہ ایلفی زور زبردستی سے نہیں ہٹائی جا سکتی، نقصان ہو سکتا ہے۔ یہ گلو پگھلائی جا سکتی ہے اور اسے پگھلانے کے لئے دیسی اور ولایتی‘ دونوں فارمولوں پر انحصار کیا جا سکتا ہے۔ موصوف نے اپنے سیاسی گیان سے پی ڈی ایم کو تو رام کیا ہی ساتھ ساتھ سیلنٹ کو پگھلانے کا کام بھی جاری رکھا۔ یہ پگھلی نہیں، ہٹی نہیں، البتہ اس پر موم چڑھائی گئی ہے۔ سیلنٹ‘ سیلنٹ ہے، قائم رہتی ہے مگر جب ہٹتی ہے تو نقصان چھوٹی سطح والے چیز کو ہوتا ہے، بڑی چیز محفوظ رہتی ہے۔ فی الحال تاثرات پر مبنی یادداشتیں دستیاب ہیں، کیونکہ اس نے محض موم کا لبادہ اوڑھا ہے تاکہ بڑی سطح نقصان سے محفوظ رہ سکے۔
تاثر غیر جانبداری کا ہو یا سیاسی چال کے کمال کا‘ تاثر تاثر ہی رہتا ہے اور یہ دونوں تاثرات دیر پا نہیں رہیں گے۔ رات کے پچھلے پہر عارف نے عالمِ استغراق سے سر اٹھایا اور گویا ہوا ''آکاس بیل جڑوں اور پتوں کے بغیر موٹی ڈور کی طرح میزبان پودے کی غذا اور پانی چوس جاتی ہے، اس کے باوجود نہ اس کا کوئی پتا ہوتا ہے نہ جڑیں، نقصان فقط میزبان پودے کو ہوتا رہتا ہے‘‘۔
عرض کی: قبلہ! تو ایسے میں پھر سیلنٹ پر موم کیوں چڑھانا پڑی؟
فرمایا: پودا لگایا، پانی دیا، دیکھ بھال کی، پودا بڑا ہوا، آس پاس کے ماحول کی زد میں آیا، آکاس بیلیں خود ہی اپنے اوپر چڑھا لیں، بہتیرا سمجھایا کہ بیبا! آکاس بیلیں کاٹ ڈالو، نقصان دیں گی، بات نہ مانی، کئی بار کوشش کی گئی، بات ٹال دی گئی، آکاس بیل بھی ایسی جو سرسبز وشاداب پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کو متاثر کرتی ہے لیکن بات نہ مانی گئی۔ درخت تو لگایا تھا کہ پھل پھول دے، سایہ دے، ہریالی دے، درخت پھل دار ہونے کے بجائے سفیدے کے مانند تنا رہا، پانی چوستا رہا، زمین کلر زدہ ہونے لگی، اسی اثنا میں کانٹے دار درخت اس درخت کے گرد نباتاتی جال بننے لگ گئے ، حتیٰ کہ درخت کے رکھوالوں کو بھی نہ بخشا۔ بات شہر شہر، گلی گلی، قریہ قریہ جا پہنچی کہ ؎
بے نور ہو چکی ہے بہت شہر کی فضا
تاریک راستوں میں کہیں کھو نہ جائیں ہم
ایسے میں کسی نہ کسی سیانے کو تو حرکت میں آنا تھا، حرکت یہی تھی کہ جنگل کے باقی درختوں کے وجود سے انکار کی روش بدلی جائے اور درخت پر چڑھی آکاس بیلوں کو اتار پھینکنے کے لیے کوئی عمل کیا جائے۔ عمل یہی تھا کہ گلو پر موم لگا دی جائے تاکہ کوئی ناداں جاگ اٹھے۔
عرض کی: تشریح کیا ہوگی پھر اس حکمت بھری بات کی؟
فرمایا: لوکی سیانے نیں، گیانی نیں۔ تشریح کی ضرورت نہیں رہی۔
علی الصبح محفل برخاست ہوئی تو خاکسار اسی نتیجے پر پہنچا کہ اب ''ستے خیراں نیں‘‘ والا معاملہ مشروط ہو چکا۔ اب کچھ کر گزرنا ہو گا، تبدیلیاں ناگزیر ہو چکیں، ظہور الٰہی روڈ پر رش بڑھے گا، مفاہمتی عناصر کا میل جول معمول سے زیادہ ہو گا، گوجرانوالہ سے شروع ہوا سلسلہ جب لاہور میں اچانک ہومیو پیتھک ہوا تھا‘ تبھی سوچنے والوں نے قیاس آرائی کر لی تھی کہ تصادم سے گریز ہی فریقین کی بقا کو لازم بنا سکے گا۔ اس گریز پر گرہ زرداری صاحب نے لگا دی۔ شروع میں تو اپوزیشن الائنس کی بڑی جماعتیں زرداری فارمولے پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتی رہیں لیکن رائیونڈ میں ہوئی پی ڈی ایم کی ایک حالیہ سربراہی ملاقات میں زرداری صاحب گھنٹہ ڈیڑھ مکالمہ کرتے رپورٹ ہوئے‘ اہم پتے جو شو کیے جا سکتے تھے‘ شو کیے اور بدلے میں تمام جماعتوں کی یکسوئی اور ہمنوائی اپنے نام کرتے ہوئے سائن آف کر گئے۔
اب آخری اطلاعات کے مطابق زرداری صاحب اپنے گیان کا عملی مظاہرہ گیلانی صاحب کی جیت کی صورت میں پیش کرنے کے بعد الیکٹرانک سگریٹ کے ایک دو کش لیتے ہوئے قہوہ نوش کرتے دور کہیں کونے میں بیٹھے مسکراتے پائے گئے ہیں۔ کچھ خفا بھی تھے کہ ووٹ کم کیوں ہوئے، کھوج لگایا تو معلوم ہوا کہ ووٹ واقعی زیادہ ہو سکتے تھے، لیکن ووٹ زیادہ ہو جاتے تو پھر اخلاقی طور پر حکومت قائم رہنے کا اخلاقی جواز شدید خطرے سے دو چار ہو جاتا، حالات یکسر بدل جاتے لہٰذا ڈے اینڈ نائٹ ون ڈے میچ کے آخری اور سنسنی خیز لمحات میں ''پاور پلے‘‘ کی برکت ڈالی گئی تا کہ ''تُنکا‘‘ بھی لگ جائے اور فریقین بھی راضی ہو جائیں۔
زرداری صاحب کا ماننا ہے کہ ایلفی ہٹانی نہیں‘ پگھلانی ہے۔ ایلفی پگھلے گی تو ہی اہداف آسان ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم فی الحال تحریک عدم اعتماد نہیں لائے گی۔ کب اور کہاں تحریک عدم اعتماد لانی ہے، پی ڈی ایم اب اس نکتے پر غور کرے گی۔ بقول شخصے‘ پنجاب اس عمل کے لئے نسبتاً بہتر ہدف رہے گا۔ درخت کو آکاس بیل ہٹانے کا مشورہ دینے والوں کو بھی اپوزیشن کے اس ہدف پر چنداں اعتراض نہ ہوگا۔ رہ گئی قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کی کہانی تو صاحب! تُرپ کا پتّا اسی صورت کھیلا جاتا ہے جب ہوائیں واقعتاً تبدیلی کا پتا دے رہی ہوں کیونکہ یہ طے کرنا ابھی مشکل ہے کہ گلو پگھلے گی یا موم کا لبادہ اوڑھے رکھے گی۔ اس سوال کا جواب اسی صورت ملے گا جب حالیہ تُنکے کی کامیابی اور ناکامی کی دھند چھٹ جائے گی۔
یہاں یہ سمجھنا از حد لازم ہے کہ ''تُنکا‘‘ کیا شے ہے۔ پتنگ بازی کرتے ہوئے جب ڈور کو مسلسل ڈھیل دی جائے تو پتنگ بے سمت ہونے لگتی ہے، ادھر ادھر منڈلانے لگتی ہے، ڈور میں بھی تندی نہیں رہتی، ڈور لہروں کی مانند ہچکولے کھانے لگتی ہے، ایسے میں پتنگ اور ڈور کی سنگت کو یقینی بنانے کے لئے پتنگ باز اچانک ''تُنکا‘‘ مارنے لگتا ہے تاکہ پتنگ اوپر اٹھے، ڈور تنی رہے اور ''سموتھ سیلنگ‘‘ ہوتی رہے۔ حالیہ واقعات کے بعد پیش آئی صورتحال پر اندرونِ لاہور میں قلعہ گجر سنگھ کے ایک جدی پشتی حکیم صاحب کا تبصرہ یہی تھا کہ ''کاکا کُج نئیں ہویا، سائیاں 'تُنکا‘ ماریا اے...‘‘
تُنکا کس حد تک کامیاب ہوتا ہے، یہ اصل نکتہ ہے۔ تُنکے کے چکر میں دیگر پتنگ باز کس حد تک فائدہ اٹھاتے ہیں، یہ ان کی یکسوئی اور حکمت عملی پر منحصر ہو گا۔ ظہور الٰہی روڈ پر البتہ رش ضرور لگے گا، قابل بھروسہ مہروں کی اشد ضرورت ہو گی کہ ڈھانچے میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں لازم ٹھہر چکی ہیں۔ کپتان پُرعزم ہے، کپتان ڈٹا ہوا ہے، لیکن اس سے کیا ہوگا؟ کیا واحد مشن اپوزیشن سے نمٹنا ہی ہے؟ اگر یہی واحد مشن ہے تو یہ عزم اور یہ ڈٹ جانا ڈیلیور نہیں کر پائے گا، ڈیلیوری کے لئے آکاس بیلیں کاٹنا ہوں گی، درخت میں پھل دار پودے کی گرافٹنگ کرنا ہو گی، جنگل کے قوانین بدلنا ہوں گے۔ باتوں سے‘ نعروں سے‘ بیانیے سے‘ بھوک پیاس بجھانے کے دن گئے۔ نعروں پر فوکس کرنے والے مہربان نہیں‘ نادان ہیں۔
اہداف بڑے ہیں، حالات نامساعد‘ ڈھائی برس گزر گئے، رستے ہموار نہ ہو سکے۔ بنیادی تبدیلیاں رونما نہ ہو سکیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا معاملہ اب پرانا ہو چکا ،''علاقائی ربط اور بلیو اکانومی‘‘ اگلی منزل ہے۔ اس منزل کے حصول کے لئے وطن عزیز میں سیاسی استحکام از حد لازم ہے لیکن افسوس کہ یہ استحکام اب تلک ایک دیوانے کے خواب کی سی ہی حیثیت رکھتا ہے۔ منیر نیازی نے کہا تھا ؎
کج شوق سی یار فقیری دا
کج عشق نے در در رول دتا
کج ساجن کسر نہ چھوڑی سی
کج زہر رقیباں گھول دتا

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں