ہنڈرڈ پر’سینیٹ‘ زرداری!

دو چار روز پہلے کی بات ہے کہ بلوچستان کے بظاہر آزاد سینیٹرز سے ملاقات کے بعد کپتان کا فرمان تھا کہ انہوں نے اپنے تیرہ سینیٹرز بلوچستان کے دوستوں کے حوالے کر دیئے ہیں۔ اب ظاہر ہے نواز شریف کی مخالفت میں اتنا تو بنتا ہی تھا نا! پھر زرداری صاحب نمودار ہوئے‘ وہاں بلوچستان کے بظاہر آزاد سینیٹرز نے فرمایا کہ انہوں نے اپنا وزن جناب زرداری صاحب کے پلڑے میں رکھ دیا۔ اور یوں مثلث نما پُل کی شکل واضح ہو گئی۔ سیدھی سی بات ہے کہ جناب کپتان براہ راست تو زرداری صاحب سے ہاتھ ملانے سے رہے تو ایسے میں بلوچستان کے بظاہر آزاد نمائندوں نے دونوں رہنمائوں کے درمیان پُل کا کردار ادا کیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ غیر فطری 'ہمراہی‘ تھک ہار کر ایک روایتی صبح کا سورج طلوع کرے گی یا گہری اندھیری رات کا پر خطر سفرکسی 'انقلابی‘ دن کا آغاز ثابت ہو گا؟ سوال اپنی جگہ موجود تھا کہ کپتان پھر آئے اور کہا کہ زرداری صاحب کے نامزد امیدوار کو ووٹ نہیں دیں گے۔ تو اگلا سوال یہ ہے کہ پھر کسے ووٹ دیں گے؟ 
بہرحال‘ ہماری سیاست اللہ کے فضل و کرم سے کبھی بھی بوریت کا احساس نہیں ہونے دیتی، صبح شام‘ رات دن‘ چوبیس گھنٹے دلچسپی کا ساماں موجود رہتا ہے۔ اب سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخابات کو ہی دیکھ لیجئے‘ نمبر گیم انتہائی زیادہ دلچسپ صورتحال اختیار کر چکی ہے۔ باون یا تریپن ووٹ جیب میں ہوں تو مرضی کا چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین پیش کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کارن سب سے زیادہ وزنی ووٹ فاٹا (آٹھ)، بلوچستان کے بظاہر آزاد سینٹرز (چھ) اور مولانا فضل الرحمن کے چار سینیٹرز کے پاس ہیں۔
مسلم لیگ نواز کے پاس تینتس سینٹرز موجود ہیں‘ فاٹا کے دو سینیٹرز نواز لیگ کی بیعت کر چکے، اچکزئی صاحب کی پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے پانچ، ڈاکٹر مالک کی نیشل پارٹی کے پانچ ملا لیں تو مجموعہ پنتالیس بنتا ہے۔ مولانا بارے پکی اطلاع ہے کو وہ آخری وقت تک اپنے کارڈز شو آف نہیں کریں گے۔ وجہ بھی سن لیجئے۔ جماعت اسلامی اور مولانا بظاہر رضا ربانی کے نام پر کیوں اثبات میں سر ہلا رہے ہیں؟ اس لئے کہ دوسری صورت میں حاصل بزنجو کا نام لیا گیا تو مولانا کو معیوب گزرے گا۔ مولانا اب کے بار بھی ڈپٹی چیئرمین اپنی جماعت سے منتخب کروانا چاہ رہے ہیں۔ اسی لئے وہ لین دین کے مکمل موڈ میں پائے جا رہے ہیں۔ مولانا کے چار ووٹ بھی (ن) لیگ حاصل کر لے تو بھی تریپن کے جادوئی فگر کے لئے انہیں چار مزید ووٹوں کی ضرورت ہو گی۔ اس صورت میں جماعت اسلامی کے دو، عوامی نیشنل پارٹی کا ایک اور فنکشنل لیگ کا ایک ووٹ ان کی مشکل حل کر سکتا ہے۔ بدلے میں ان چار قیمتی ووٹوں کو سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹیوں کی سربراہی پیش کی جا سکتی ہے۔ متحدہ کے سینیٹر عتیق اور بی این پی مینگل کا ایک ووٹ بھی 'سی سا‘ کی اس جنگ میں انتہائی وزنی ثابت ہو سکتا ہے۔
اب دوسری جانب کا سکور کارڈ دیکھیں تو بقول قیوم سومرو‘ ستاون ووٹ ان کی جیب میں آ چکے۔ بظاہر یہ دعویٰ حقیقت کے منافی ہے۔ فاٹا کے ایک رکن کی حمایت کے بعد تحریک انصاف کے تیرہ ووٹ‘ بلوچستان کے چھ بظاہر آزاد سینیٹرز کے ہو چکے، اور یہ بیس زرداری صاحب کے ساتھ مل کر مجموعہ انتالیس کا بناتے ہیں۔ متحدہ کے بظاہر پانچ ووٹ ہیں، ان میں ایک پنڈی سے سینیٹر عتیق ہیں، یہ وہی سینیٹر عتیق ہیں جنہوں نے الیکشن ایکٹ 2017ء میں اپنا ووٹ حکمران جماعت کو دیا تھا، یہی نہیں بلکہ موصوف عام انتخابات میں شیخ رشید کے مقابلے میں نواز لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنا چاہتے ہیں۔ یوں متحدہ کے چار ووٹ ہی تصور کیجئے۔ ویسے بھی فاروق ستار بھائی نواز شریف سے ناراض ہیں کہ انہوں نے اپنے وعدے پورے نہیں کئے۔ متحدہ کا ناراض دھڑا بھی
کوشش کر لے توان چار ووٹوں کی قسمت کا فیصلہ نہیں کر پائے گا۔ تو ان چارو وٹوں کے بعد زرداری صاحب اینڈ کمپنی کا مجموعہ ہو گیا تینتالیس۔ یہاں فاٹا کے آٹھ میں سے باقی بچ جانے والے پانچ ووٹوں کو بھی شامل کر لیں تو بات اڑتالیس تک جا پہنچتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن تشریف لے آئیں تو باون کو ترپن یا چوون کرنا زرداری صاحب کیلئے قطعاً مشکل نہیں ہوگا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ جماعت اسلامی کے دو ووٹ یہاں اس پلڑے میں کیوں نہیں ڈال جا رہے؟ تو اس کی وجہ بظاہر یہی ہے کہ جماعت اسلامی نے خیبر پختونخوا میں معجزاتی طور پر جو دو سیٹیں جیتی ہیں‘ وہ امیر مقام کے ساتھ کی وجہ سے ہی ممکن ہوئی ہیں۔ لہٰذا جماعت کیلئے اس دھڑے کو ووٹ دینا بہت مشکل ہوگا اور یہی وجہ ہے کہ سراج الحق صاحب بھی رضا ربانی کے نام کی مالا جپ رہے ہیں۔ فنکشنل لیگ کا ایک ووٹ بھی بہت قیمتی ہے، سعد رفیق اور مشاہد اللہ خان دعویٰ کرچکے کہ پیر صاحب نے غیر مشروط حمایت کا یقین دلایا ہے لیکن یاد رہے کہ فنکشنل لیگ نے یہ سیٹ سندھ اسمبلی میں محض نو اراکین صوبائی اسمبلی کے سہارے اپنے نام کی ہے لہٰذا اس ووٹ کا مستقبل زیادہ واضح نہیں ہے۔ اسی لئے عرض کی تھی کہ پچاس کے بعد ترپن یا چوون کا میجک فگر کیسے حاصل کرنا ہے‘ یہ زرداری صاحب کے بائیں ہاتھ کا کھیل ثابت ہو گا۔ اور سن لیجئے! مانڈوی والا کا نام محض دکھاوا ہے، فاروق ایچ نائیک زرداری صاحب کو پسند ہیں، شیری رحمن دوسری ترجیح ہیں۔ ادھر عزیزی بلاول کے کچھ سینئر رہنما اب بھی رضا ربانی کیلئے ہی کوششیں کر رہے ہیں۔ حکمران جماعت حاصل بزنجو اور مشاہد حسین سیّد کے ناموں پر ہی غور کرے گی اور ڈپٹی چیئرمین کے لئے بلوچستان کے بظاہر چھ آزاد سینٹرز آس لگائے بیٹھے ہیں۔
بہرحال، گنتی کا یہ گورکھ دھندہ دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ ٹیڑھی کھیر کی مانند ہوتا جا رہا ہے، جہاں اصولاً تو حکمران جماعت معرکہ سر کرتے نظر آنی چاہیے لیکن درحقیقت زرداری صاحب کا ہوم ورک بہت تگڑا ثابت ہو رہا ہے۔ موصوف چیئرمین سینیٹ پیپلز پارٹی سے اور ڈپٹی چیئرمین بلوچستان کے آزاد سینیٹرز میں سے لانا چاہتے ہیں۔ فاٹا کے اراکین کی حمایت اور مولانا کے ووٹوں کے بدلے انہیں سٹینڈنگ کمیٹیوں کی سربراہی پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، لیکن مولانا اس پر راضی نہیں۔ وہ ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ مانگ رہے ہیں۔ یہاں کپتان کے ہاتھ کیا لگے گا؟ یہ وہ سوال ہے جو تحریک انصاف کے اکثر دوست پوچھتے ہیں۔ سچ پوچھئے تو اس کا واضح جواب خود کپتان کے پاس بھی نہیں ہے۔ وہ تو بس کسی نہ کسی طرح نواز شریف کا راستہ روکنا چاہتے ہیں۔ پاپولر نعرہ البتہ انہوں نے لگا دیا ہے کہ چیئرمین سینٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ فاٹا اور بلوچستان سے ہونا چاہیے۔ اس نعرے کے ذریعے وہ زرداری صاحب کی اپنی ہی جماعت کیلئے جاری پیش قدمی کے آگے بند باندھنے کی ایک بائونسر نما کوشش کر رہے ہیں۔
دوسری جانب اصل مشکل مولانا، بلوچستان کے چھ بظاہر آزاد سینیٹرز اور فاٹا کے اراکین ہیں۔ ان میں سے کسے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کی سیٹ دی جائے اور کسے محض سٹینڈنگ کمیٹیوں کی چیئرمین شپ پر ہی رام کیا جائے؟ یہاں اصل امتحان نواز شریف اور زرداری کی سیاسی حکمت کا ہے۔
ابھی چند ماہ پہلے ہی تو انہوں نے کہا تھا کہ آئندہ چیئرمین سینیٹ کون ہو گا‘ یہ فیصلہ بھی ہم کریں گے۔ انہوں نے درست فرمایا تھا۔ ان کے اس اعلان کے بعد بلوچستان میں عین جمہوری طریقے سے عین سیاسی تبدیلی وقوع پذیر ہوئی اور پھر عین حقیقی نمائندوں نے وہاں سے بظاہر چھ آزاد سینیٹرز کا چنائو کیا اور انہیں زرداری صاحب کی پلیٹ میں لا رکھا۔ اب بھی آپ پوچھتے ہیں کہ یہ کیا گورکھ دھندہ ہے؟

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں