نا اہلی، نیب ریفرنسز ، حدیبیہ ، دہکتا سلگتا سانحہ ماڈل ٹائون کیس اور ڈار صاحب۔ جی ٹی روڈ سے واپسی، این اے ایک سو بیس کی انتخابی مہم اور پھر وکٹری سپیچ کے بعد پانی سر تک جا پہنچا تھا۔ معاملات پوائنٹ آ ف نو ریٹرن کے قریب تھے ۔ انگریزی زبان کا ایک لفظ ہے ، "کلمی نیشن' جو طویل عرصے کی جدوجہد کے بعد مقام اوج کو ڈیفائن کرتا ہے ۔ یہاں طویل عرصے سے جاری حماقتوں کے بعد اب بگاڑ "کلمی نیٹ''ہو رہا ہے جو کسی ایک کو نہیں بلکہ کئی ایک کو لڑھکانے کیلئے بیتاب کھڑا ہے ۔ قابل قبول پلان تویہی تھا کہ بڑے میاں رائیونڈ بیٹھک لگاتے ، پارٹی منظم کرتے ، عہدیداروں سے، کارکنوں سے ملتے اور ان سب سے بھی میل ملاقات کا سلسلہ شروع کرتے جنہیں کابینہ اور اسمبلی میں ہوتے ہوئے بھی گزرے چار برسوں میں ملاقات کا وقت نہ دیا جا سکا۔ دختر نیک بخت کووفاق میں مصروف رکھتے کہ انکے انداز سیاست میں مزید پختگی اور نکھار مزید مشق کا متقاضی ہے ۔ چکری کے ناراض راجپوت کو بھتیجے حمزہ کے ہمراہ پنجاب کی دیکھ بھال سونپتے اور اگلے انتخابات کی تیاری کی جاتی۔ لیکن پہلے ٹیسٹ میچ کی اس دوسری اننگز میں ایسا ممکن نہ ہوا حالانکہ ٹاس بڑے میاں صاحب نے جیتا تھا پہلی تین اننگز تک تو پچ فلیٹ تھی، اچانک چوتھی اننگز میں پچ خوفناک حد تک ٹرن لینا شروع ہو گئی اور یوں بظاہر ڈرا ہوتا ٹیسٹ آخری اننگز میں نتیجہ خیز ثابت ہوا۔ اب میدان تو وہی ہے لیکن دوسرے ٹیسٹ میچ میں ٹاس ہار چکے ہیں، پہلی اننگز میں تمام ریویوز ضائع ہو چکے ہیں، جہاں سپن بائولنگ کو ترجیح دینا تھی وہاں بدستور تھکے ہارے فاسٹ بائولرز لگا ئے جا رہے ہیں۔ فالو آن ہونے کا خدشہ منڈلا رہا ہے ،دوسرا ٹیسٹ ہار کر سیریز ہاتھ سے نکل سکتی ہے ، لہٰذڈار صاحب کو بٹھا دیا جائے تو ڈرا کی صورت بہر حال نکل سکتی ہے ۔ سیانے بابے بھی ڈرا کا مشورہ دے رہے ہیں، وکٹیں ہاتھ میں رکھتے ہوئے وقت گزارنا ہے ۔ پچ تبدیل نہیں ہوگی۔ بیٹنگ مشکل سے مشکل ہوگی لیکن صبر درکار ہے ۔آئی سی سی کے نئے قوانین کے مطابق ریڈ کارڈ دکھا کر باہر بھیجے گئے میاں صاحب کو دوبارہ ٹیم کی قیادت کرنے کی اجازت مل چکی ہے ۔ انہیں اسے غنیمت جانتے ہوئے اسی پلان پر اکتفا کرنا ہوگا جس کا ذکر پہلے ہو چکا۔ چھوٹے بھائی صاحب کو وفاق بھیج دیں، چوہدری صاحب کو حمزہ میاں کے ہمراہ پنجاب دیکھنے کی ذمہ داری سونپ دیں اورسیریز کے دوسرے ٹیسٹ میچ کو ڈرا کریں۔ تیسرا ٹیسٹ اگلے سال مارچ کے بعد کھیلا جانا ہے ۔ جلد بازی نہیں بلکہ ہو ش اور ذمہ داری سے کام لیا جائے تو اگلے ٹیسٹ میں نتائج بدل سکتے ہیں۔وگرنہ موسم آڑے آ گیا تو تیسرا ٹیسٹ کھیلنا محال ہو جائے گا ایسے میں سیریز ایک صفر سے ہارنے کا طوق گلے میں لٹکاناپڑ سکتا ہے ۔
یقین نہ آئے تو پنجا ب میں پرانے لیگی عمائدین اورپارلیمنٹرین سے کسی کونے میں میں جا کر بات کر دیکھیں، چوہدری نثار کی آواز کو اپنے دل کی بھڑاس کہتے ہیں۔ بڑے میاں کی کال پر لبیک کہنے والے یہ حضرات اندر سے دُکھی ہیں کہ چھوٹا بھائی معاملات کی اچھی خاصی جانکاری رکھنے کے باوجود بھی وفا کا پیکر بنا رہتا ہے ۔ بزرگ رہنماوں کا گلہ شکوہ ہے کہ مشرف دور کے لوٹوں کو پہلی پہلی بار ہی کابینہ کا حصہ بنا دیا گیا ۔ اس کارنامے پر انہیں رنج ہے ۔ یہ دکھی ہیں۔ یہ خود کو بے وُقعت جانتے ہیں۔ بڑے میاں صاحب کو ان کے ہاں بیٹھک لگانی چاہیے ، کچھ دیر آرام کرنا چاہیے ، چائے کافی حتیٰ کہ لسی کی محافل سجانی چاہئیں، کبھی جاتی عمرہ تو کبھی ماڈل ٹائون۔ صاحب الرائے کالم نویس ارشاد بھٹی پاکستان کی ایک انتہائی موثر شخصیت کو 'چلتی پھرتی تاریخ' کے نام سے یاد کرتے ہیں، یہ وہی ہیں جو تازہ تازہ بڑے میاں سے دن دہاڑے مل آئے ہیں۔ اس ملاقات کو کسی نے ڈیل کی جانب پہلا اور موثر قدم قرار دیا تو کسی نے پیپلز پارٹی سے معاملات طے کرنے کی جانب اہم 'مائل سٹون' سے تشبیہ دی۔ اب ان آرا میں کتنی حقیقت ہے کتنا فسانہ یہ تو 'فرشتے ' ہی جانتے ہیں ۔ہمیں البتہ موکل یہی بتاتے ہیں کہ ملاقات میں دوسرے ٹیسٹ میچ کو ڈرا کرنے کی 'دوا'باہم پہنچائی گئی۔ ساتھ ساتھ آف دی میچ دیگر ٹیموں کے پیغامات پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔ اب یہ دوا کس حد تک کارگر ثابت ہوتی ہے اس کا اندازہ اکتوبر کے پہلے ہفتے میں ہی ہو جائے گا۔ 'کھیڈاں گے ناں کھیڈن دیا ں گے'کی صورت پر ہی بضد رہا گیا تو پھر پورا ٹَبر ٹیم سے تکنیکی بنیادوں پر آوٹ ہو سکتا ہے ایسے میں فطری پلان خود بخود ایک نئی سیاسی قوت کو جنم دے سکتا ہے جہاں نہ چاہتے ہوئے بھی چکری کے راجپوت کو اہم کردار ادا کرنا پڑے گا۔ لیکن یہ سیاسی قوت محض چوہدری صاحب کے ہمنوا تیس چالیس سیاستدانوں پر مشتمل نہیں ہو گی پھر اس میں اپوزیشن کی دو بڑی سیاسی جماعتوں بشمول کپتانی پارٹی کے کئی کرتا دھرتا بھی آن بسیں گے ۔ فی الحال تو امکان کم ہو اچاہتا ہے لیکن محاذ آرائی کی اخیر صورت میں ایسی فطری سیاسی قوت یقینا سامنے ابھر کر آسکتی ہے ۔ دلچسپ نقطہ یہ ہے کہ اس قوت کو پروان چڑھانے کیلئے کسی غیر مرئی سپورٹ کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ اسی مدعے کو میز کی دوسری جانب بیٹھ کر دیکھا جائے تو بھی صورتحال فطری سیاسی قوت کے جنم کا اشارہ دیتی ہے کیونکہ عدالت میں زیر سماعت مقدمات کی چومکھی ایسی خوفنا ک ہے کہ اس سے بچ نکلنا بظاہر مشکل دکھائی دے رہا ہے ۔ اس بساط کو' رول بیک 'کرنا انتہائی غیر فطری معلوم ہو گا۔ اس چومکھی سے کچھ نہ کچھ تو برآمد ہو کر ہی رہے گا۔
پس تحریر: پنجاب فوڈ اتھارٹی ملاوٹ مکمل ختم کرنے میں مکمل کامیاب تو نہیں ہوئی لیکن اس ادارے نے دھندے میں ملوث افراد کا جینا بہر حال محال کر رکھا ہے ، عائشہ ممتا ز کے بعد نورالامین مینگل اپنے منصب سے مکمل انصاف کرتے دکھائی دے رہے ہیں لیکن کیا کیجئے کہ کئی بین الاقوامی اداروں کے ایجنٹس حرکت میں آچکے ہیں اور اس اتھارٹی کا 'بھٹہ'بٹھانے کیلئے جوڑ توڑ میں مصروف عمل ہیں۔ حکمرانوں سے ہاتھ جوڑ کر التجا ہے کہ ا س اتھارٹی کو یرغمال ہونے سے بچایا جائے ۔ دودھ کے نام پر زہر ، مکھن کے نام پر ویجیٹیبل فیٹس، مرچوں کے نام پر رنگین بھوسہ، گھی کے نام پر خوفناک کیمیکل زدہ آلائشیں، صاف پانی کے نام پر ری فلڈ بوتلیں اور بیکریوں میں باسی اشیا بیچنے والے صوبے میں بیماریاں بانٹ رہے ہیں۔خدارا! ان دہشتگردوں کا ہاتھ روکنے والوں کے بازو نہ کاٹے جائیں۔